آفت کو موقع نہیں بناپائے ہم

ہندوستان کی جن کمپنیوں کو ہم ابھی تک دنیا میں سب سے آگے مانتے تھے، وہ دراصل آرڈر ملنے پر پیداوار کرنے والی محض فیکٹریاںہیں

0

ہرجندر

جب کووڈ نہیں تھا، تب بہت کچھ بہت اچھا تھا۔ ایسا ہم بہت سی چیزوں کے بارے میں یا شاید سبھی چیزوں کے بارے میں کہہ سکتے ہیں۔ لیکن یقینا اور ناقابل تردید طور پر ویکسین بازار کے بارے میں تو یہ کہا ہی جاسکتا ہے۔ تب تک اس بازار میں ہم سب سے آگے تھے۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے 2019کے اعدادوشمار کو دیکھیں تو دنیا کے ویکسین بازار میں 28فیصد حصہ داری اکیلے ہندوستان کی کمپنی سیرم انسٹی ٹیوٹ آف انڈیا کی تھی۔ معلوم نہیں، بات کتنی سچ ہے، لیکن یہ اکثر سنائی دیتی تھی کہ پوری دنیا کا 12سال کا کوئی بھی بچہ جس کی مکمل ٹیکہ کاری ہوئی ہو، اسے اپنی پوری زندگی میں کبھی نہ کبھی سیرم انسٹی ٹیوٹ کا ایک ٹیکہ تو لگا ہی ہوگا۔ یعنی ویکسین کے معاملہ میں اس طرح کے نیریٹیو ہمارے فخر کے احساس کو تھپتھپانے کے لیے موجود تھے۔ ویسے سیرم انسٹی ٹیوٹ کے علاوہ ملک کی کئی اور کمپنیاں بھی ویکسین بنانے اور برآمد کرنے کا کام کرتی ہیں۔ اگر ان سبھی کو منسلک کردیا جائے تو دنیا کے ویکسین بازار میں ہندوستان کی حصہ داری ایک تہائی سے کہیں زیادہ تھی۔
بات صرف 2019کے اعدادوشمار کی نہیں ہے۔ 2020کے آخر تک یہی سمجھا جارہا تھا کہ کورونا وائرس سے جنگ میں ہندوستان بڑا کردار نبھانے جارہا ہے۔ دسمبر میں اقوام متحد کے سکریٹری جنرل اینٹونیوگوٹریس نے یہاں تک کہا تھا کہ ویکسین کی جو پیداوارکی صلاحیت ہندوستان کے پاس ہے، وہ دنیا کا ایک اہم اثاثہ ثابت ہونے والی ہے۔ انہی سب سے پرجوش ہوکرہندوستان نے اپنے عوامی رابطہ کو بڑھانے کا فیصلہ کیا اور دسمبر کے آغاز میں سبھی ممالک کے سفیروں کو ایک ساتھ بلاکر ویکسین کی لیبارٹیز اور پروڈکشن یونٹوں کا دورہ کروایا۔ اس دورہ کے بعد آسٹریلیا سمیت کئی ممالک کے سفیروں نے ہندوستان کی ویکسین پیداوار کی صلاحیت کے لیے کئی قصیدے بھی پڑھے تھے۔ ہم اس بات سے خوش تھے کہ ہندوستان میں صحت سہولتیں خستہ ہوسکتی ہیں، اسپتال، مریضوں کے لیے بستر و ہیلتھ ورکرز کم پڑسکتے ہیں، وینٹی لیٹر کا قحط ہوسکتا ہے، آکسیجن میں ضرورت سے کہیں زیادہ کمی آسکتی ہے، بہت سی دواؤں کی کمی سے ان کی کالابازاری ہوسکتی ہے، لیکن ویکسین کے معاملہ میں ہم آتم نربھر ہیں۔ اور کچھ نہ ہو، مگر کووڈ کو شکست دینے والا اصلی ’برہماستر‘ تو ہمارے پاس ہے ہی۔
سال2021کے شروعاتی ہفتوں تک یہی محسوس ہورہا تھا کہ ہندوستان نئے جھنڈے نصب کرنے جارہا ہے۔ پہلے مرحلہ میں صرف ہیلتھ ورکرز کو ٹیکے لگنے تھے۔ جتنے ٹیکے لگ رہے تھے، اس سے زیادہ ویکسین پروڈکشن کی خبریں آرہی تھیں۔ کچھ ماہرین تو یہ بھی کہہ رہے تھے کہ ہندوستان کے ہیلتھ سسٹم کے پاس ٹیکہ کاری کی جو صلاحیت ہے، ہندوستان کی ویکسین پیداوار کی صلاحیت سے وہ کہیں کم ہے، اس لیے ہندوستان کے پاس ہمیشہ ویکسین کا سرپلس اسٹاک رہے گا۔ شاید اسی جواز کے سبب ہندوستان نے ٹیکوں کی برآمدات بھی کی جو ان دنوں کافی بڑا سیاسی ایشو بنا ہوا ہے۔ غیرملکی پالیسی کے بہت سے تجزیہ نگاروں نے اس برآمدات کو ’ویکسین ڈپلومیسی‘ بتاتے ہوئے اس کی تعریفوں کے پل بھی باندھے تھے۔
لیکن اپریل آتے آتے ایسا کیا ہوا کہ سارا شیرازہ بکھر گیا؟ ایک تو عمر کے حساب سے ٹیکہ کاری کی اہلیت کو مسلسل وسعت دی جانے لگی۔ پھر اسی دوران کورونا انفیکشن کی دوسری لہر آئی جو پہلے سے کہیں زیادہ خوفناک اور متعدی تھی۔ لوگوں کو محسوس ہوا کہ ٹیکہ کاری جلدی ہونی چاہیے اور ویکسینیشن سینٹروں کے باہر بھیڑ میں اضافہ ہونے لگا۔ سرکاری اور پرائیویٹ اسپتالوں نے ٹیکہ کاری کی اپنی صلاحیت میں اضافہ کردیا، کچھ جگہ تو چوبیس گھنٹے ٹیکہ کاری کی سہولت دے دی گئی۔ جب یہ حالت آئی، تب علم ہوا کہ ٹیکے کم پڑرہے ہیں۔ سبھی ریاستوں سے ٹیکوں کا اسٹاک ختم ہونے کی خبریں آنے لگیں۔ لیکن بات کیا صرف اتنی تھی؟
شاید نہیں۔ تمام اعدادوشمار بتارہے ہیں کہ ویکسین کی پیداوار کا دنیا کا سب سے معروف ملک ہندوستان کووڈ ویکسین کے معاملہ میں شکست یاب ہوگیا۔ معلوم ہوا کہ دنیا کی سب سے بڑی ویکسین بنانے والی کمپنی بل گیٹس فاؤنڈیشن سے 30 کروڑ ڈالر کی مدد لینے کے باوجود ابھی تک کووڈ ویکسین کی صرف 6 کروڑ خوراک بنا پائی ہے۔ سیرم انسٹی ٹیوٹ کا کہنا ہے کہ حکومت ہند نے اتنے کا ہی آرڈر دیا تھا۔ یہ سچ ہے کہ اس کے پہلے سیرم کبھی حکومت ہند کے آرڈر کی محتاج نہیں رہی، وہ اپنی ویکسین پوری دنیا کو فروخت کرتی رہی، لیکن اس مرتبہ تمام بینڈ، باجا، برات کے باوجود اس نے سہرا اپنے ماتھے پر سجانے کا موقع گنوا دیا۔
اس کا مقابلہ اگر ہم دنیا کی دوسری کمپنیوں سے کریں تو تصویر کچھ اور نظر آتی ہے۔ فائزر دنیا کی ایک اہم اور بہت بڑی دوا بنانے والی کمپنی ہے، لیکن ویکسین کے بازار میں اس کی کوئی بہت بڑی حصہ داری حالیہ دنوں میں نہیں رہی۔ اس نے اب پوری دنیا کے ممالک سے 52کروڑ ویکسین ڈوز برآمد کرنے کا معاہدہ کرلیا ہے، جسے وہ جلد ہی عملی جامہ پہنانے کی بات بھی کررہی ہے۔ کمپنی کا دعویٰ ہے کہ اس سال کے آخر تک وہ 1.3ارب ویکسین ڈوز کی پیداوار کرلے گی۔ اسپوتنک-وی نام کی ویکسین بنانے والی روس کی کمپنی کے دعوے بھی ایسے ہی ہیں۔ چین تو کئی مرتبہ اس سے بھی بڑے دعوے کرچکا ہے۔ امریکی کمپنی ماڈرنا کا دعویٰ اور ویکسین صنعت میں اس کے پہلے تک کوئی تجربہ نہیں تھا، لیکن اب وہ امریکہ کی سب سے معروف ویکسین بنانے والی کمپنی بن چکی ہے، جب کہ یہاں ہندوستان میں سب سے تجربہ کار کمپنی بے بس نظر آرہی ہے۔ جس وقت ہندوستان کی کامیابی کا ہر طرف ذکر ہونا چاہیے تھا، اس وقت پوری دنیا ہندوستان پر ترس کھارہی ہے۔ اور ہندوستان کی ریاستی حکومتیں جھولا اُٹھاکر ویکسین کی خریداری کے لیے بھٹکنے کے لیے مجبور ہیں۔اس بحران نے یہ بھی بتادیا کہ ہندوستان کی جن کمپنیوں کو ہم ابھی تک دنیا میں سب سے آگے مانتے تھے، وہ دراصل آرڈر ملنے پر پروڈکشن کرنے والی محض فیکٹریاں ہیں۔ ایسی صنعتوں سے بھلا یہ امید کیسے کی جائے کہ وہ آفت کو موقع میں بدل سکیں گے؟
(مضمون نگار سینئر صحافی ہیں)
(بشکریہ: ہندوستان)

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS