ہند-افغان: رشتہ اٹوٹ ہے

0

ہندوستان اور افغانستان کا رشتہ تاریخی ہے۔ اس رشتے کی بنیاد بھائی چارہ اور باہمی احترام پر ہے۔ جنگ کے شروع ہونے کے بعد افغانوں نے جائے پناہ کی تلاش میں جن ملکوں کا رخ کیا، ان میں ہندوستان بھی ایک اہم ملک تھا۔ ہندوستان نے مہاجر افغانوں کا خیرمقدم کیا تو جنگ زدہ افغانستان میں تعمیر نو کا کام کرکے افغانوں کو راحتیں پہنچانے میں نمایاں رول ادا کیا۔ افغان پارلیمنٹ کی تعمیر ہندوستان نے ہی کی ہے۔ سلما باندھ ہندوستان نے ہی تعمیر کیا ہے۔ اسے ہی افغان-انڈیا فرینڈشپ ڈیم کہا جاتا ہے۔ اس کی تعمیر پر 29 کروڑ امریکی ڈالر کا خرچ آیا۔ ہندوستان نے افغانستان میں 200 پبلک اور پرائیویٹ اسکول بنوائے ہیں۔ ہندوستان نے افغان طلبا و طالبات کو اسکالرشپ دی ہے، اپنے یہاں پڑھنے کی سہولتیں دی ہیں۔ اس کے علاوہ افغانستان میں سڑکوں، بجلی گھروں اور دیگر عمارتوں کی تعمیر کے ساتھ اشیائے خوردنی سے بھی افغانوں کی مدد کی ہے۔ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ ہندوستان نے افغانستان کے سیاسی معاملات میں مداخلت سے گریز کیا ہے، چنانچہ کوئی وجہ نہیں ہے کہ امریکی فوجیوں کے جانے کے بعد ہندوستان کے لیے افغانستان میں حالات خراب ہو جائیں، ہندوستانیوں کو افغان اچانک دشمن سمجھنے لگیں، البتہ اسی طرح کے خدشات کا اظہار کیا جا رہا ہے کہ امریکی فوجیوں کے جانے کے بعد ہندوستان کے لیے افغانستان میں حالات مختلف ہو جائیں گے، پاکستان کا دائرۂ اثر بڑھ جائے گا۔ خدشات کے اظہار کی وجہ غالباً یہ ہو کہ پاکستان کی طالبان سے قربت رہی ہے مگر عالمی سیاست میں کوئی بھی چیز پائیدار نہیں ہوتی۔ یہ سچ ہے کہ طالبان سے پاکستان کی قربت رہی ہے اور سچ یہ بھی ہے کہ امریکہ نے افغانستان پر حملے کا اعلان کیا تھا تو پاکستان نے بظاہر طالبان کا ساتھ چھوڑنے میں تاخیر نہیں کی تھی۔ اس وقت پاکستان نے اپنے مفاد کے بارے میں پہلے سوچا تھا تو یہ کیسے ممکن ہے کہ امریکی فوجیوں کے افغانستان سے جانے کے بعد اگر طالبان پھر سے اقتدار میں آتے ہیں تو وہ پہلے اپنے بارے میں نہیں سوچیں گے، پاکستان یا کسی اور ملک کے بارے میں سوچیں گے؟
ہندوستان افغان جنگ میں امریکہ کا اتحادی نہیں تھا کہ اس کے جانے کے بعد ہندوستان کے لیے حالات خراب ہوجائیں گے، ہندوستان نے وہاں امداد پہنچانے کا کام کیا اور افغانوں کے لیے وہ اس خطے کا سب سے بڑا عطیہ کار اور دنیا کا پانچواں بڑا عطیہ کار ہے تو جنگ کے بعد اب حکومت چاہے طالبان کی بنے یا کسی اور کی، افغانستان کی تعمیر نو کے لیے ان ملکوں کی ضرورت رہے گی جو اب تک اس کی مدد کرتے رہے ہیں، چنانچہ وہ لوگ جو یہ کہتے ہیں کہ افغانستان سے امریکہ کی فوجیوں کے جانے کے بعد ہندوستان کے لیے حالات برعکس ہو جائیں گے، وہ افغانوں کے لیے ہندوستان کے کام سے یا تو واقف نہیں ہیں یا وہ ہندوستان کو دانستہ طور پر کم دکھانے یا افغانستان میں اس کے دائرۂ اثر کو امریکہ سے جوڑنے کے لیے کوشاں ہیں۔ ہندوستان کے طالبان سے ایسے تعلقات نہیں ہیں جو مستحکم رشتے میں تبدیل نہ ہو سکیں۔ اس سلسلے میں امریکہ کی شمالی کوریا پالیسی ایک مثال ہے۔ کم جونگ-ان امریکہ کو دھمکاتے رہتے ہیں مگر امریکی لیڈروں نے حالات کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے کم سے ملاقات کرنے اور رشتہ استوار کرنے کی کوشش جاری رکھی ہوئی ہے۔ پہلے ڈونالڈ ٹرمپ نے کم جونگ-ان سے ملاقات کی اور اب امریکہ کے موجودہ صدر جو بائیڈن نے کہا ہے کہ وہ سازگار ماحول میں کم جونگ-ان سے ملنے کے خواہشمند ہیں تاکہ کوریائی جزیرہ نما کو نیوکلیئر ہتھیاروں سے پاک کیا جا سکے۔امریکی صدر یہ کوشش ایسی صورت میں کرنا چاہتے ہیں جب کوریا میں یہ خیال پایا جاتا ہے کہ دونوں کوریاؤں کے انضمام میں سب سے بڑی رکاوٹ امریکہ ہے جبکہ افغانستان کے معاملے میں ہندوستان کے لیے ایسی کوئی بات نہیں ہے۔ افغانستان کے لوگ ہمیشہ سے ہندوستان کے قریب رہے ہیں اور ان کی اس قربت کو افغانستان میں کوئی بھی حکومت رہے، نظرانداز نہیں کرسکتی۔ ہندوستان کو بس آج کے حالات میں اور اپنے مفاد کے مدنظر افغان پالیسی کی تشکیل کرنی ہوگی اور ایسا نہیں ہے کہ مودی حکومت بدلتے حالات سے واقف نہیں!
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS