صبیح احمد
الیکشن کمیشن آف انڈیا پرمدراس ہائی کورٹ کے حالیہ تبصرے نے جہاں ایک طرف ملک میں حکومت سازی کے لیے انتخابات کرانے میں اہم کردار ادا کرنے والے اس آئینی ادارہ کی معتبریت پر سوال کھڑے کر دیے ہیں، وہیںانتخابی اصلاحات کی ضرورت کابھی شدت سے احساس دلایا ہے۔ الیکشن کمیشن ایک آئینی ادارہ ہے۔ اس کا کام ہر 5 سال بعد یا حسب ضرورت عوامی نمائندے چننے کے لیے غیر جانبدارانہ طریقے سے الیکشن کرانا ہے۔ گزشتہ 70 برسوں سے اس آئینی ادارہ نے کم و بیش اپنی ذمہ داریاں بخوبی انجام دی ہیں لیکن پچھلے کچھ سالوں میں اس کی غیر جانبداری پر مسلسل سوال اٹھائے جا تے رہے ہیں اور طرح طرح کے الزامات بھی لگائے جاتے رہے ہیں۔ ان الزامات پر تصدیق کی مہر ابھی حال ہی میں مدراس ہائی کورٹ کی بنچ نے بھی لگا دی ہے۔
ہندوستان دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہے۔ جمہوری نظام حکومت میں انتخابات سیاست کے سب سے لازمی اور اہم حصہ ہوتے ہیں۔ جمہوریت صحیح طریقے سے اسی وقت تک کام کرسکتی ہے جب اختیارات والے عہدوں کے لیے لوگوں کا انتخاب آزادانہ اور شفاف طریقے سے ہو۔ عام طورپر یہ تسلیم کیا جاتا ہے کہ ہندوستان میں پہلے 3 عام انتخابات آزادانہ اور شفاف طریقے سے ہوئے لیکن 1967 میں چوتھے عام انتخابات کے دوران معیار میں گراوٹ کا آغاز دیکھنے کو ملا۔ زیادہ تر لوگ انتخابی نظام کو ہی سیاسی بدعنوانی کی بنیاد مان رہے ہیں۔ کئی طرح کے ایشوز ہیں جو ہندوستان میں انتخابی عمل کو پراگندہ کیے ہوئے ہیں۔ ان میں پیسے کی طاقت، زور بازو، سیاست میں جرائم پیشہ افراد کا داخلہ، سرکاری مشینری کا غلط استعمال، ذات برادری کا استعمال، فرقہ واریت اور سیاست میں اخلاقی اقدار کی کمی اہم ہیں۔ ویسے تو انتخابی اصلاحات کی ضرورت کافی دنوں سے محسوس کی جاتی رہی ہے لیکن ابھی حالیہ دنوں میں یہ لازمی ہو گیا ہے کہ ملک کے انتخابی عمل میں اصلاح کی جائے۔ ہمارے آئین میں بھی انتخابی اصلاحات کی کافی گنجائش موجود ہے۔ آئین کے آرٹیکل 324 سے 329 تک انتخابات اور انتخابی اصلاحات سے متعلق ایشوز کے بارے میں ہیں۔ آرٹیکل 324 میں نگرانی ، ہدایت اور الیکشن پر کنٹرول سے متعلق الیکشن کمیشن کے اختیارات کے بارے میں کہا گیا ہے۔ آرٹیکل 325 میں کہا گیا ہے کہ کسی بھی شخص کو مذہب، ذات، نسل یا جنس کی بنیاد پر حق رائے دہی سے محروم نہیں کیا جاسکتا۔ انتخابی اصلاحات سے متعلق کئی کمیٹیاں بھی تشکیل دی جا چکی ہیں۔ 2014 میں جسٹس اے پی شاہ کی قیادت میں لاء کمیشن نے مجرمانہ پس منظر والے اور غلط حلف نامہ جمع کرنے والے امیدواروں کی نااہلی سے متعلق ایشوز کی جانچ پڑتال کی تھی۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب اصلاحات کی گنجائش موجود ہے تو اس سلسلے میں پیش قدمی کیوں نہیں کی جاتی؟ کون طبقہ یا لوگ ہیں جو اس میں رکاوٹ ڈال رہے ہیں؟
مغربی بنگال کے حالیہ اسمبلی الیکشن کے دوران الیکشن کمیشن کے کراد پر انتخابی حکمت عملی ساز پرشانت کشور نے بھی انگالی اٹھائی ہے۔ ان کے مطابق اگر الیکشن کمیشن غیر جانبداری سے کا م کرتا تو بی جے پی کی سیٹیں مزید کم ہوتیں۔ انہوں نے تمام سیاسی پارٹیوں سے انتخابی اصلاحات کے لیے متحد ہونے کی اپیل بھی کی ہے۔
بہرحال مدراس ہائی کورٹ کے حالیہ تبصرے سے ایک بار پھر انتخابی اصلاحات کی ضرورت شدت سے محسوس کی جانے لگی ہے۔ دراصل حال ہی میں ایک معاملے کی سماعت کرتے ہوئے مدراس ہائی کورٹ نے الیکشن کمیشن کو سخت پھٹکار لگائی اور ملک میں کووڈ19- کی دوسری لہر کے لیے اسے اکیلے ’ذمہ دار‘ قرار دیا۔ یہی نہیں عدالت نے اسے ’سب سے غیر ذمہ دار ادارہ‘ بھی بتایا۔ عدالت نے یہاں تک کہہ دیا کہ الیکشن کمیشن کے حکام کے خلاف قتل کے الزامات کے تحت معاملہ بھی درج کیا جا سکتا ہے۔ عدالت نے برجستہ کہا کہ الیکشن کمیشن نے سیاسی پارٹیوں کو ریلیاں اور جلسے کرنے کی اجازت دے کر وبا کو پھیلنے کا موقع دیا۔ عدالت سے سخت پھٹکار لگنے کے کچھ دنوں بعد الیکشن کمیشن کو ہوش آیا اور اس نے مدراس ہائی کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹا کر کہا کہ کووڈ 19- وبا کے درمیان الیکشن کرانے کو لے کر اس کے کردار پر ججوں کے زبانی تبصرے کو میڈیا میں رپورٹنگ کرنے سے روکا جائے لیکن عدالت نے کمیشن کی یہ پٹیشن خارج کردی۔ الیکشن کمیشن کے وکیل کی دلیل تھی کہ الیکشن کمیشن کے حکام کے خلاف قتل کے الزام لگانے اور کووڈ19- کے معاملوں میں اضافہ کے لیے صرف کمیشن کو ذمہ دار ٹھہرانے کے تبصرے سے اسے بہت نقصان ہوا ہے اور کمیشن کی شبیہ خراب ہوئی ہے۔ کمیشن نے ان تبصروں کو ’غیر ضروری اور توہین آمیز‘ بھی بتایا۔ لیکن ہائی کورٹ کی بنچ نے الیکشن کمیشن کے کردار کے سلسلے میں ججوں کے زبانی تبصرے کو الیکٹرانک و پرنٹ میڈیا کے شائع کرنے پر روک لگانے سے انکار کر دیا۔ ہائی کورٹ سے مایوس ہوکر الیکشن کمیشن نے سپریم کورٹ کا رخ کیا لیکن وہاں سے بھی فی الحال اسے کوئی راحت نہیں مل سکی ہے اور عدالت عظمیٰ نے اس معاملے پر اپنا فیصلہ محفوظ کرتے ہوئے الیکشن کمیشن کو ہائی کورٹ کے تبصرہ کو ’تلخ گھونٹ‘ سمجھ کر پی لینے کی تلقین کی ہے۔ سپریم کورٹ نے عدالتی کارروائیوں میں کیے گئے تبصروں کی رپورٹنگ سے میڈیا کو روکنے کی اپیل والی الیکشن کمیشن کی پٹیشن کو ’انتہائی غیر فطری‘ قرار دیا اور ہائی کورٹ کی حمایت میں کہا کہ وہ جمہوریت کے اہم ستون ہیں، اس لیے وہ ہائی کورٹس اور اس کا حوصلہ نہیں گرانا چاہتا۔ بنچ نے کہا کہ ’میڈیا کو جوابدہی طے کرنے کے لیے سب کچھ رپورٹ کرنے کا اہل ہونا چاہیے اور عدالت میں ہونے والے تبادلہ خیال مباحثہ کی بنیاد طے کرنے کے لیے ہوتے ہیں۔‘ عدالت نے واضح کیا کہ جمہوریت میں میڈیا اہم اور طاقتور پہرہ دار ہے اور اسے ہائی کورٹوں میں ہونے والے مباحثوں کی رپورٹنگ سے روکا نہیں جا سکتا ہے۔
