سنجے ورما
جانے انجانے انسان تمام قسم کی لہروں سے گھرگیا ہے۔ یہ لہریں تکنیک کی ہیں۔ یہ ہماری ضرورتوں میں شامل ہونے والے آلات کی ہیں۔ یہ ہمیں نظر نہیں آتی ہیں لیکن ہمیں دیش-دنیا کی سیر پر لے جاتی ہیں۔ ہر وقت ہمارے اردگرد گھومتی ٹہلتی ان لہروں کا ہمیں تب تک کوئی علم نہیں ہوتا، جب تک کوئی یہ نہیں بتاتا کہ یہ اصل میں موجود ہیں۔ جب کوئی اس بارے میں الرٹ کرتا ہے کہ یہ ہماری صحت سے کھلواڑ کررہی ہیں تب ہم چونک کر اس پر غور کرتے ہیں۔ جیسے ادھر ملک میں موضوع بحث ہے کہ موبائل کی5Gتکنیک کہیں لوگوں کے لیے خطرہ تو نہیں بن رہی ہے۔ اسی لیے حال میں محکمہ ٹیلی کام نے واضح کیا ہے کہ 5Gموبائل ٹاوروں کے تجربے سے نہ تو ہوا میں کوئی زہریلی تابکاری(ریڈیئشن) پھیل رہی ہے، نہ ہی اس سے اموات ہورہی ہیں۔ اصل میں اس بات کی کوئی سائنسی بنیاد نہیں ہے۔ ٹیلی کام سروس کمپنیوں کی تنظیم سیلولر آپریٹرس ایسوسی ایشن آف انڈیا(سی او اے آئی) نے بھی ایسی باتوں کو افواہ بتاتے ہوئے کہا ہے کہ دنیا کے اور بھی ممالک میں 5Gموبائل نیٹ ورک کے تجربے ہوئے ہیں، وہاں تو ایسی اموات نہیں ہوئی ہیں۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن(ڈبلیو ایچ او) نے ایسی بحث کو روکتے ہوئے واضح الفاظ میں کہا ہے کہ کووڈ-19سے 5Gتکنیک کا کوئی سروکار نہیں ہے۔ کورونا وائرس موبائل نیٹ ورک اور ریڈیولہروں پر سوار ہوکر ایک مقام سے دوسرے مقام تک پہنچ جائے، ایسا سائنسی طور پر ممکن نہیں ہے۔ یہ تو سچ ہے کہ کورونا سے وہ ملک بھی بدحال ہیں، جہاں 5Gموبائل نیٹ ورک کا کوئی تجربہ تک نہیں ہورہا ہے۔
تابکاری کے معاملہ میں ٹیلی کام کمپنیوں کے ایک جھوٹ کا بھانڈا پھوڑا تھا آل انڈیا انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنس(ایمس) میں ہوئی تحقیق کے نتائج کی بنیاد پر ایک اخبار نے۔ اخبار نے لکھا تھا کہ ایمس نے اس سے متعلق حکومت کے ذریعہ اسپانسر شدہ تحقیقات کا تجزیہ کیا تو علم ہوا کہ ایک تحقیق میں موبائل ریڈیئشن سے برین ٹیومر ہونے کے خدشہ کا اظہار کیا گیا ہے۔ اس کے برعکس جس ریسرچ کو ٹیلی کام صنعت نے اسپانسر کیا تھا، اس میں ایسے خدشات سے عام طور پر انکار کیا گیا تھا۔
سوال کئی ہیں لیکن موبائل ریڈیئشن سے ہونے والے نقصان کو واضح طور پر قبول نہیں کیا جاتا ہے۔ اس کے پیچھے ٹیلی کام کمپنیوں کا دباؤ بھی ہوسکتا ہے۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ایسا کیا گیا، تو موبائل انٹرنیٹ اور فون خدمات میں مشکلیں کھڑی ہوجائیں۔ غورطلب ہے کہ ہمارے ملک کی حکومت بھلے ہی موبائل ریڈیئشن کے دعوؤں کو قبول نہیں کرتی ہے، لیکن کچھ مثالیں ایسی مل چکی ہیں جن سے نقصان کے دعوے سچ محسوس ہوتے ہیں۔ اگست 2016میں اس وقت کے منسٹر آف انفارمیشن ٹیکنالوجی اور کمیونی کیشنز نے لوک سبھا کو بتایا تھا کہ 2013سے 2015کے درمیان تین سال میں ملک میں 108موبائل ٹاور مقررہ حد سے زیادہ ریڈیئشن پھیلاتے پائے گئے۔ اس کے لیے متعلقہ ٹیلی کام کمپنیوں پر جرمانہ عائد کیا گیا۔ انہوں نے اعدادوشمار کے ذریعہ بتایا تھا کہ 2013میں 12موبائل ٹاور زیادہ ریڈیئشن خارج کرتے ہوئے ملے تھے۔ ریڈیئشن کی حد کی خلاف ورزی کے معاملہ میں ٹیلی کام انفورسمنٹ ریسورسز اور مانیٹرنگ ایریا یونٹ نے قصوروار ٹیلی کام کمپنیوں پر 6.60کروڑ روپے کا جرمانہ عائد کیا تھا۔ حالاں کہ تب ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن(ڈبلیو ایچ او) کا حوالہ دیتے ہوئے وزیر نے کہا کہ ایسے ٹاوروں سے انسانی صحت پر کسی طرح کا برا اثر پڑنے کی کوئی رپورٹ نہیں ہے۔ لیکن اس سے یہ سوال اٹھ کھڑا ہوا تھا کہ آخر کس منشا یا خدشہ کے تحت موبائل کمپنیوں پر جرمانہ عائد کیا گیا۔
تابکاری کے معاملہ میں ٹیلی کام کمپنیوں کے ایک جھوٹ کا بھانڈاپھوڑا تھا آل انڈیا انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنس(ایمس) میں ہوئی تحقیق کے نتائج کی بنیاد پر ایک اخبار نے۔ اخبار نے لکھا تھا کہ ایمس نے اس سے متعلق حکومت کے ذریعہ اسپانسر شدہ تحقیقات کا تجزیہ کیا تو علم ہوا کہ ایک تحقیق میں موبائل ریڈیئشن سے برین ٹیومر ہونے کے خدشہ کا اظہار کیا گیا ہے۔ اس کے برعکس جس ریسرچ کو ٹیلی کام صنعت نے اسپانسر کیا تھا، اس میں ایسے خدشات سے عام طور پر انکار کیا گیا تھا۔ ان تحقیقات کا ایک تجزیہ میڈیکل کے جرنل نیورولوجیکل سائنسز میں شائع ہوا، جس میں بتایا گیا تھا کہ حکومت کے ذریعہ اسپانسر مطالعہ کا کوالٹی اسکور 7سے 8تھا، جب کہ کوالٹی کے معاملہ میں ٹیلی کام صنعت کے مطالعات کا اسکور 5یا 6تھا۔ کم کوالٹی کے اسکور کا مطلب یہ تھا کہ نتائج تعصب کا شکار ہوسکتے ہیں۔ موبائل ریڈئیشن کی وجہ سے صرف برین ٹیومر کا ہی خدشہ نہیں رہتا، بلکہ صحت سے وابستہ کئی اور خطرے بھی ہوسکتے ہیں۔ ممکنہ یہی وجہ ہے کہ سال2011میں حکومت کی ایک بین وزارتی کمیٹی(Inter-ministerial committee) نے کہا تھا کہ گھنے رہائشی علاقوں، اسکولوں، کھیل کے میدانوں اور اسپتالوں کے نزدیک موبائل ٹاور ہرگز نہیں لگنے چاہیے۔ لیکن یہ ہدایات ہوا ہوگئیں۔ اب تو رہائشی سوسائٹی اور ذاتی گھروں کی چھتوں تک پر یہ ٹاور نظر آجاتے ہیں۔
مسئلہ کا ایک پہلو یہ ہے کہ دنیا کے اربوں لوگوں کے ہاتھوں میں پہنچ چکے موبائل فون میں موجود رہنے والی ریڈیو-لہر(آر ایف) اپنے دائرہ میں آنے والے جسم کے ٹشوز کو ہر حال میں متاثر کرتا ہے۔ اصل میں ہمارے جسم کا درجہ حرارت کنٹرول کرنے والا نظام اس آر ایف توانائی کے سبب پیدا گرمی کو باہر نکالتا رہتا ہے۔ لیکن تحقیقات ثابت کرتی ہیں کہ موبائل فون سے ملنے والی فالتو توانائی ہی کئی بیماریوں کی جڑ ہے۔ جیسے برین ٹیومر، کینسر، گٹھیا، الزائمر اور دل سے متعلق بیماریاں۔ موبائل فون پر تو حفاظتی کوٹنگ لگاکر کسی طرح اس آر ایف توانائی سے خود کو بچا بھی سکتے ہیں، لیکن گھروں کے نزدیک بے حد طاقتور موبائل ٹاوروں کی ریڈئیشن سے کیسے بچیں گے؟ کیوں کہ ان سے جو ریڈیو لہروں کے طور پر بے حد مہلک برقناطیسی تابکاری (electromagnetic radiation) نکلتی ہے۔ ایسا ریڈیئشن عام طور پر دو ڈھائی میل کے دائرے تک میں پھیلا رہتا ہے۔ نیوزی لینڈ کے بائیوفزیک ڈاکٹر نائل چیری اور میڈیکل کے نوبل کے لیے تین بار نامزد سائنٹسٹ ڈاکٹر گیرارڈ ہائی لینڈ کا کہنا ہے کہ دنیا میں موجود ابھی تک کے سارے معیار موبائل ریڈیئشن کے حرارتی اثر پر منحصر ہیں۔ لیکن اس ریڈیئشن سے تو غیرحرارتی اثر بھی پیدا ہوتا ہے۔ یہ اثر ہمارے جسم کے خلیوں اور ڈی این اے کے لیے خطرہ پیدا کرتا ہے۔ دونوں سائنٹسٹوں کا کہنا ہے کہ موبائل ریڈیئشن پر ابھی تک مقررہ مدت کی ریسرچ ہوئی ہیں۔ اس لیے ان کے طویل مدتی اثرات کے بارے میں ابھی کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ سائنٹسٹوں کا مشورہ ہے کہ ٹاوروں کو اگر ہٹایا نہیں جاسکتا تو ان سے نکلنے والی ریڈیئشن کی صلاحیت کم کردینی چاہیے۔ قابل ذکر ہے کہ اس معاملہ میں ہندوستان فی الحال انٹرنیشنل کمیشن آن نان-آئنائزنگ ریڈیئشن پروٹیکشن(آئی سی این آر آئی پی) کی ہدایات کو مانتا ہے۔ ان کے مطابق موبائل ٹاور سے 9.2واٹ فی مربع میٹر سے زیادہ ریڈیئشن نہیں نکلنا چاہیے۔ حالاں کہ محکمہ ٹیلی کام اس ریڈیئشن میں 10فیصد کمی کرنے کا مشورہ دے چکا ہے لیکن اس کا یہ بھی ماننا ہے کہ انسانی صحت کے نظریہ سے ریڈیئشن کی حفاظتی حدود اس سے بھی ہزار گنا کم ہونی چاہیے۔ موبائل ریڈیئشن کے معاملہ میں ہندوستان واضح طور پر امریکی معیارات کو تسلیم کرتا ہے جہاں ٹاوروں کو 580-1000 مائیکروواٹ فی مربع میٹر کا ریڈیئشن پھیلنے کی چھوٹ ہے۔ لیکن اس کے برعکس یوروپی ممالک میں یہ حد 100سے 1000 گنا تک کم ہے۔ یہ آسٹریلیا میں 200مائیکروواٹ، روس، اٹلی و کناڈا میں 10مائیکروواٹ، چین میں 6مائیکروواٹ، سوئزرلینڈ میں 4مائیکروواٹ۔ سب سے بہترین مثال آسٹریلیا ہے جہاں انہیں صرف0.1مائیکرو واٹ ریڈیئشن نکالنے کی چھوٹ ہے اور یہ امریکہ کے مقابلہ دس ہزار گنا کم ہے۔ نیوزی لینڈ میں تو ریڈیئشن کی حد امریکی معیارات سے پچاس ہزار گنا کم کرنے کی سفارش وہاں کی حکومت نے کی تھی۔ لیکن افسوس یہ ہے کہ ہمارے ملک میں انسانوں اور زندہ حیاتیات کی صحت کا ایشو ہمیشہ ہی ایجنڈے سے غائب رہا ہے۔
(بشکریہ: جن ستّا)