محمد فاروق اعظمی
اس حقیقت سے انکار نہیں کہ کورونا کی وبا نے پوری دنیا کو تہہ و بالا کرکے رکھ دیا ہے۔ہندوستان پر یہ موذی وبا خدائی قہر بن کر برس رہی ہے اورروزانہ ہزاروں ہزار افراد لقمہ اجل بن رہے ہیں۔یہ بھی کہا جارہاہے کہ اس وبا سے بلا امتیاز امیر اور غریب سبھی متاثر ہوئے ہیں اور معیشت نے پورے ملک کا بیڑا غرق کردیا ہے۔لیکن کیاواقعی ایساہی ہے؟ کیا یہ وبائی صورتحال ملک کے سرمایہ داروں اورعام مزدوروں و محنت کشوں پر یکساں طور پر متاثرہورہی ہے؟
حقیقت تو یہ ہے کہ ایسا بالکل ہی نہیں ہے۔اس وبا سے متاثر ہونے والی اکثریت مزدوروں، محنت کشوں اور عام آدمیوں کی ہے۔ہاں اتنا ضرور ہوا ہے کہ آکسیجن اور اسپتالوں میں وینٹی لیٹرس کی کمی کی وجہ سے کچھ متوسط اوراعلیٰ متوسط طبقے کے افراد بھی اس مرض کا شکار ہوگئے۔ انہیں بھی دوااور آکسیجن کی تلاش میں وقتاً فوقتاً بھٹکنا پڑاہے۔تاہم ملک کے سرمایہ داروں اور صنعت کاروں کیلئے نہ تو علاج معالجہ کی کوئی کمی ہے اور نہ ہی انہیں آکسیجن اوروینٹی لیٹر کیلئے کہیں بھٹکنا پڑا ہے۔ یہی صورتحال سیاست دانوں اور حکمرانوں کے معاملے میں بھی ہے۔ہاں البتہ چند ایک ایم ایل اے اور چھوٹے درجہ کے سیاسی لیڈران اس سے مستثنیٰ ضرور کہے جاسکتے ہیں۔
اس وبا میں جہاں ہندوستانی عوام کی اکثریت کی روزی روٹی ختم ہوگئی ہے وہیں سرمایہ داروں، صنعت کاروں اورسیاسی اشرافیہ کی آمدنی کے نہ صرف تمام ذرائع باقی ہیں بلکہ روزبروز ان کے منافعوں میں دیوہیکل اضافہ بھی ہوتا جارہا ہے۔ہزاروں سرمایہ دار توفضائی سفر پر پابندی سے عین قبل ملک کی دولت سمیٹ کر برطانیہ اور امریکہ تک چلے گئے۔ان سرمایہ داروں میںکورونا کی ویکسین بنانے والی کمپنی سیرم انسٹی ٹیوٹ کاسربراہ ادار پونے والا بھی شامل ہیں۔اس وبائی مرض کے دوران بھی صنعت کاروںکے کارخانے خود کارمشینوں سے چلائے جارہے ہیں۔ ان کا کاروبار بڑھ رہاہے، اسٹاک مارکیٹ آسمان پر ہے۔ ویکسین اور میڈیکل کے سازوسامان بنانے کاکاروبار عروج ہے۔ مجموعی طورپر اس وبا سے ملک کے صنعت کاروں، سرمایہ داروں اور سیاست دانوں کی زندگیوں پر کوئی اثر نہیں پڑا ہے۔حالیہ دنوںامریکہ کی معروف مالیاتی کمپنی بلومبرگ کی جانب سے امیر ترین افراد کے جار ی اشاریہ میں ہندوستان کے اڈانی گروپ کے مالک سرمایہ دار صنعت کار گوتم اڈانی کو ایشیا کا دوسرا امیر ترین صنعت کار بتایا گیا ہے۔ گوتم اڈانی اپنی کل دولت 67.6 بلین ڈالر کے ساتھ دنیا کے14اور ایشیا کے دوسرے امیر ترین سرمایہ دار بن چکے ہیں۔ اب گوتم اڈانی ایشیا کے امیر ترین شخص مکیش امبانی سے صرف ایک قدم پیچھے ہیں۔مکیش امبانی اپنی 76بلین ڈالر کی دولت کے ساتھ دنیا کے دولت مندوں میں13ویں نمبر پرآتے ہیں۔
