کاش! اپنے پاؤں پر کھڑے ہوتے گاوؤں

0

بدری نارائن

کورونا کا مہلک پھیلاؤ ملک کے گاوؤں میں بھی پہنچ چکا ہے۔ شہر، شہر سے ملحق قصبات، بازاروں سے ہوتا ہوا یہ وائرس اب دوردراز گاوؤں میں بھی اپنے پاؤں پھیلانے لگا ہے۔ کورونا کی پہلی لہر میں شمالی ہندوستان کے گاؤں بہت متاثر نہیں ہوئے تھے۔ تب لگا تھا کہ ’انڈیا‘ کے مؤثر طریقوں سے دیہی علاقوں میں پھیلا ’ہندوستان‘ بچ جائے گا۔ لیکن ایسا نہ ہوسکا۔ آج گاوؤں کی گلیوں میں موت کو گھومتے ٹہلتے آپ آسانی سے دیکھ سکتے ہیں۔
ہندوستانی گاوؤں کی سب سے بڑی مجبوری ہے، شہروں پر ان کا انحصار۔ گاؤں کے لوگ مہاجرمزدورر، ملازم بن کر شہروں، میٹروسٹیز میں جانے اور وہاں سے لوٹنے پر مجبور ہیں۔ شہروں میں اناج، سبزی، دودھ فروخت کرنے جانا اور وہاں سے روزمرہ کی زندگی کی متعدد ضروری مصنوعات کا گاوؤں میں آنا دیہی زندگی کی مجبوری ہے۔ انہی لوگوںاور پروڈکٹس کے ساتھ متعدی بیماریاں گاوؤں میں پہنچتی، پاؤں پھیلاتی رہی ہیں۔ ہیضہ، چیچک جیسی متعدد متعدی بیماریاں اور ان کے مہلک وائرس کلونیکل پریڈ میں بھی فوجیوں کے ساتھ پریڈ کرتے ضلع مراکز کے سول لائنس(برٹش فوجیوں کے رہنے کے لیے ڈیولپڈایریا) سے اڑکر شہری آبادی میں پہنچتے تھے۔ پھر شہری آبادی سے گاوؤں میں۔

آج اپنوں کو کھونے کا جو رونا گاوؤں میں سنائی دے رہا ہے، اس میں کہیں نہ کہیں مہاتما گاندھی کا بھی دکھ شامل ہے۔ اس میں ایک آہ پوشیدہ ہے کہ کاش! ہندوستان میں ایسا گرام سوراج بن پاتا، جو نسل پرستانہ تشدد، چھواچھوت اور جدیدیت کی متعدد برائیوں اور انفیکشن سے آزاد بیس ایریا کی طرح ڈیولپ ہوپاتا۔ آج جب کورونا گاؤں گاؤں تک پھیل رہا ہے، تب ہمیں اپنی ترقی سے متعلق خوداحتسابی میں مہاتماگاندھی کے اس اہم نقطہ نظر کو یاد کرنا ہی چاہیے۔

مہاتماگاندھی مغرب سے متاثر اربنائزیشن کے اس برے سائیکل کو اچھی طرح سمجھ چکے تھے۔ وہ کہتے تھے، ہندوستان کا مستقبل ہندوستانی گاوؤں سے وابستہ ہے۔ گاؤں بچیں گے تو ہندوستان بچے گا۔ مغرب سے متاثر جدیدکاری اور اس کے عالمگیر بحران کو سمجھتے ہوئے انہوں نے اپنے نوآبادیاتی مخالف آزادی کی جدوجہد کے ساتھ ہندوستانی گاوؤں کی تعمیرنو کی مہم کو مضبوطی سے جوڑا تھا۔ وہ شہروں پر انحصار کے چکر سے آزاد ’آتم نربھر گاؤں‘ تیار کرنا چاہتے تھے۔ 1945میں جواہر لعل نہرو کو لکھے ایک خط میں انہوں نے کہا تھا، ’میرا مثالی گاؤں اب بھی میرے تصور میں ہی واقع ہے۔ میں ہندوستان میں ایک ایسا دیہی سسٹم اور ثقافت کی ترقی چاہتا ہوں جو ایک بیدار گاؤں تیار کرسکے۔ یہ Relaxed consciousness گاؤں نہ ہوں، یہ اندھیرے میں بھرے گاؤں نہ ہوں، یہ ایسے گاؤں نہ ہوں، جہاں جانوروں کے گوبر چاروں طرف پھیلے رہتے ہوں۔ یہ ایسے گاؤں ہوں، جہاں عورت-مرد آزادی کے ساتھ رہ سکیں۔‘ اسی خط میں انہوں نے آگے تحریر کیا ہے کہ میں ایسے گاؤں ڈیولپ کرنا چاہتا ہوں جو ہیضہ، پلیگ جیسی وباؤں سے آزاد رہیں۔ جہاں کوئی آرام طلب اور بے کار نہ ہو۔ جہاں سبھی محنت کش رہیں اور سب کے پاس کام رہے۔ ایسے گاوؤں کے پاس سے ریلوے لائنیں بھی گزریں اور ان میں پوسٹ آفس بھی ہوں۔
گاندھی ہندوستانی گاوؤں کو صاف ستھرا، وباؤں سے آزاد رہائش کے طور پر ڈیولپ کرنا چاہتے تھے۔ ان کے لیے اپنے پڑوسی شہر پر گاوؤںکا انحصار بڑھانے کے چکر کو وہ توڑ دینا چاہتے تھے۔ وہ گاوؤں سے ہورہی نقل مکانی کے عمل کو روکنا چاہتے تھے۔ اس کے لیے وہ زراعت کے ساتھ ہی مقامی پیداواروں پر مبنی دیہی صنعتوں کو ڈیولپ کرنا چاہتے تھے۔ وہ چاہتے تھے کہ گاؤں میں خوش حالی کا احساس پیدا ہو اور جہاں جس کی جتنی ضرورت ہو، اتنی وہ کھپت کرے اور اپنی پیداوار کا دوسروں سے لین-دین کرے۔ مہاتما گاندھی اس بڑی بچت کی چاہ کو گاوؤں سے ختم کرنا چاہتے تھے کیوں کہ وہ سرمایہ دارانہ نظام کو تقویت دیتی ہے۔ گاندھی کے گاؤں میں شہروں سے زیادہ کچھ خریدنے کی توقع نہیں تھی۔ وہ تو دیہی صنعتوں کے لیے کچامال بھی دور سے منگانے کے بجائے مقامی سطح پر اُگائے جانے کی وکالت کرتے تھے۔
ہندوستانی گاوؤں کی خودمختاری اور شہروں میں جانے آنے کی بڑھتی ضرورتوں کو کنٹرول کرنے کے لیے گاندھی کا ماننا تھا کہ گاؤں میں پرائمری سے لے کر اسکول قائم کرنے ہوں گے۔ ان کا ماننا تھا کہ ابتدائی تعلیم کے بعد دیہی طلبا کو شہروں میں آکر ثانوی و اعلیٰ تعلیم لینے کے لیے مجبور ہونا پڑتا ہے۔ وہ اس مجبور نقل و حرکت پر پابندی لگانا چاہتے تھے۔ گاندھی جی کے تصور کا ’آتم نربھر گاؤں‘ حقیقت میں ان کا مشن تھا، جسے وہی نہیں بلکہ پوری گاندھی وادی سماجی سیاست سچ بنانے میں لگی تھی۔ وِنووا بھاوے، جے پرکاش نارائن، جے سی کمارپّا جیسے لوگ آزادی کے بعد باپو کے ’گرام-سوراج‘ اور آتم نربھر گاؤں کے خواب کو سچ کرنے میں زندگی بھر مصروف رہے۔
مہاتماگاندھی کا یہ تصور ترقی کے لیے مکمل وژن اور ایکشن پلان تھا۔ اس میں معاشی، معاشرتی، سیاسی نظریات کا کوآرڈنیشن بھی تھا۔ گاندھی کے کئی پیروکاروں نے ملک کے مختلف حصوں کے گاوؤں میں گاندھی وادی تصور سے کام بھی کیا۔ اے پی جے عبدالکلام نے اسی سوچ کو اپنے طریقہ سے ڈیولپ کرکے ایک خاکہ تیار کیا تھا، جس میں گاوؤں کو آتم نربھر بنانے کی کوشش تھی۔ معروف سماجی کارکن ناناجی دیش مکھ، اناہزارے بھی اپنے اپنے طریقہ سے مہاتماگاندھی کے اسی خواب کو آگے بڑھاتے رہے۔
اٹل بہاری واجپئی نے تو اپنی پرائم منسٹرشپ میں گاوؤں کو آتم نربھر بنانے کے لیے کئی اہم اسکیمیں شروع کی تھیں۔ لیکن مہاتماگاندھی کا خواب پورا نہ ہوسکا، کیوں کہ ہندوستانی ریاست آزادی کے بعد سے منظم طریقہ سے جس معاشی پالیسی پر چلتا رہا، وہ بڑی صنعتوں، مغربی جدیدیت اور اربنائزیشن کے عمل کو تقویت دے رہا تھا۔ شاید اسی لیے گاندھی کے خواب کے بالکل برعکس ترقی کا عمل چلا۔ نتیجتاً ہندوستان میں اربنائزیشن تیز ہوتا جارہا ہے اور اب تو دیہی علاقوں میں بھی اربنائزیشن کا پھیلاؤ ہوتا جارہا ہے۔ اگر آزادی کے فوراً بعد سے ہندوستانی ریاست گاندھی کے ’گرام-سوراج‘ اور ’آتم نربھر گاؤں‘ کے تصور پر کام کرتا تو ہندوستانی معاشرہ کی ترقی اس سمت میں ہوتی، جہاں مہلک انفیکشن سے آزاد ہندوستانی گاؤں بن پاتا۔
آج اپنوں کو کھونے کا جو رونا گاوؤں میں سنائی دے رہا ہے، اس میں کہیں نہ کہیں مہاتماگاندھی کا بھی دکھ شامل ہے۔ اس میں ایک آہ پوشیدہ ہے کہ کاش! ہندوستان میں ایسا گرام سوراج بن پاتا، جو نسل پرستانہ تشدد، چھواچھوت اور جدیدیت کی متعدد برائیوں اور انفیکشن سے آزاد بیس ایریا کی طرح ڈیولپ ہوپاتا۔ آج جب کورونا گاؤں گاؤں تک پھیل رہا ہے، تب ہمیں اپنی ترقی سے متعلق خوداحتسابی میں مہاتماگاندھی کے اس اہم نقطہ نظر کو یاد کرنا ہی چاہیے۔
(مضمون نگار جی بی پنت سوشل سائنس انسٹی ٹیوٹ کے ڈائریکٹر ہیں۔)
(بشکریہ: ہندوستان)

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS