آزادیٔ صحافت کو خطرہ

0

اصلاح احوال اور ریاست کے نظام کو چست درست رکھنے کیلئے ’صحافت‘ویکسین کا کام کرتی ہے ۔ اگر یہ آزاد، خودمختار،بے خوف اور ہر طرح کی بندشوں سے آزاد ہوتوجمہوری ریاست کاپانچواں ستون ہوتا ہے لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ دنیا بھر میں صحافت کو ہزاربندشوں اوررکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑرہاہے۔ دنیا کے180ممالک میں سے 73 فیصد ممالک میں صحافت کو کلی اور جزوی پابندیوں کا سامنا ہے۔ زیادہ تر ملکوں کے سربراہان آزادی صحافت کو اپنے اقتدار کیلئے خطرہ سمجھتے ہیں اور آزادی صحافت کوکچلنے اور اپنا پابند بنانے کیلئے بالواسطہ یا براہ راست اقدامات سے بھی گریز نہیں کرتے ہیں ۔ صحافیوں کے تحفظ کیلئے کام کرنے والی فرانس میں واقع بین الاقوامی رضاکار تنظیم ’رپورٹرزود آئوٹ بارڈر‘جسے مختصراً آر ایس ایف کہاجاتاہے، نے ایسے ہی 37سربراہان مملکت کی فہرست جاری کی ہے جو آزادی صحافت کے ’دشمن‘ ہیں ۔ ’ پریڈیٹرز آف پریس فریڈم‘ کے نام سے جاری ہونے والی اس فہرست میں چین کے صدر شی زنگ پنگ، روس کے ولادیمیر پوتن، شمالی کوریا کے کم جونگ کے ساتھ سعودی عرب کے ولی عہد محمد بن سلمان، ترکی کے صدر طیب اردگان، ایران کے سربراہ اعلیٰ علی خامنہ ای، پاکستان کے وزیراعظم عمران خان کے سا تھ ساتھ ہندوستان کے وزیراعظم نریندر مودی کا نام نامی بھی شامل ہے۔ آزادیٔ صحافت کے دشمنو ں کی فہرست میں خواتین سربراہان مملکت میں بنگلہ دیش کی وزیر اعظم شیخ حسینہ اور ہانگ کانگ کی چیف ایگزیکٹیو کیری لام بھی شامل ہیں ۔وزیراعظم مودی کے نام کے سامنے مندرجات میں بیان کیا گیا ہے کہ ان کے تعلقات ایسے ارب پتی تاجروں سے ہیں جو وسیع و عریض میڈیا امپائر کے مالک ہیں اور وزیراعظم کی تفرقہ خیز اور انتہائی اشتعال انگیز تقریروںکو مسلسل کوریج دے کر قوم پرستانہ نظریات پھیلاتے ہیں۔آرایس ایف نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ آزادیٔ صحافت کے یہ دشمن اپنے ملک میں سنسرشپ،صحافیوں کوریاستی اداروں کے ہاتھوں قید کراکے، انہیں تشدد کا نشانہ بناکر، ڈرا دھمکا کریا انہیں نامعلوم افراد کے ہاتھوں قتل کر وا کر آزادیٔ صحافت کو پامال اور ختم کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔
یہ مسلمہ اور مصدقہ حقیقت ہے کہ علم اور اطلاع کے سبب ہی آج ہم اس قابل ہوئے ہیں کہ نئی نئی دنیا فتح کررہے ہیں اورآسمان پر کمند ڈال رہے ہیں لیکن یہی علم اور اطلاع جب صحافت کی شکل میں حکومتوں کے ظلم و جبر کے خلاف اپنا کردار ادا کرنے لگتی ہے تو جابر حکومتیں انسانیت کی سطح سے نیچے آکر ان کا گلا گھونٹنے لگتی ہیں۔ آمریت اور بادشاہت میں حکمرانوںکا یہ طور سمجھ میں آنے والی بات ہے لیکن جمہوری حکومتوں میں آزادیٔ صحافت پر حکمرانوں کا حملہ اور اسے پامال کرنے کی کوشش کسی بھی حا ل میں پسندیدہ نہیں کہی جاسکتی ہے۔ ہندوستان کے حوالے سے تو حکمرانوں کا یہ اقدام انتہائی قابل مذمت اور ناقابل قبول ہی سمجھاجائے گا۔
گزشتہ کئی برسوں سے یہ دیکھاجارہا ہے کہ آزادیٔ صحافت کے حوالے سے ہندوستان مسلسل پستی کی طرف جارہاہے۔ آرایس ایف کے ’ ورلڈ پریس فریڈم انڈیکس 2020‘ میں بھی ہندوستان دو پائیدان نیچے پہنچ گیا ہے۔سال 2019میں ہندوستان’ آزادیٔ صحافت ‘ کے معاملے میں 140ویں نمبرپر تھالیکن 2020میں یہ 142ویں پوزیشن پرآگیا۔ 2016 میں ہندوستان کا درجہ133تھا جو ہر سال گرتے گرتے اب 142پر پہنچ گیا ہے۔سن 2016 تک 133 ویں نمبر پر ہونا آزادیٔ صحافت کیلئے ایک اچھی علامت تھی لیکن اس کے بعد ہندوستان مستقل طور پر اس معاملے میں پستی میں ہی چلا جارہاہے۔
’رپورٹرز وِد آئوٹ بارڈرز‘ نے ہندوستان کے حوالے سے جن خدشات کا اظہار کیا ہے، اس پر غور کیے جانے کی ضرورت ہے۔ رپورٹ میں یہ ذکربھی کیاگیا ہے کہ سن 2019میں الیکٹرانک میڈیا پر کشمیر کی تاریخ کی طویل ترین پابندی عائد کی گئی تھی، آزادیٔ صحافت کی مسلسل خلاف ورزی کی جاتی رہی ہے، پولیس اور دوسرے ریاستی ادارے بھی صحافیوں کے خلاف پرتشدد کارروائی کرتے رہے ہیں حتیٰ کہ سیاسی کارکن بھی صحافیوں پر حملہ آور ہونے میں نہیں ہچکچاتے ہیں، ان ہی سب وجوہات کی بناپر ہندوستان پستی کی جانب گامزن ہے ۔
ایک ایسے وقت میں جب ملک بھر میں سیکڑوں نیوز چینل اور ہزاروں ہزار اخبارات چل رہے ہیں تو صحافت کو کمزور ہونا یا حکومتی اداروں کی جانب سے کمزور کیاجانا، ان کی آزادی کو پامال کیاجانا کسی بھی حال میں برداشت نہیں کیا جانا چاہیے۔ ہندوستان میں کمزور پڑرہے جمہوریت کے اس چوتھے ستون کو اگر مستحکم نہیں رکھاگیا توپہلے سے ہی خطرات میں گھری ہندوستان کی جمہوریت کوبچاپانا مشکل ہوجائے گا۔اس لیے آر ایس ایف کے سروے، رپورٹ اور تجزیہ پر سنجیدگی کے ساتھ غور کیے جانے کی ضرورت ہے ۔ جمہوریت کی صحت کیلئے ’ آزاد صحافت‘ کی ویکسین ہرحال میں قبول کرنی پڑے گی۔صحافت کو آزاد رکھے بغیر نہ تو جمہوریت، جمہوریت رہے گی اور نہ ہی ملک کی ترقی اور تعمیر کا خواب عملی شکل اختیار کر پائے گا۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS