ضلع پنچایت صدر، گاؤں، کسان اور مہنگائی

0

محمد حنیف خان

گاؤں، کسان اور کھیتی ہندوستان کی اصل شناخت ہے۔ اگر ان ہی پر خطرات کے بادل منڈلانے لگیں تو یہ خطرہ اصلاً ہندوستان پر تصور کیا جائے گا۔اس وقت ملک کا کسان سب سے زیادہ کسمپرسی کی زندگی گزار رہا ہے۔ ماحولیات کے عدم توازن نے کسانوں کی زندگی کا توازن بگاڑ دیا ہے۔ماحولیات نے سب سے زیادہ معاشی سطح پر کسانوں کی کمر توڑی ہے ۔کبھی حد سے زیادہ بارش تو کبھی خشک سالی ان دونوں نے زراعت کے شعبے کو تباہ کردیا۔ اس وقت جو بھی کھیت میں پیدا ہو رہا ہے وہ موسم کے بجائے تکنیک،کھاد، پانی اور دواؤں کی وجہ سے ہو رہا ہے جس میں بے انتہا صرفہ آتا ہے ۔کسانوںکی خرچ کی ہوئی رقم بمشکل واپس ہوپاتی ہے مگر ان کے پاس مجبوری یہ ہے کہ ملازمت نہیں ہے تو کھیتی کسانی کے علاوہ کریں تو کیا کریں؟ اس لیے مجبوراً وہ بے فائدے کی کھیتی میں لگے ہوئے ہیں۔ دوسری طرف حکومت ڈیزل جیسی انتہائی ضروری شے کو پرائیویٹ ہاتھوں میں دے کر اپنا خزانہ بھر رہی ہے۔
گاؤں اور کسان کی بھلائی کا مسئلہ یوں تو ہر الیکشن سے جڑا ہوتا ہے لیکن ضلع پنچایت ممبر اور صدور کا الیکشن خالص دیہی عوام کی فلاح کے لیے ہوتا ہے جس میں جیت اور ہار کو کسانوں سے جوڑ کر دیکھا جاتا ہے ۔اترپردیش ملک کی سب سے بڑی ریاست ہے،جہاں حال ہی میں ضلع پنچایت صدور کا الیکشن ہوا ہے جس میں حکمراں پارٹی کو شاندار کامیابی ملی ہے۔وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ سے لے کر وزیر اعظم نریندر مودی تک نے ٹوئٹ کے ذریعہ اپنی خوشی کا اظہار کیا اور اس جیت کو اپنی پالیسیوں اور مفاد عامہ میں کیے گئے کاموں کا پھل بتایا۔ وہ اس الیکشن کو 2022میں اترپردیش میں ہونے والے اسمبلی الیکشن کا سیمی فائنل بھی مان رہے ہیں۔چونکہ اس الیکشن کا راست تعلق دیہی عوام/ کسانوں سے ہے اگر حکمراں پارٹی کو اس میں کامیابی ملی ہے تو یقینا کسان خوش ہوں گے۔لیکن یہ حقیقت نہیں ہے۔ بی جے پی نے ریاست کی کل 75سیٹوں میں سے 67پر جیت حاصل کی ہے ۔حالانکہ جو ضلع پنچایت ممبر صدر کے اس الیکشن میں ووٹنگ کرتے ہیں، ان ممبران کی تعداد کا اگر جائزہ لیا جا ئے تو حکمراں پارٹی بہت پیچھے رہ جاتی ہے۔ 3050سیٹوں میں سے محض 750سیٹوں پر حکمراں پارٹی کے حمایت یافتہ امیدار کامیاب ہوئے تھے جبکہ 828 امیدوار سماج وادی اور آر ایل ڈی کے حمایت یافتہ تھے باقی دیگر پارٹیوںکے امیدواروں کو کامیابی ملی تھی مگر صدرکے الیکشن میں بی جے پی نے بازی ماری۔یہ کیسے ہوا؟یہ ایک بڑا سوال ہے۔اس کی ایک طویل تاریخ ہے۔جو پارٹی بھی حکومت میں ہوتی ہے وہ اس میں کامیابی حاصل کرتی ہے کیونکہ اس میں پیسے اور خوف کا کھیل ہوتا ہے۔یہ آج سے نہیں ہے بہت پہلے سے ہے،اس حقیقت سے ہر کوئی واقف ہے،اس سے قبل 2016میںجب سماجوادی پارٹی اقتدار میں تھی تو اس نے 65ضلع صدور کی سیٹوں پرجیت حاصل کی تھی۔اس نے بھی 2017میں ہونے والے الیکشن میں اپنی جیت کا دعویٰ کرتے ہوئے اس کو سیمی فائنل قراردیا تھا مگر اس کے بعد بری طرح سے اس کو شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا۔

اگر حکومت حقیقت میں کسانوں کی زندگی آسان بنانا چاہتی ہے تو اس کو منڈیوں میں بھی ایم ایس پی کو نافذ کرنا ہوگا اور اس سے کم قیمت پر خریداری پر تعزیری قانون بنانا ہوگاجس کے بغیر کوئی چارہ نہیں ہے۔ حکومت اگر ایسا نہیں کرتی ہے تو یہ مانا جائے گا کہ وہ کسانوں کو صرف جملوں سے بہلانا چاہ رہی ہے، حقیقت میں ان کے لیے کچھ نہیں کرنا چاہتی ہے۔ یہی وہ دروازہ ہے جس سے کسانوں کی آمدنی دوگنا کرنے کا وزیراعظم کا خواب نہ صرف پورا ہوسکتا ہے بلکہ کسان خوشحال ہو کر ملک کی ترقی میں اہم کردار ادا کرسکتا ہے۔

اس الیکشن اور کسانوں کے مسائل کو ایک تناظر میں دیکھنے کی ضرورت اس لیے پڑی ہے کیونکہ دعویٰ اور حقیقت دونوں میں بعد المشرقین ہے۔یہ ایسا تضاد ہے جسے کوئی بھی کھلی آنکھوں سے دیکھ سکتا ہے۔سچ تو یہ ہے کہ صرف اترپردیش ہی نہیں پورے ملک کا کسان پریشان ہے۔ مہنگائی نے ان کی زندگی کو تباہ کر رکھا ہے۔ اس کے باوجود دعویٰ ہے کہ مفاد عامہ میں کیے گئے کاموں کی وجہ سے ان کو اتنی بڑی کامیابی ملی ہے۔ڈیزل اور پٹرول کے علاوہ اشیا خوردنی کی مہنگائی آسمان پر ہے،ہر طرف ہو کا عالم ہے، جس میں سب سے زیادہ کسانوں کو دشواریوں کا سامنا ہے ۔ایک طرف ان کو گندم 1200روپے فی کوئنٹل فروخت کرنا پڑا تو دوسری طرف اب کھاد بیج،جوتائی اور کھیت میں پانی کے لیے ان کو جو مہنگی قیمت ادا کرنی پڑی رہی ہے وہ ان کا دل ہی جانتا ہے۔بارہ سو روپے کوئنٹل گندم فروخت کر نے کے بعد دھان کے بیج ان کو چار سو سے پانچ سو روپے کلو خریدنے پڑے ہیں۔دھان ایک ایسی کھیتی ہے جس کے لیے پانی کی سب سے زیادہ ضرورت ہوتی ہے لیکن اب تک جو بارش ہوئی ہے وہ دھان کی روپائی کے لیے ناکافی رہی ہے اس لیے مجبوراً کسانوں کو پمپ سیٹ کا سہارا لینا پڑ رہا ہے جو بغیر ڈیزل کے چل نہیں سکتا اور ڈیزل روزانہ سیکڑے کی طرف بھاگ رہا ہے۔ہندوستان کی تاریخ میں یہ پہلی بارہے جب ڈیزل سنچری سے محض دس قدم دور رہ گیا ہے۔ مہنگائی کے اس عالم میں بھلا کسان کی زندگی کیسی ہوگی سوچا جا سکتا ہے۔اسی طرح کھیت کی جوتائی اب روایتی طور پر بیلوں سے نہیں ہوتی ہے بلکہ اس میں مشینری کااستعمال ہوتا ہے جوبغیر ڈیزل کے نہیں چلتی ہے۔اکیسویں صدی میں ڈیزل کسان کی شہ رگ بن چکا ہے، اگر حکومت ڈیزل کی قیمتوں میں کمی نہیں کرتی ہے تو وہ اس کی شہ رگ کاٹ رہی ہے۔اس لیے اس جانب حکومت کو خاص توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ کسانوں کے بارے میںکوئی بھی سنجیدگی سے نہیں سوچتا ہے،ان کو ووٹ بینک سے زیادہ نہیں تصور کیا جا تا ہے، الیکشن کے ایام میں بڑی بڑی گاڑیوں میں لیڈر ان کے گھر پہنچتے ہیں،وہ بس اسی سے خوش ہوجاتا ہے کہ فلاں صاحب اس کے گھر یا پاس آئے تھے مگر یہی لوگ کامیابی ملنے کے بعد ان کی سُدھ نہیں لیتے ہیں کیونکہ ان کو معلوم ہے کہ سادہ لوح کسانوںکو بیوقوف بنانا بہت آسان ہے،وہ ان کی سادہ لوحی کا فائدہ اٹھا کر خود اونچی کرسیوں پر پہنچ جاتے ہیں اور اپنے بینک بیلنس میں اضافہ کرنے لگتے ہیںجبکہ کسان جہاں کھڑا تھا اس سے ایک قدم مزید پیچھے چلاجاتا ہے ۔آج بھی کسانوں کے مسائل حل نہیں ہوئے ہیں، دہلی کی سرحد پر علامتی دھرنے چل رہے ہیں جن کے بارے میں اب میڈیا میں بھی گفتگو نہیں ہوتی ہے کیونکہ میڈیا کو کسانوں سے کچھ نہیں ملتا ہے جب کہ حکومت ان کو اشتہارات دیتی ہے، اس لیے کسانوںکی آواز صدا بصحرا ثابت ہورہی ہے۔دو ڈھائی ماہ قبل یہ امید تھی کہ شاید کسانوں کے مسائل حل ہوجائیں اور حکومت ان کے جائز مطالبات تسلیم کرلے مگر ایسا نہیں ہوا ۔اگر حکومت ایم ایس پی(اناج کی سرکاری قیمت) کو کسانوں کے مطابق یقینی بنا دے تو ان کے نوے فیصد مسائل یوں ہی حل ہوجائیں گے۔
حکومت نے ایم ایس پی کو ختم نہیں کیا ہے اور اس کی گارنٹی بھی دے رکھی ہے کہ وہ ختم نہیں ہوگی مگر جس شکل میں وہ نافذ ہے، اس سے کوئی فائدہ بھی نہیں ہے۔حکومت ایم ایس پی پر صرف اپنی ایجنسیوں سے متعینہ مدت کے دوران اپنے ہدف کے مطابق خریداری کرتی ہے جس کے لیے اس نے آن لائن سسٹم بنا رکھا ہے جہاںتک ہر کسان کی پہنچ نہیں ہے۔کسانوں کی پیداوارکا اسی فیصد منڈیوں میں فروخت ہوتا ہے جہاں ایم ایس پی سے کم سے کم 30سے 40فیصد کم قیمت پر خریداری ہوتی ہے۔سرکاری ایجنسیوں پر بڑے کسان اپنی پیداوار پہنچاتے ہیں جبکہ چھوٹے کسانوں کے حصے میں وہی بدحالی اور کسمپرسی آتی ہے کیونکہ ان کو جو قیمت ملتی ہے وہ ایسی نہیں ہوتی ہے جس پر کسان خوش ہوسکے۔اس کے باوجود جب حکومت دعویٰ کرتی ہے کہ اس کی مفاد عامہ کی اسکیموں کی وجہ سے اس کو کامیابی ملی ہے تو خود عوام کو غصہ آتا ہے اور وہ سوال کرتے ہیں کہ خوش کون ہے؟ مگر اس کو جواب دینے والا کوئی نہیں ملتا ہے۔
اگر حکومت حقیقت میں کسانوں کی زندگی آسان بنانا چاہتی ہے تو اس کو منڈیوں میں بھی ایم ایس پی کو نافذ کرنا ہوگا اور اس سے کم قیمت پر خریداری پر تعزیری قانون بنانا ہوگاجس کے بغیر کوئی چارہ نہیں ہے ۔حکومت اگر ایسا نہیں کرتی ہے تو یہ مانا جائے گا کہ وہ کسانوں کو صرف جملوں سے بہلانا چاہ رہی ہے، حقیقت میں ان کے لیے کچھ نہیں کرنا چاہتی ہے۔یہی وہ دروازہ ہے جس سے کسانوں کی آمدنی دوگنا کرنے کا وزیراعظم کا خواب نہ صرف پورا ہو سکتا ہے بلکہ کسان خوشحال ہو کر ملک کی ترقی میں اہم کردار ادا کرسکتا ہے۔باقی مسئلہ الیکشن کا ہے تو وہ ہوتے رہیں گے اور جیسا آزادی کے بعد سے اب تک ہوتا آیا ہے وہی روش جاری رہے گی،ضلع پنچایت کا الیکشن دیہی عوام کی فلاح و بہبود کے لیے ہوتا ہے لیکن ضلع پنچایت کے ادارے کے پاس کوئی ایسا کام نہیں ہے جسے بتا کر وہ اپنی پیٹھ تھپتھپا سکے۔اس ادارے کا اگر جائزہ لیا جائے تو وہ کلی طور سے ناکارہ دکھائی دیتا ہے۔جس الیکشن میںبی جے پی نے تقریباً 80فیصد سیٹوں پر کامیابی حاصل کی ہے، اس کے پاس حقیقت میں کسانوں کے لیے کچھ نہیں ہے اگر کچھ ہے تو وہ خود جیتے ہوئے صدور اور ضلع پنچایت ممبران کے لیے ہے ۔اس لیے حکومت کو اس جانب ٹھوس اقدام کرنے کی ضرورت ہے۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS