علمی نقصان کی تلافی کیسے ہوگی؟

0

کورونا کی دوسری لہر سے ملک کے مختلف سیکٹروںکوجو جانی ومالی نقصانات پہنچ رہے ہیں، ان کے اعدادوشمار بہت حد تک سرکاری وپرائیوٹ اداروں اورایجنسیوں کے ذریعہ جمع کئے جارہے ہیں یاحالات کی بنیاد پر اندازے لگا کر پیش کئے جارہے ہیں، لیکن ملک کو جو علمی وتعلیمی نقصان پہنچ رہا ہے، اس کے نہ اعداد وشمار جمع کئے جارہے ہیں،نہ اندازے لگائے جارہے ہیں اور نہ پیش کئے جارہے ہیں ۔جبکہ ملک کا تعلیمی شعبہ بالکل غیر یقینی کیفیت سے گزررہا ہے۔ ایک سال سے زیادہ عرصے سے اسکول، کالج اوریونیورسٹیاں بند ہیں ۔بیچ میں کچھ دنوں کے لئے وہ کھولے گئے تھے ، پھر بند کردیے گئے ۔پڑھائی گھروں سے آن لائن ہورہی ہے اورآن لائن ہی امتحانات کی رسم اداکی جارہی ہے۔ حالت یہ ہوگئی ہے کہ نہ اساتذہ کو پتہ ہے کہ آن لائن کلاسوںمیں کون کون سے بچے شریک ہیں اور نہ نئے طلباکو پتہ ہوتا ہے کہ کون انہیں پڑھا رہا ہے ۔کوئی کسی سے نہ ملتا ہے اورنہ دیکھ پاتا ہے۔ ظاہر سی بات ہے کہ آن لائن پڑھنے پڑھانے اورسمجھنے وسمجھانے میں پریشانی ہوتی ہے ۔اس میں تعلیم کی وہ کوالٹی بھی نہیں پیدا ہوتی جو کلاسوں میں ہوتی ہے۔ آن لائن تعلیم نہ فزیکل تعلیم کا بد ل ہوسکتی ہے اورنہ اس کی جگہ لے سکتی ہے، لیکن مجبوری ہے۔ گزشتہ ایک برس سے اسی طرح درس و تدریس کا سلسلہ جاری ہے۔ پچھلے سال تو کسی طرح ریاستی وسی بی ایس ای بورڈ کے امتحانات ہوگئے تھے اور طلبا کو پاس کردیا گیا تھا ، امسال وہ بھی نہیں ہوپارہے ہیں ۔جن ریاستی بورڈوں کے امتحانات ہوئے، وہ بھی بمشکل ہوئے ۔سی بی ایس ای کے 10 ویں بورڈ کے امتحانات نہیں ہورہے ہیں، انٹرنل اور پری بورڈ کے نمبرات کی بنیاد پر نمبر ات دے دئے جائیں گے ۔12ویں بورڈ کے امتحانات کے تعلق سے بھی غیر یقینی کیفیت طاری ہے۔ یکم جون کو اس پر میٹنگ ہوگی اوراسی دن فیصلہ ہوگا کہ امتحانات لئے جائیں یا نہیں اوراگر لئے جائیں تو کس طرح ؟
یہ تو تعلیمی وتدریسی نقصان کا حال ہے، رہی بات اساتذہ اور طلبا وطالبات کی تو ڈاکٹروں کی طرح ان میں سے ایک بڑی تعداد کو ملک نے کورونا کی پہلی لہر اور دوسری لہرمیں کھودیا ہے ۔اعلیٰ تعلیم سے متعلق گلوبل ونڈو یونیورسٹی ورلڈنیوز کی رپورٹ کے مطابق کورونا کی دوسری لہر میںکووڈ۔ 19 کی زد میں آنے سے دہلی یونیورسٹی کے 30پروفیسر اورٹیچنگ اسٹاف کی موت ہوچکی ہے جبکہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اپنے 16 قابل پروفیسروں اورڈیڑھ درجن سے زیادہ نان ٹیچنگ اسٹاف سے محروم ہوگئی ۔جامعہ ملیہ اسلامیہ نے بھی اپنے 4پروفیسروں اور15 اسٹاف کو کھودیا۔ سنٹرل یونیورسٹی گجرات، احمدآباد کی پروفیسر اندرانی بنرجی کی موت بھی کووڈ کی وجہ سے ہوگئی۔کچھ ایسا ہی حال ملک کی دیگر یونیورسٹیوں اوراسکولوں کا ہے ۔کچھ اعدادوشمار اس لئے سامنے آگئے کہ وہ سروس میں تھے۔ بڑی تعداد میں ریٹائرڈ اساتذہ اور سابق طلبا وطالبات کورونا کی وجہ سے اس دنیا کو خیر باد کہہ چکے ہیں۔ کچھ ایسا ہی حال مدارس کا بھی ہے۔ وہ بھی کورونا کے باعث بڑی تعداد میں قابل اساتذہ اورذمہ داران سے محروم ہوگئے۔ مجموعی طور پر کہیں بھی تعلیمی اداروں میں ہونے والی اموات کے اعدادوشمار جمع نہیں کئے جارہے ہیں ۔ ان کے بند ہونے اور لاک ڈائون کی وجہ سے بہت سی اموات کی خبریں منظر عام پر نہیں آپا رہی ہیں۔جب تعلیمی ادارے باقاعدہ کھلیں گے اوروہ اساتذہ اورطلباوطالبات نہیں نظر آئیں گے تب لوگوں کو پتہ چلے گا کہ کس ادارے کو کتنا علمی نقصان پہنچا ۔
کووڈ ۔ 19 نے ملک کے ہر سیکٹر کو بری طرح متاثر کیا ہے ۔ کچھ دنوں قبل انڈین میڈیکل کونسل کی رپورٹ آئی تھی کہ کورونا کی پہلی لہر میں 747 اوردوسری لہر میں 420 ڈاکٹروں کی موت ہوچکی ہے ۔یہی حال ملک کے دوسرے شعبوں اور سیکٹروں کا ہے ۔مجموعی طور پر جانی ومالی نقصان کے تعلق سے صورت حال کافی سنگین ہے ۔ظاہر سی بات ہے کہ ملک نے جن ڈاکٹروں، اساتذہ اور طلبا کو کھودیا، اس عظیم خسارے کی تلافی نہیں ہوسکتی اور نہ اس خلاکو پر کرنا آسان ہوگا ۔اس پر جتنا بھی افسوس کیا جائے ، کم ہے ۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS