انجینئر خالد علیگ
سیاست دانوں کی سالگرہ عام لوگوں کی سالگرہ سے مختلف ہوتی ہے، کون آیا کیا لایا کس نے کس وقت مبارک باد دی اور مبارک باد کے پیغام کے الفاظ کیا تھے ان ساری باتوں کے الگ الگ مطلب ہوتے ہیں۔ 5 جون کو ہندوستان کے سب سے بڑے صوبہ کے طاقتور وزیر اعلیٰ کی سالگرہ تھی وہ 49 سال کے ہو گئے ان کو مبارک باد کے لاکھوں پیغامات آئے ہوں گے مگر جن پیغامات کا ان کو شدت سے انتظار تھا وہ دہلی اور لکھنؤ کے راستے میں کہیں گم ہو گئے یا دہلی سے روانہ ہی نہیں ہوئے۔ نہ مودی جی کا پیغام آیا نہ امت شاہ کا اور شاید اسی لیے بی جے پی کے صدر جے پی نڈا نے بھی خاموش رہنا مناسب سمجھا، کچھ مبصرین کا خیال تھا کہ مودی جی مشغول رہے ہوںگے آخر اتنے بڑے ملک کے وزیر اعظم جو ہیں مگر ابھی دو دن بھی نہیں گزرے جب مودی جی نے مکل رائے کو فون کرکے ان کی خیریت معلوم کی تھی بلکہ یہ کہنا زیادہ مناسب ہوگا کہ ان کی ترنمول میں گھر واپسی کو کچھ دن کے لیے ملتوی کیا تھا اسے یہ سمجھا جانا کہ کہیں مودی جی اور امت شاہ کے پیغامات نہ آنے کا بھی کوئی سیاسی مقصد ہے کچھ غلط نہ ہوگا۔ گزشتہ پندرہ دنوں سے لکھنؤ میں جو سیاسی گہماگہمی رہی اس پہ پورے ملک کی نظریں لگی رہیں اور تمام سیاسی مبصرین کی سانسیں اور دل کی دھڑکنیں رکی رہیں۔ بی جے پی کے اعلیٰ سطحی وفد کوبی ایل سنتوش کی قیادت میں دہلی سے لکھنؤ بھیجا گیا جس نے فرداً فرداً بہت سے ممبران اسمبلی وزرا اور نائب وزرائے اعلیٰ اور پارٹی عہدیداران سے ملاقاتیں کیں جس کے بہت سے سیاسی معنی نکالے گئے اور پورا ملک بڑی بے چینی سے اس گہما گہمی کے نتیجہ کا انتظار کرنے لگا ۔ میڈیا پر افواہوں کا بازار گرم ہو گیا، ٹی وی چینلز نے سرخیاں بنانی شروع کر دیں کسی غیر متوقع خبر کا انتظار کیا جانے لگا، کوئی کہہ رہا تھا یوگی جی کے اچھے دن ختم ہونے والے ہیں، کسی کے خیال میں یوگی کی کابینہ میں بھاری ردو بدل ناگزیر تھا تو کسی کی رائے یہ تھی کہ مودی جی یوگی کی کار کردگی سے ناراض ہیں اور کابینہ میں کچھ نئے طاقتور وزرا کو شامل کراکے یوگی کی طاقت کو کم کرنا چاہتے ہیں اور یہ کہ اپنے معتمد گجرات کیڈر کے سابق نوکر شاہ اروند کمار شرما کو نائب وزیر اعلیٰ بنوانا چاہتے ہیں اور یوگی جی اس کے لیے بالکل تیار نہیں ہیں۔ یہ قیاس آرائیاں درست تھیں یا پھر اس ٹیم کی آمد انتخابات سے قبل کی روٹین Exercise تھی جس کا مطلب زمینی حقیقت کا پتہ کرنا تھا تاکہ یوگی جی کے دشمنوں اور گھر کے بھیدیوں کی نشان دہی کی جا سکے جو یوگی جی کی کار کردگی سے ناراض ہیں۔ یہ حقیقت بھی اب کسی سے پوشیدہ نہیں کہ بی جے پی بنگال الیکشن کی کارکردگی سے بہت دل برداشتہ ہے اور یوپی میں کسی غلطی کی متحمل نہیں ہو سکتی۔ یوں بھی یہ پارٹی ہمیشہ الیکشن موڈ میں رہتی ہے ایک الیکشن ختم نہیں ہوتا دوسرے کی تیاری کرنے لگتی ہے۔ یوپی کی سیاسی اہمیت سے بھی کوئی انکار نہیں کر سکتا اور شاید یہی وجہ تھی کہ مودی، امت شاہ اور یوگی آدتیہ ناتھ بلکہ مکمل سنگھ پریوار پوری قوت سے بنگال میں یوپی کا الیکشن لڑ رہے تھے، وہ اچھی طرح جانتے تھے کہ اگر ہندو پولرائیزیشن کا فارمولہ بنگال میں کامیاب ہو گیا تو یو پی جیتنا ان کے لیے آسان ہو جائے گا اسی لیے مودی اور امت شاہ کی جوڑی نے بنگال میں پوری طاقت جھونک دی تھی لیکن اس کے باوجود امت شاہ کا بنگال فتح کرنے کا خواب شرمندہ تعبیر نہ ہو سکا۔ دیدی نے ایسا دھوبی پاٹ مارا کہ پورا منظر نامہ ہی بدل گیا اور یوپی کی لڑائی اور بھی مشکل ہو گئی اس لیے یوپی جیتنے کے لیے حکمت عملی کی ضرورت ہے اور یہ حالیہ گہماگہمی اسی حکمت عملی کا حصہ ہے، اس میں کوئی شک کی گنجائش نہیں کہ یوگی حکومت انٹی انکمبنسی کا سامنا کر رہی ہے برہمن یوگی سے ناراض ہیں OBC کی بہت سی ذاتیں بھی یوگی کی کار کردگی سے خوش نہیں ہیں مسلمانوں کو تو بی جے پی دور سے چھونا بھی پاپ سمجھتی ہے اور دلت بھی فی الحال بی جے پی سے دور ہی نظر آرہا ہے۔
قارئین کو یاد ہوگا کہ 5 سال قبل یوگی کی تاج پوشی کس دباؤ میں ہوئی تھی۔ 2017 کا الیکشن کسی کی قیادت میں نہیں لڑا گیا تھا لیکن ایک عام خیال یہ تھا کہ بی جے پی نائب وزیر اعلیٰ کیشو پرشاد موریہ کو چیف منسٹر بنانا چاہتی تھی لیکن سنگھ اور یوگی کے دباؤ میں بی جے پی کو جھکنا پڑا اور یوگی جی چیف منسٹر بن گئے۔
صرف بی جے پی کا روایتی ووٹر یوگی کی مسلم مخالف پالیسیز کے چلتے یوگی کے ساتھ ہو سکتا ہے لیکن اس روایتی ووٹر کی تعداد صرف 16فیصد ہے جس کے بل بوتے الیکشن جیتنا نا ممکن ہے۔ جہاں تک عوام الناس کا تعلق ہے اس میں حکومت کے خلاف ناراضگی کی زبر دست لہر موجود ہے۔ اسی دوران یوگی کے کورونا مینجمنٹ پر شدید قسم کے سوالات اٹھ رہے ہیں۔ یوپی میں پہلے ہی صحت عامہ کی حالت نہایت خراب تھی۔ اسپتالوں کی کمی سے جوجھ رہی ریاست میں آکسیجن کی کمی وینٹیلیٹر کا فقدان اور طبی عملے کے غیر ذمہ دار رویہ نے عوام میں حکومت کے خلاف ناراضگی کی ایک لہر پیدا کر دی ہے، رہی سہی کمی گنگا میں تیرتی لاشوں اور سڑکوں پہ بنا آکسیجن کے دم توڑتے مریضوں نے پوری کر دی جس کا اثر پنچایت کے الیکشن میں صاف نظر آیا۔ عموماً نگر پالیکاؤں، ضمنی انتخاب اور پنچایت کے انتخابات میں بر سر اقتدار پارٹی ہی فتح حاصل کرتی رہی ہے۔ پنجاب، تلنگانہ، راجستھان اور گجرات اس کی تازہ مثال ہے ہر جگہ پر بر سر اقتدار پارٹی کو ہی کامیابی حاصل ہوئی ہے۔ راجستھان جہاں بی جے پی لوک سبھا کی 25/25 نشستیں جیت گئی تھی اس کو صرف دو سال بعد لوکل الیکشن میں شکست کا سامنا کرنا پڑا مگر یو پی میں اس بار پنچایت الیکشن میں بی جے پی کو برسر اقتدار ہونے کے باوجود زبردست ہار کا سامنا کرنا پڑا جو پارٹی کی پالیسی سازوں کے لیے یقینا تشویش کی بات ہے اس کے علاوہ صوبے میں امن و امان کی بدتر ہوتی صورت حال پہلے ہی بی جے پی کے ماتھے پر تشویش کی لکیروں میں اضافہ کر رہی تھی، ایسی صورت حال میں آر ایس ایس اور بی جے پی کی نیندیں حرام ہو جانا لازمی تھا ویسے بھی اگر مودی جی کو 2024 میں اپنا اقتدار قائم رکھنا ہے تو 2022 میں یوپی جیتنا بی جے پی کی سب سے بڑی ضرورت ہوگی اسی لیے سنگھ کے اشارے پر یہ اعلیٰ سطحی ٹیم کو بی ایل سنتوش کی قیادت میں زمینی حالات کا اندازہ لگانے کے لیے یو پی بھیجنے کا فیصلہ کیا جس کا مقصد یوگی کو بر طرف کرنا نہیں ناراض کارکنان کو جو کھلے عام یوگی کی مخالفت پہ اترے تھے ان کو منانا اور یہ پیغام دینا تھا کہ 2022 یوگی کی ہی قیادت میں لڑا جائے گا۔ اس دورے کا اصل مقصد کے بر عکس افواہیں یہ چلنے لگیں کہ بی جے پی یوگی کا متبادل تلاش کر رہی ہے جب بات یوگی کو ہٹانے کی ہوتی ہے تو دو تین سوالات ذہن میں ابھرتے ہیں۔ پہلا سوال یہ کہ کیا بی جے پی یوگی کو ہٹانے کی ہمت جٹا پائے گی۔ دوسرے یہ کہ کیا اس وقت یوگی کو ہٹانا پارٹی کے لیے فائدہ مند ہوگا؟ اور تیسرا یہ کہ کیا آر ایس ایس یوگی کو ہٹانے دے گی۔ یہ وہ سوال ہے جس کا جواب تلاش کرنے کے لیے ہمیں تھوڑا پیچھے جانا ہوگا۔ قارئین کو یاد ہوگا کہ 5سال قبل یوگی کی تاج پوشی کس دباؤ میں ہوئی تھی 2017 کا الیکشن کسی کی قیادت میں نہیں لڑا گیا تھا لیکن ایک عام خیال یہ تھا کہ بی جے پی نائب وزیرا علیٰ کیشو پرشاد موریہ کو چیف منسٹر بنانا چاہتی تھی لیکن سنگھ اور یوگی کے دباؤ میں بی جے پی کو جھکنا پڑا اور یوگی جی چیف منسٹر بن گئے۔ سوشل میڈیا پر اس قسم کی افواہیں بھی اڑیں تھیں کہ اگر یوگی کو وزیر اعلیٰ نہ بنایا گیا تو وہ کلیان سنگھ کی طرح پارٹی چھوڑ دیں گے۔ دوسری طرف آر ایس ایس کسی دلت کو وزیر ا علیٰ بنانا نہیں چاہتی تھی، اسی دباؤ کے سامنے بی جے پی کو ہتھیار ڈالنے پڑے اور یوگی جی کی تاج پوشی ہو گئی۔ اس وقت یوگی یوپی سے صرف ایک ممبر پارلیمنٹ تھے لیکن ان چار سالوں میں یوگی کا قد بہت بڑھا ہے اور وہ ملک کے وزیر اعظم بننے کا خواب دیکھ رہے ہیں اور شاید ان کا یہی خواب مودی جی کی ناراضگی کا سبب ہے، سوال یہ ہے کہ اب وہ شخص جو 2017 میں بغاوت پر آمادہ تھا کیا اب آسانی سے کرسی چھوڑ دے گا وہ بھی اس وقت جب اس کو آر ایس ایس کی پشت پناہی حاصل ہو۔ ہوسکتاہے پنچایت الیکشن اور سنگھ کے داخلی سروے یہ بتا رہے ہوں کہ بی جے پی یوگی کی قیادت میں 2022 کا الیکشن نہیں جیت پائے گی، لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بی جے پی کے پاس یوگی کا متبادل کون ہے اور کیا یہ وقت تبدیلی کے لیے مناسب ہے؟ جہاں تک پہلے سوال کا تعلق ہے اس کا جواب اس بات پر منحصر کرتا ہے کہ بی جے پی کس ایجنڈے پہ الیکشن لڑنا چاہے گی ؟ یقینا حکومت کووڈ کنٹرول پہ بری طرح ناکام ہو چکی ہے ملک کی اقتصادی حالت جس کا ٹھیکرا کورونا کے سر پھوڑا جا رہا ہے وہ کورونا سے پہلے ہی پستی کی طرف گامزن ہو چکی تھی اب تو وہ اور بھی نازک حالت میں ہے۔ بے روزگاری کا تو ذکر ہی کیا خارجہ پالیسی میں بھی مودی حکومت مکمل طور سے ناکام ہو چکی ہے اب کی بار ٹرمپ سرکار اور پھر نمستے ٹرمپ کے باوجود امریکہ میں بائیڈن کی سرکار بن جانا پہلے ہی ہماری دور اندیشی اور ڈپلومیسی پہ سوالیہ نشان لگا چکا تھا۔ دوسری طرف چین جو پہلے ہی بنگلہ دیش، پاکستان اور نیپال میں اپنی پاؤں جما چکا تھا وہ سری لنکا میں ہماری اتنے قریب آکر بیٹھ چکا ہے جہاں ہمارے دل کی دھڑکنیں بھی وہ آرام سے سن سکتا ہے۔ مہنگائی کے فرنٹ پہ صورت حال اور بھی تشویش ناک ہے ایسی صورت میں بی جے پی عوام کے سامنے کیا ایجنڈا لے کر جائے گی ؟ اسی سوال کے جواب پر یوگی آدتیہ ناتھ کا مستقبل منحصر ہے بی جے پی کی کوشش ہوگی کہ تمام عوامی مسائل سے توجہ ہٹانے کے لیے آنے والے یوپی الیکشن کو پوری طرح فرقہ وارانہ خطوط پر لڑا جائے بھلے ہی یہ فارمولا بنگال میں ناکام ہو چکا ہے لیکن یوپی کے حالات بالکل مختلف ہیں۔ دوسرے یہ کہ بی جے پی کے پاس کوئی متبادل بھی نہیں ہے۔ بی جے پی کو 2022 کمیونل خطوط پر ہی لڑنا ہے جس کے لیے اس کو ایک نہیں دوچار یو گیوں کی ضروت پڑے گی ۔ دوسری بات یہ ہے کہ الیکشن میں صرف 8ماہ کا وقت باقی ہے اس وقت اگر کسی نئے چہرے کو وزیر اعلیٰ بنایا بھی جاتا ہے تو اس کو اپنی ٹیم تشکیل دینے اور کام کاج کو سمجھنے کے لیے بھی کافی وقت درکار ہوگا۔ تیسری وجہ یہ بھی ہے کہ یوگی کو ہٹانے کا مطلب اعتراف شکست ہوگا جس کا بہت بڑا سیاسی میسیج عوام میں جائے گا۔ ظاہر ہے کہ بی جے پی یقینا یہ نہیں چاہے گی، سنگھ کی کوشش تو یہی ہوگی کہ ان تمام لیڈروں کی غلطیوں کو نکال کر ان کو ہیرو ثابت کیا جائے۔
کسی بھی سیاسی زاویہ سے یہ ماننا مشکل ہے کہ سنگھ یوگی کو فی الحال ہٹانا چاہتی ہے یا ان کو ہٹانا بی جے پی کے مفاد میں ہے ہاں مودی اور امت شاہ یوگی جی سے ناراض ہیں جن کی ناراضگی کی سزا یوگی کو الیکشن کے بعد ضرور بھگتنی پڑے گی ۔لہٰذا فی الحال تو ایسا ہی محسوس ہوتا ہے یوگی جی کی کرسی کو کوئی خطرہ پارٹی سے تو نہیں ہے۔ ہو سکتا ہے وہ مودی اور امت شاہ کو منا لیں اور ان کے عتاب سے بچ جائیں لیکن عوام کے غصہ اور عتاب سے بچنا اتنا آسان نہیں ہوگا ۔ ٭٭٭
٭٭٭