بچانا ہوگا چھوٹی ندیوں کو

0

وینکٹیش دتّا

ہمیں اپنے گاوؤں اور قصبات کی تال-تلیاں اور چھوٹی ندیوں کی یاد ہوگی، جو کبھی شفاف پانی کا بڑا ماخذ ہوا کرتی تھیں۔ لیکن آہستہ آہستہ اب یہ سرکاری چھوٹی ندیاں اور تالاب محصول کے دستاویزات(Revenue documents) سے غائب ہورہے ہیں۔ جو تالاب، پوکھر بچے بھی ہیں تو ان کی حالت قابل رحم ہی ہے۔ سوال ہے کہ آخر ایسا کیا ہوا جس سے پانی کے تحفظ کے یہ ذرائع ختم ہوتے چلے گئے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ غیرمنصوبہ بند ترقی کا ندیوں کی زندگی پر سنگین اثر پڑا ہے۔ اسے افسوسناک ہی کہا جائے گا کہ کئی ندیاں تو اب سیویج بہانے والی نہروں میں تبدیل ہوگئی ہیں۔
جیسے جیسے آبادی میں اضافہ ہورہا ہے، پینے کے پانی اور سینچائی کے پانی کا بحران بھی سنگین ہوتا جارہا ہے۔ سیکڑوں چھوٹی ندیاں مل کر ایک یونٹ بناتی ہیں۔ چھوٹی ندیاں اور ان کے ساتھ منسلک جھیلیں، گیلی زمین اور تالابوں کی زنجیر ندیوں کو زندہ رکھتی ہے۔ ندیوں کا آپس میں جڑا یہ ماحولیاتی نظام اتنا ہی اہم ہے جتنا ندیوں کا مسلسل بہنا۔ چھوٹی ندیاں مانسونی بارش اور زمینی پانی پر منحصر ہوتی ہیں۔ اگر لمبے وقفہ تک قحط رہتا ہے یا زمینی پانی کی سطح میں تیزی سے کمی آتی ہے تو سب سے پہلے چھوٹی ندیاں خشک ہوجاتی ہیں۔ خطرہ یہ ہے کہ گنگا بیسن میں ناپیدہوتی چھوٹی ندیاں اور نظرانداز کیے جارہے ہزاروں تالاب بڑے خطرے کا اشارہ دے رہے ہیں۔ مستقبل کی فوڈ سکیورٹی پر بھی اس کا گہرا اثر پڑے گا۔ گزشتہ تین دہائیوں میں بارہ مہینے بہنے والی ندیاں اب بکھری ہوئی اور رک رک کر بہنے والی موسمی ندیاں بن رہی ہیں۔ ہندوستان کی میدانی ندیاں جیسے گومتی، رام گنگا، چنبل، کین، بیتوا کے بہاؤ کا واحد بنیادی ماخذ زیرزمین پانی اور بارش کا پانی ہے۔

ندی سے پانی لینے کی سائنس کو ہم بخوبی جانتے ہیں لیکن ندی میں واپس پانی لانے کا علم ادھورا ہے۔ ندی کے پورے واٹر شیڈ مینجمنٹ کا علم اہم ہے۔ علاقہ میں واٹرشیڈ مینجمنٹ کی سمجھ اس کے تاریخی نقشوں کے ساتھ ہونی چاہیے۔ چھوٹی ندیوں، تالابوں اور جھیلوں کو ریونیوڈاکیومینٹس میں درست کرنا ہوگا، تاکہ اس پر کوئی تجاوزات نہ ہوں۔ پانی کے ماخذ کی حیات نو کے لیے ہمیں پرانے تالابوں کو نئی زندگی دینی ہوگی۔

گنگا کو ہم تب تک بلاتعطل اور صاف ستھرا نہیں بناپائیں گے، جب تک اس کی سبھی معاون ندیوں کے تحفظ کے لیے کوئی بڑی مہم نہیں چلائی جاتی۔ اس مہم کی ضرورت آج اس لیے بھی زیادہ ہے، کیوں کہ کئی چھوٹی ندیاں، تالاب، پوکھر اور قدرتی پانی کے ماخذ تقریباً ختم ہوتے جارہے ہیں۔ گنگا ندی کو بلاتعطل اور صاف ستھرا بنانے کے لیے مناسب بہاؤ اور پانی کی کوالٹی کے ساتھ تسلسل ضروری ہے۔ اس میں معاون ندیوں کا بھی ہمیشہ بہنا ضروری ہے۔ گیلی زمین والے سکڑتے علاقے، تالاب اور جھیلیں اب ندیوں سے نہیں ملتی ہیں۔ ندی کے تحفظ کی ہماری کوششیں بڑی اور بارہ مہینے بہنے والی ندیوں پر ہی مرکوز رہی ہیں۔ جب کہ چھوٹی ندیاں آلودگی اور نظراندازی کی شکار ہیں۔ انہیں کسی بڑے تحفظ منصوبہ(Conservation plan) میں شامل نہیں کیا گیا ہے۔ دیگر زیربحث ایشوز کے آگے چھوٹی ندیوں کے سوال نمایاں طور پر سامنے نہیں آپاتے ہیں۔
آب و ہوا کی تبدیلی، زمین کے استعمال میں تبدیلی اور ضرورت سے زیادہ پانی کے ضیاع کے سبب بارہ مہینے بہنے والی ندیاں اب موسمی ندیاں بنتی جارہی ہیں، خاص طور پر وہ چھوٹی ندیاں جو زیرزمین پانی اور جھرنوں پر انحصار کرتی تھیں۔ دراصل ندیوں میں پانی کا تسلسل زیرزمین پانی سے ہی رہتا ہے۔ جہاں زیرزمین پانی کی سطح بہتر ہے، وہاں ندیاں بھی بہتی رہتی ہیں۔ تالاب اور زیرزمین پانی کا راست رشتہ ہے۔ جہاں بہت سارے پانی کے ذخائر، پوکھر یا تالاب ہوتے ہیں، وہاں زیرزمین پانی کی سطح بھی ٹھیک رہتی ہے۔ قدرتی نالوں اور تالابوں سے زیرزمین پانی کے ماخذ میں پانی جاتا رہتا ہے اور یہی پانی ہماری ندیوں میں بہاؤ پیدا کرتا ہے۔
70کی دہائی میں پمپوں سے سینچائی انقلاب کی شروعات ہوئی تھی۔ اسی کے ساتھ زیرزمین پانی کے استحصال کا سلسلہ شروع ہوا۔ اس کی وجہ سے درمیانی اور نچلی گنگا بیسن میں پانی کا بہاؤ تقریباً 60فیصد کم ہوگیا۔ یہ اچھا اشارہ نہیں ہے، کیوں کہ بارہ مہینے بہنے والی ندیوں کا بنیادی بہاؤ زیرزمین پانی کے نظام پر بہت زیادہ انحصار کرتا ہے۔ زیرزمین پانی ہماری 85فیصد زرعی، گھریلو اور صنعتی ضرورتوں کو پورا کرتا ہے۔ ملک کے آدھے سے زیادہ علاقوں میں پانی کی سطح تیزی سے نیچے گرتی جارہی ہے۔ گنگا کی کئی معاون ندیاں ہیں جن میں گزشتہ 50برسوں میں بہاؤ میں 30سے 60فیصد کی کمی آئی ہے۔ اس کے اہم اسباب میں سے ایک زیرزمین پانی کی سطح میں کمی اور بہاؤ میں کمی آنا ہے۔ یہ سمجھنا اہم ہے کہ سبھی ندیوں کی بنیاد-بہاؤ کو قائم رکھنے میں زیرزمین پانی کا بڑا تعاون ہے۔ زیرزمین پانی کی مسلسل کمی یقینی طور سے گنگا میں پانی کی مقدار اور بہاؤ کم کرنے میں تعاون دے رہی ہے۔ گنگا سے ملحق علاقوں میں زیرزمین پانی کے ذخائر میں بھی تقریباً 30سے 40سینٹی میٹر تک کی کمی آئی ہے۔ ندی کے بہاؤ پر زیرزمین پانی کی سطح میں کمی کا اثر گنگا کی کئی دیگر معاون ندیوں پر دیکھا جاسکتا ہے، جنہیں برف کے پگھلنے سے کوئی پانی نہیں مل رہا ہے۔
کئی چھوٹی بڑی معاون ندیوں کا پانی گنگا ندی میں مل کر اس کے بہاؤ کو بڑھاتا ہے۔ صحت مند آبی سینٹر(Healthy aquatic habitat) کو قائم رکھنے کے لیے بہاؤ ضروری ہے۔ 60کی دہائی کے سیکنڈ ہاف میں دہلی میں جمنا ندی میں بڑی تعداد میں کچھوئے ہوتے تھے اور انہیں آسانی سے ساحلوں/کناروں پر دیکھا جاسکتا تھا۔ اب ندی حیاتیاتی طور پر مردہ ہے۔ کچھوئے غائب ہوگئے ہیں۔ زہریلے فضلہ میں مچھلیوں کا زندہ رہنا مشکل ہے۔ اترپردیش میں بہنے والی گومتی ندی اپنے اوپری اور درمیانی حصوں میں رک رک کر بہنے والی لہر ہوگئی ہے۔ کبھی یہ ایک بارہ مہینے بہنے والی ندی ہوا کرتی تھی۔ اب گرمیوں کے مہینوں میں کئی حصوں میں خشک ہوجاتی ہے۔ پہلی مرتبہ ندی کے نکلنے کے مقام سے تقریباً 100کلومیٹر تک کا حصہ چھوٹے چھوٹے حصوں میں خشک ہوگیا ہے۔ یہاں تک کہ اس میں ملنے والی 27معاون ندیوں میں سے 24ندیاں خشک ہوچکی ہیں۔
مچھلیاں آلودگی کے تئیں بہت حساس ہوتی ہیں۔ جب ندیاں خشک ہوجاتی ہیں یا الگ الگ تالوں میں تقسیم ہوجاتی ہیں تو مچھلیوں، کچھوؤں جیسے آبی حیاتیات کے سامنے اپنے وجود کو بچانے کا بحران کھڑا ہوجاتا ہے۔ ندیوں کے خشک ہوجانے پر مچھلیاں، مینڈھک، پرندے اور کچھوئے سب سے زیادہ جدوجہد کرتے ہیں۔ ہم بجلی کے پمپ سے زمین کے اندر کا پانی نکال سکتے ہیں اور اپنی پیاس بجھاسکتے ہیں لیکن یہ حیوان اپنے وجود کو برقرار رکھنے کے لیے کہاں جائیں گے، اس بارے میں کوئی نہیں سوچتا۔ آج مچھلیوں کی کئی نسلیں خطرے میں ہیں، خاص طور پر ان ندیوں میں جہاں سینچائی اور پانی کی سپلائی کے لیے ضرورت سے زیادہ پانی نکالا جارہا ہے اور ساتھ ہی شہروں کا گندا پانی اس میں ملادیا جاتا ہے۔ کبھی ہماری بارہ مہینے بہنے والی ندیاں متنوع دیسی قسم کی مچھلیوں کو پناہ دیتی تھیں، ان میں سے کئی کی تو معاشی اہمیت بھی تھی۔ لیکن پانی کے استحصال اور آلودگی کے سبب ان کی آبادی کو زبردست نقصان پہنچا۔ پوری دنیا کے مطالعات نے یہ ثابت کیا ہے کہ قدرتی اور مسلسل بہنے والی لہروں میں مچھلیوں اور دیگر آبی حیاتیات کی تنوع برقرار رہتی ہے۔ بارہ مہینے بہنے والی ندیوں میں آبی آبادی زیادہ مستحکم ہوتی ہے، جب کہ منقسم اور بنائی ہوئی لہریں اپنے آبی جانوروں کو کھونا شروع کردیتی ہیں۔
ندی سے پانی لینے کی سائنس کو ہم بخوبی جانتے ہیں لیکن ندی میں واپس پانی لانے کا علم ادھورا ہے۔ ندی کے پورے واٹر شیڈ مینجمنٹ کا علم اہم ہے۔ علاقہ میں واٹرشیڈ مینجمنٹ کی سمجھ اس کے تاریخی نقشوں کے ساتھ ہونی چاہیے۔ چھوٹی ندیوں، تالابوں اور جھیلوں کو ریونیوڈاکیومینٹس میں درست کرنا ہوگا، تاکہ اس پر کوئی تجاوزات نہ ہوں۔ پانی کے ماخذ کی حیات نو کے لیے ہمیں پرانے تالابوں کو نئی زندگی دینی ہوگی۔ چھوٹی بڑی ندیوں کی زمین کو واپس لوٹانا ہوگا۔ قدرتی پانی کے ماخذ پر ہوئے قبضے اور تجاوزات ہٹانے کے لیے پالیسی فریم ورک کو اور مضبوط کرنا ہوگا۔ ایک ندی میں کم سے کم ماحولیاتی بہاؤ ہونا چاہیے۔ اتنا پانی رہے کہ زمین میں بھی پانی پہنچتا رہے اور آبی حیاتیات کی دنیا بھی بچی رہے۔
(بشکریہ: جن ستّا)

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS