کمر توڑ مہنگائی اور ہوش ربا گرانی سے پورا ملک پریشان ہے۔ حکومت جس کے ذمہ قیمتوں پر کنٹرول کرنا اور بنیادی ضرورت کی اشیا تک عوام کی رسائی یقینی بنانے کا کام ہے وہ نہ صرف مہنگائی پر قابو پانے میں بری طرح ناکام ہوچکی ہے بلکہ اس کی غلط پالیسیوں اور فیصلوں کی وجہ سے مہنگائی میں اضافہ رکنے کانام نہیں لے رہاہے۔ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوںمیں مسلسل اضافے کی وجہ سے ٹرانسپورٹ لاگت آسمان چھو رہی ہے اور عام آدمی کی روزمرہ کی ضروریات بھی مہنگی ہوگئی ہیں۔ کچن کا بجٹ بے قابو اور غیر متوازن ہوگیا ہے۔ کھانے پینے کی اشیا چاول، آٹا، سبزی، دال، تیل،گوشت اور دودھ جیسی اشیائے صرف کی قیمتیں عوام کے ہوش ٹھکانے لگارہی ہیں۔ بھنڈی، پرول اور کدو جیسی حقیر سمجھی جانے والی سبزیاں 70-75 روپے فی کلو گرام کے حساب سے بک رہی ہیں۔بعض خوردنی اشیا کا مصنوعی بحران پیدا کرکے ان کی قیمتوں میں اتنا اضافہ کردیاگیا ہے کہ ان کی طرف آنکھ اٹھاکر دیکھنا بھی عوام کیلئے کسی تازیانہ سے کم نہیں ہے۔جن گھروں میں تینوں وقت کھاناپکا کرتاتھا، آج وہاں ایک وقت کے بعد ہی چولہا ٹھنڈا پڑرہاہے۔
ایک طرف کورونا وائرس کی قہر ناکی ہے تو دوسری طرف مہنگائی کا عفریت عوام کو نگل رہاہے لیکن حکومت محصولات کے ذریعہ اپنے خزانے بھرنے اور سیاسی جوڑ توڑ میں مصروف ہے۔ایسے وقت میں ضرورت تھی کہ حزب اختلاف سامنے آتا اور عوام کے ان بنیادی مسائل کے حل کیلئے حکومت پر دبائو بناتالیکن افسوس ناک صورتحال یہ ہے کہ ہندوستان میں حزب اختلا ف کو اپنا وجود بچانے کی فکر پڑ گئی ہے۔ حکومتی کام کاج کی نگرانی اور نقد و جرح سے حزب اختلاف کا کوئی تعلق نہیں رہ گیا ہے۔ ہندوستان کی کسی ریاست سے یہ آواز نہیں اٹھ رہی ہے کہ مہنگائی پر قابو پایاجائے اور پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں پر روزبڑھائے جانے والے ٹیکس کو کم اور ختم کیاجائے۔
ایسے وقت میں مغربی بنگال کی وزیراعلیٰ ممتابنرجی نے نہ صرف مہنگائی کے خلاف کمر کس لی ہے بلکہ وزیراعظم نریندر مودی کو خط لکھ کر مطالبہ کیا ہے کہ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں لگائے جانے والے ٹیکس کم کیے جائیں۔ترنمول کانگریس کے کارکنان اور لیڈران نے ’مودی بابو-پٹرول پر قابو‘ کے نعرے کے ساتھ احتجاج بھی شروع کردیا ہے۔ اپنے خط میں وزیراعلیٰ ممتابنرجی نے کہا ہے کہ مرکزی حکومت کی غلط پالیسی کی وجہ سے ضروری اشیا کی قیمتوں میں اضافہ ہورہا ہے اور عام آدمی کی اصل آمدنی میں کمی آ رہی ہے۔ ممتابنرجی نے وزیراعظم نریندر مودی کو یاد دلایا ہے کہ مرکز نے 4 مئی سے پٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں آٹھ مرتبہ اضافہ کیا ہے۔ صرف جون میں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں چھ گنا اضافہ ہوا ہے۔ پٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں غیر معمولی اضافہ مہنگائی کا سبب بن رہا ہے اور اس کا نتیجہ عام لوگوں کو بھگتنا پڑرہا ہے۔مئی 2020 کے مقابلہ میں اس سال ملک کے ہول سیل پرائس انڈیکس میں 12.94فیصد اضافہ ہوا ہے۔خوردہ قیمت انڈیکس میں بھی 8.30فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔ خوردنی تیل کی قیمتوں میں 30.6 فیصد، انڈوں میں 15.2 فیصد اور پھلوں میں 12 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ظلم تو یہ ہے کہ وبا کے اس دور میں دوائوںاور اس سے متعلق چیزوں کی قیمت میںبھی 6.44 فیصد اضافہ ہوچکا ہے۔
کورونا کے اس بحران میں عام آدمی بڑھتی مہنگائی، کم اور ختم ہوتی آمدنی سے پریشان ہے لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ اسی کورونا بحران میں حکومت کی آمدنی میں بڑی تیز ی سے اضافہ ہورہاہے۔ مارچ 2020 سے شروع ہوئے کورونا دور میں حکومت نے ایندھن اور پٹرولیم مصنوعات میں محصولات پر ظالمانہ اضافہ کرکے3.18لاکھ کروڑ روپے اکٹھے کیے ہیں۔اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ مالی سال 2014-15 کے بعد مرکزی حکومت کی آمدنی میں360فیصدکا اضافہ ہوا ہے۔حکومت یہ آمدنی ٹیکس کی مدمیںعوام کا خون نچو ڑ کر ہی حاصل کررہی ہے۔جب کسی ملک کی حکومت ہی ملک کے عوام کو لوٹنے پر اتارو ہوجائے تو اس ملک کے سیٹھ، ساہو کار اور تاجروں کو ذخیرہ اندوزی، کالابازاری اور منافع خوری کی کھلی چھوٹ مل جاتی ہے۔ یہاں تو حکومت نے خود ہی قانون میں ترمیم کرکے تاجروں کو ذخیرہ اندوزی کی کھلی چھوٹ بھی دے دی، ایسے میں بے ایمان اور منافع خور تاجروں اور زرداروں کا ہاتھ پکڑنے والا کوئی نہیں رہ گیا ہے۔
دیکھاجائے تو یہ مہنگائی نہیںبلکہ حکومت کی سرپرستی اورا یما پر ہونے والی لوٹ ہے جس کا شکار عام آدمی ہورہاہے۔حکومت کو اگر عوام کی تکلیف کا ذرا بھی احساس ہے تو وزیراعلیٰ ممتابنرجی کے مطالبات پر فوری توجہ دیتے ہوئے نہ صرف پٹرولیم مصنوعات پر لگائے جانے والا ٹیکس کم کرنا چاہیے بلکہ مہنگائی کے خلاف کریک ڈائون بھی شروع کرنا چاہیے۔
[email protected]
مہنگائی مصیبت نہ بن جائے
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS