عباس دھالیوال
مرزا غالبؔ کا ایک مشہور ہے:
نکلنا خلد سے آدم کا سنتے آئے ہیں لیکن
بہت بے آبرو ہو کر ترے کوچے سے ہم نکلے
یہ شعر دراصل آج اس وقت ذہن میں آ یا جب افغانستان سے امریکہ کی افواج کی گھر واپسی کی ایک رپورٹ پڑھ رہا تھا جس میں بتایا گیا ہے کہ امریکہ نے افغانستان کے بگرام ہوائی اڈے کو خالی کرتے ہوئے اپنے فوجیوں کے ساتھ ساتھ اپنے جنگی ساز و سامان کو بہت ہی تیزی کے ساتھ سمیٹنا شروع کر دیا ہے۔ اس ضمن میں امریکہ کے دفاعی حکام کا کہنا ہے کہ امریکہ اور ناٹو کے آخری فوجی دستوں نے افغانستان کی بگرام ایئربیس کو خالی کر دیا ہے جو گزشتہ 20 سال سے عسکریت پسندوں کے خلاف جنگ کا مرکز بنا ہوا تھا۔
ادھر دفاعی ماہرین کے مطابق، بگرام ہوائی اڈے سے امریکی فوج کے انخلا کا مطلب ہے کہ افغانستان سے غیر ملکی افواج کا مکمل انخلا اب عنقریب ہی ہونے والا ہے۔ امریکہ کے صدر جو بائیڈن کہہ چکے ہیں کہ امریکی افواج 11 ستمبر تک افغانستان سے واپس آ جائیں گی۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ 11 ستمبر 2001 کو امریکہ میں ہونے والے حملوں کے 20 سال مکمل ہو جائیں گے۔ ان حملوں میں 3 ہزار کے قریب افراد ہلاک ہوئے تھے۔ اس وقت سے امریکہ یہی کہتا آرہا ہے کہ 9/11 کے حملے افغانستان میں موجود ایک بین الاقوامی جنگجو گروہ القاعدہ نے کیے تھے۔ القاعدہ کو افغانستان میں طالبان کی حمایت حاصل تھی جو 1990 کی دہائی سے ملک کا نظام سنبھالے ہوئے تھے۔ 9/11 کے بعد امریکہ کی قیادت میں اتحادی افواج نے اسی سال کے اواخر میں دونوں گروہوں کو شکست دینے کے لیے افغانستان پر تابڑتوڑ حملے بول دیے تھے۔ اس کے بعد سے امریکہ اور اس کی اتحادی افواج نے افغانستان میں ڈیرے جمالیے تھے۔ ان کی افواج گزشتہ 20 سال سے افغانستان میں موجود تھیں لیکن امریکہ بے پناہ جانی و مالی خسارہ کروانے کے بعد اب اس طویل ترین جنگ کو ختم کر کے افغانستان کی سلامتی افغان حکومت پر چھوڑ کر جا رہا ہے۔
ادھر افغانستان کے ایک ریٹائرڈ جنرل سیف اللہ صافی امریکہ اور روس کے نظریاتی تضاد کو بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’روس نے جب انخلا کا فیصلہ کیا تھا تو وہ اپنا سب کچھ یہاں چھوڑ کر گئے تھے۔ وہ زیادہ کچھ ساتھ نہیں لے گئے۔ صرف گاڑیاں لے گئے جو انہیں اپنے سپاہیوں کے لیے درکار تھیں۔ ‘لیکن امریکہ اس کے بر عکس کام کرتے ہوئے نظر آ رہا ہے۔
ماہرین کے مطابق، افغانستان کا بگرام ہوائی اڈہ اس بات کی علامت ہے کہ آئندہ کیا ہونے والا ہے۔ امریکی فوجی قوت کی علامت یہ اڈہ کبھی سوویت افواج کے زیر اثر تھا۔ دراصل یہ فوجی اڈہ 1980 کی دہائی میں سوویت افواج نے افغانستان پر حملے کے بعد بنایا تھا۔ یہ کابل سے 40 کلومیٹر شمال کی طرف واقع ہے اور اس کا نام ایک قریبی گاؤں کے نام پر رکھا گیا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ 2001 میں جب امریکہ اور ناٹو فورسز نے بگرام کا کنٹرول سنبھالا تو یہ اڈہ تباہ حال عمارتوں کا مجموعہ تھا۔ طالبان کو کابل سے نکالنے کے بعد امریکہ کے اتحادی ملکوں نے بگرام ہوائی اڈے کی تعمیر نو شروع کی۔ ابتداً عارضی ڈھانچہ بنایا گیا۔ بعد ازاں اسے مستقل شکل دی گئی۔ یہ اڈہ بہت تیزی سے پھیلتا گیا اور اب یہ تقریباً 30 مربع میل پر محیط ہے، چنانچہ اس کے بعد امریکہ نے اس اڈے کو 10 ہزار فوجیوں کی رہائش گاہ کے قابل بنایا۔
بگرام کے دو رن وے ہیں جن میں سے نیا رن وے 3.6 کلومیٹر طویل ہے جہاں بڑے کارگو اور بمبار جہاز لینڈ کر سکتے ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق، اس میں طیاروں کی پارکنگ کے لیے 110 جگہیں ہیں جن کی حفاظت کے لیے بم پروف دیواریں ہیں، 50 بستروں پر مشتمل اسپتال ہے، ٹراما سینٹر ہے، 3 آپریشن تھیٹرس ہیں اور ایک دانتوں کے علاج کے لیے جدید کلینک بھی ہے۔ اس کے ساتھ ہی بگرام ہوائی اڈے پر فنٹس سنٹرس اور فاسٹ فوڈ ریستوران بھی ہیں۔ اس اڈے کے ایک حصے میں جیل بھی بنائی گئی ہے۔ اس کے ہینگرس اور عمارتوں میں وہ قید خانے بھی ہیں جہاں جنگ کے عروج کے دنوں میں امریکی فوج کی زیر حراست لوگوں کو رکھا جاتا تھا۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ بگرام ان جگہوں میں سے ہے جن کا تذکرہ امریکی سینیٹ کی رپورٹ میں آیا ہے جس کے مطابق، سی آئی اے ان حراستی مراکز میں مبینہ طور پر القاعدہ سے تعلق رکھنے والے افراد سے تشدد کے ذریعے تفتیش کیا کرتی تھی۔
اینڈریو واٹ کنز انٹرنیشنل کرائسز گروپ سے وابستہ سینئر تجزیہ کار اینڈریو واٹ کنز کہتے ہیں کہ بگرام ایک بڑی تنصیبات والا فوجی اڈہ بن گیا تھا۔ اس طرح کے کچھ اور اڈے افغانستان اور عراق میں تھے۔ یہ اڈہ ’ مشن کریپ‘ کی علامت تھا۔ ادھر ایسوسی ایٹڈ پریس کی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سرد جنگ کے زمانے سے لے کر آج تک ہوائی اڈے کی اہمیت ہے۔ رپورٹ کے مطابق، اس انخلا کی بھی ایک علامتی اہمیت ہے۔ یہ دوسرا موقع ہے کہ افغانستان پر حملہ آور قوت یہاں آئی ہے اور بگرام کے راستے واپس گئی ہے۔ سوویت یونین نے فضائی اڈہ قائم کیا تھا۔ اس نے 1979 میں کمیونسٹ افغان حکومت کی مدد کے لیے افغانستان پر حملہ کیا۔ یہ اڈہ ملک کے اندر اپنے قبضے کے دفاع کے لیے مرکزی اڈہ بن گیا۔ 10 سال تک روس کی فوج نے امریکی حمایت یافتہ مجاہدین کے خلاف، جنہیں امریکہ کے صدر رونالڈ ریگن نے ’فریڈم فائٹرس‘ کا نام دیا تھا، لڑائی جاری رکھی تھی۔ صدر ریگن انہیں سرد جنگ کے آخری معرکے میں اگلے مورچوں کی فورس کے طور پر دیکھتے تھے۔
سوویت یونین نے 1989 میں انخلا پر مذاکرات کیے۔ 3 سال کے بعد ماسکو حکومت کا شیرازہ بکھر گیا اور مجاہدین نے اقتدار پر قبضہ کر لیا۔ ایک دوسرے پر اسلحہ تان لیا اور ہزاروں عام شہری اس خانہ جنگی میں ہلاک ہو گئے۔ اس تنزلی کے عالم میں طالبان اقتدار میں آ ئے جنہوں نے 1996 میں کابل کو فتح کر لیا۔ ادھر بگرام اڈے کی اہمیت کے بارے میں فاؤنڈیشن فار ڈیفنس آف ڈیموکریسیز کے فیلو بل روگیو کہتے ہیں کہ ’بگرام اڈے کی بندش ایک بڑی علامت رکھتی ہے اور یہ طالبان کی اسٹرٹیجک فتح ہے۔‘ امریکی عملے افغانستان کی فوج کو بعض ہتھیار اور دیگر ساز و سامان دیتے رہے ہیں۔ کوئی بھی ایسی چیز جسے امریکی افواج لے جانے سے قاصر ہے، اسے تلف کیا جا رہا ہے یا بگرام کے نزدیک کباڑیوں کو فروخت کر رہے ہیں۔ امریکی عہدیداروں کے مطابق، وہ اس بات کو ہر صورت یقینی بنا رہے ہیں کہ کوئی بھی چیز طالبان کے ہاتھ نہ لگے۔ اس ضمن میں گزشتہ دنوں یو ایس سینٹرل کمان نے بتایا تھا کہ اس نے 17 ہزار 7 سو 90 آلات، C-17 کے 763 جہازوں میں مال لاد کر افغانستان سے باہر منتقل کیے ہیں۔ مذکورہ ضمن میں مائیکل کہتے ہیں کہ اس طرح بہت کچھ جلدی جلدی میں ساتھ لے جانا اور بہت کچھ تباہ کرنا امریکہ کی طرف سے یہ تیزی ظاہر کرتا ہے کہ انہیں یہاں سے نکلنے میں کس قدر جلدی ہے۔ ’یہ افغانستان کے عوام کے لیے اور اس فوجی اڈے کا کنٹرول سنبھالنے والوں کے لیے خیرسگالی پر مبنی کوئی تحفہ نہیں ہے۔‘
ادھر افغانستان کے ایک ریٹائرڈ جنرل سیف اللہ صافی امریکہ اور روس کے نظریاتی تضاد کو بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’روس نے جب انخلا کا فیصلہ کیا تھا تو وہ اپنا سب کچھ یہاں چھوڑ کر گئے تھے۔ وہ زیادہ کچھ ساتھ نہیں لے گئے۔ صرف گاڑیاں لے گئے جو انہیں اپنے سپاہیوں کے لیے درکار تھیں۔ ‘لیکن امریکہ اس کے بر عکس کام کرتے ہوئے نظر آ رہا ہے۔ آخر میں داغؔ دہلوی کے اس شعر کے ساتھ مضمون اختتام پذیر کرنا چاہوں گا:
ہوش و حواس و تاب و تواں داغؔ جا چکے
اب ہم بھی جانے والے ہیں سامان تو گیا
[email protected]