متوسط طبقہ کے لوگوں کو مؤثر علاج نہ ملنے کی وجہ سے ان کی زندگی اجیرن بنی ہوئی ہے اور ان کا پس انداز کیا ہوا اندوختہ علاج اوردواکے نام پر تیزی سے سکڑ رہا ہے۔ہاں متوسط طبقہ کے ساتھ یہ سہولت ضرور ہے کہ وہ 14دنوں تک گھر میں بند رہ کربھی اپنا پیٹ بھررہاہے جب کہ محنت کش اورمزدور بیماری اور روٹی دونوں محاذ پر اذیت کا شکا ر ہے۔اس لیے یہ کہنا کہ کورونا وائرس کی وجہ سے امیر و غریب سبھی پریشانی کے شکار ہیں، ننگی منافقت اور مزدوروں، محنت کشوںو غریب متوسط کا کھلا مذاق اڑانا ہے۔
دلچسپ بات تو یہ بھی ہے کہ جس وبا کا خوف دکھا کر ہندوستان کے غریبوں، مزدوروں، محنت کشوں اور کامگاروں کی روزی روٹی چھینی گئی، اسی وبا کے دوران گوتم اڈانی اور دوسرے سرمایہ داروں کی دولت میں دیو ہیکل اضافہ ہواہے۔رواں سال میںجب ہر طرف قیامت بپا ہے اور پورا ہندوستان نفسی نفسی پکار رہا ہے، گوتم اڈانی کی دولت میں34بلین ڈالر کا اضافہ ہوا ہے۔کورونا وائرس کی وبا کے دوران رواں سال میںاپنی دولت کے پہاڑ میں اضافہ کرنے والے گوتم اڈانی دنیا کے تیسرے شخص بن گئے ہیں۔ہورون انڈیا ویلتھ رپورٹ کے مطابق 2014 کے بعد سے گوتم اڈانی کی دولت میں تقریباً 432 فیصد کا اضافہ ہوا ہے جبکہ ریلائنس کمپنی کے مالک مکیش امبانی کی دولت میں 276 فیصد اضافہ ہوا ہے۔
حیرت ناک بات تو یہ بھی ہے کہ کورونا کے اسی بحران اور لاک ڈائو ن کے دوران ملک کے 40تاجر اور صنعت کار ارب پتیوں کی فہرست میں شامل ہوگئے ہیں۔ان40افراد کی شمولیت کے ساتھ ہندوستان میں ارب پتیوں کی تعداد اب 177ہوچکی ہے۔گزشتہ دیڑھ برسوں سے جاری کوروناوائرس کی اس وبا میں کہاجارہاہے کہ پوری دنیا کی بہت سی معیشتیں تباہ ہوچکی ہیں۔ بہت سی کمپنیاں بند ہوگئی ہیںاور بہت سارے تاجر دیوالیہ ہوگئے ہیں۔ان حالات میں ہندوستانی تاجروں کی دولت میں اس طرح کا اضافہ ہر ایک کیلئے چونکا دینے والا ہے۔
اسٹاک مارکیٹ میں درج (ان لسٹ) گوتم اڈانی کی 6 کمپنیوں کے حجم (مارکیٹ کیپ) میں اسی کورونا بحران کے دوارن صرف ایک سال میں 41.2 گنا اضافہ ہوا ہے۔ جب کہ مکیش امبانی کی ریلائنس کمپنی کے حجم میں55فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔ گزشتہ سال گوتم اڈانی گروپ کی کمپنیوں کاحجم ڈیڑھ لاکھ کروڑ روپے تھا، جو اب بڑھ کر 8.5 لاکھ کروڑ روپے ہوگیا ہے۔ اس طرح یہ 6 گنا بڑھ گیا ہے۔ اسی کورونا مدت کے دوران ریلائنس کا مارکیٹ کیپ 9.37 سے بڑھ کر 13.35 لاکھ کروڑ روپے ہوگیا ہے۔ یعنی مکیش امبانی نے اس ایک سال میں4 لاکھ کروڑ روپے کی کمائی کی اورصر ف ان 6 کمپنیوںسے گوتم اڈانی نے 7لاکھ کروڑ روپے کا منافع حاصل کیا ہے۔
دوسری طرف اگر ہم محنت کشوں،مزدوروں اورکامگاروں کے حالات پر نظر ڈالیں تو صورتحال انتہائی ہولناک نظرآتی ہے، دریا میں تیرتی لاشوں کا تعلق اسی طبقے کے لوگوں سے ہے۔ کم جانچ یا بالکل ہی جانچ نہ ہونے سے لے کر علاج کی عدم دستیابی تک کا سامنا اسی طبقہ کو ہے۔ لاک ڈائون اور کورونا پابندی کے نام پر پولیس اسی طبقہ پر لاٹھیاں برساتی ہے تو دوا اورعلاج کے نام پریہی طبقہ بے ایمان تاجروں اور دکانداروں کا سب سے بڑا ہدف بنا ہوا ہے۔ایک طرف اس طبقہ کو ڈاکٹراور اسپتال والے نچوڑ رہے ہیں تولالچی دوافروش دکانداربھی اپنا شکم ہوس بھرنے کیلئے اسی طبقہ کو لوٹ کھسوٹ رہے ہیں۔ہر چہار جانب سے یلغاربھی اسی طبقہ پر ہورہی ہے۔اس طبقہ کی اکثریت روزانہ کمانے و کھانے والوں کی ہے۔ حکومتی بدانتظامی اور پولیس جبر نے اس کا روزگارختم کردیا ہے۔ یہی طبقہ وبا کے ساتھ بھوک سے بھی لڑرہاہے۔ وسائل نہ ہونے کی وجہ سے کورونا متاثرہ بہت سے لوگوں نے تو اپنا علاج کرانا ہی بند کردیا ہے اوربہ آسانی موت کا شکار بن رہے ہیں۔ ایک سروے کے مطابق گزشتہ ایک ماہ میں 73.5 لاکھ سے زیادہ مزدوروں کو کام سے ہٹا دیا گیا ہے۔ سی ایم آئی ای (سینٹر فار مانیٹرنگ انڈین اکنامی) کے مطابق بے روزگاری کی قومی شرح 8فیصد ہوگئی ہے۔مزدوروں اور محنت کشوں کی اس ہولناک بے بسی میں متوسط طبقہ بھی ان کا ساتھ دے رہاہے۔ متوسط طبقہ کے لوگوں کو مؤثر علاج نہ ملنے کی وجہ سے ان کی زندگی اجیرن بنی ہوئی ہے اور ان کا پس انداز کیا ہوا اندوختہ علاج اوردواکے نام پر تیزی سے سکڑ رہاہے۔ہاں متوسط طبقہ کے ساتھ یہ سہولت ضرور ہے کہ وہ 14دنوں تک گھر میں بند رہ کربھی اپنا پیٹ بھررہاہے جب کہ محنت کش اورمزدور بیماری اور روٹی دونوں محاذ پر اذیت کا شکا ر ہے۔اس لیے یہ کہنا کہ کورونا وائرس کی وجہ سے امیر و غریب سبھی پریشانی کے شکار ہیں، ننگی منافقت اور مزدوروں، محنت کشوںو غریب متوسط کا کھلا مذاق اڑانااور کورونابحران کے نام پر جاری مجرمانہ لوٹ مار کی پردہ پوشی کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔
[email protected]