عدالتی تبصروں سے ترغیب پا کر کئی سیاسی و دیگر حلقوں سے بھی انتخابی اصلاحات کی آوازیں اٹھنے لگی ہیں۔ مغربی بنگال کی وزیراعلیٰ ممتا بنرجی نے مدراس ہائی کورٹ کے اس تبصرے کا خیرمقدم کیا ہے۔ کانگریس کے سینئر لیڈر آنند شرما نے تو موجودہ الیکشن کمیشن کو تحلیل کرنے اور اس کے ارکان کے اقدامات کی جانچ کرنے تک کی بات کہہ دی ہے۔ اپنے مطالبہ کے حق میں انہوں نے یہ جواز پیش کیا ہے کہ الیکشن کمیشن نے ووٹروں کے اعتماد کے ساتھ مبینہ طور پر دھوکہ کیا ہے اور یہ کہ اس نے خود کو بھی داغدار کیا ہے۔ انہوں نے یہ مطالبہ بھی کیا ہے کہ سپریم کورٹ کی ایک آئینی بنچ کو چیف الیکشن کمشنر اور الیکشن کمشنروں کی تقرریوں کے لیے اہلیت کے بارے میں فیصلہ کرنا چاہیے۔ کانگریس کے سینئر لیڈر نے الزام لگایا کہ الیکشن کمیشن نے آرٹیکل 324 کے تحت ملنے والے اختیارات کی خلاف ورزی کی ہے۔ ان کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ ’مغربی بنگال میں اس کے اقدامات میں سرعام جانبداری دکھائی دینا حیرت میں ڈالنے والا اور قابل مذمت ہے۔ کئی بار وہ بی جے پی کے معاون کی طرح نظر آیا۔‘ مغربی بنگال کے حالیہ اسمبلی الیکشن کے دوران الیکشن کمیشن کے کردار پر انتخابی حکمت عملی ساز پرشانت کشور نے بھی انگالی اٹھائی ہے۔ ان کے مطابق اگر الیکشن کمیشن غیر جانبداری سے کا م کرتا تو بی جے پی کی سیٹیں مزید کم ہوتیں۔ انہوں نے تمام سیاسی پارٹیوں سے انتخابی اصلاحات کے لیے متحد ہونے کی اپیل بھی کی ہے۔ سابق الیکشن کمشنر آف انڈیا ٹی ایس کرشنا مورتی نے بھی طویل مدت سے زیر التوا انتخابی اصلاحات کی اپیل کرتے ہوئے انتخابی چندے کے موجودہ نظام کو غیر متوازن قراردیا ہے اور سب سے زیادہ ووٹ حاصل کرنے والے امیدوار کو فاتح قرار دینے کے نظام کی افادیت پر بھی انہوں نے سوال اٹھایا ہے۔
انتخابی اصلاحات میں آج کسی بھی سیاسی پارٹی کی دلچسپی نہیں ہے جو انتہائی قابل مذمت ہے۔ کوئی بھی سیاسی پارٹی یہاں تک کہ اپنے منشور میں بھی انتخابی اصلاحات کا ذکر کرنے میں دلچسپی نہیں لیتی۔ انتخابی چندہ نظام میں بھی تبدیلی کی ضرورت ہے۔ موجودہ نظام غیر متوازن ہے۔ یہ پوری طرح شفاف نہیں ہے۔ قومی انتخابی چندہ نظام ہونا چاہیے جس میں کمپنیاں اور لوگ اپنا حصہ دے سکیں۔ اسے پھر رجسٹرڈ اور منظور شدہ سیاسی پارٹیوں کے ساتھ مشورہ کر کے الیکشن کمیشن کے ذریعہ طے شدہ رہنما ہدایات کی بنیاد پر انتخابی اکائی کے ذریعہ استعمال کیا جا سکتا ہے جس سے کہ کوئی عام غریب آدمی بھی الیکشن میں کھڑا ہوسکے۔ موجودہ نظام میں کوئی غریب آدمی الیکشن میں کھڑا ہو کر کامیابی حاصل نہیں کرسکتا۔ سب سے زیادہ ووٹ پانے والے امیدوار کو فاتح قرار دینے کے نظام کو بدلنا چاہیے تاکہ صرف 20-25 فیصد ووٹ حاصل کرنے والا شخص منتخب نہ ہو۔
اس حوالے سے ایک تجویز یہ دی جاتی ہے کہ مثالی طور پر کسی امیدوار کو جیتنے کے لیے مجموعی پولنگ کا 50 فیصد ووٹ ملنا چاہیے، صرف تبھی وہ امیدوار صحیح طور پر اپنے انتخابی حلقہ کے لوگوں کی اکثریت کی نمائندگی کرسکتا ہے۔ لیکن اس حوالے سے کرشنا مورتی کا یہ کہنا بہت ہی معنی خیز ہے کہ ’اگر یہ عمل درآمد کے لائق نہیں ہے … مجھے یقین ہے کہ سیاسی پارٹیاں اس تجویز کو فوری طور پر قبول نہیں کریں گی تو پہلے قدم کے طور پر جیت کے لیے 33.33 فیصد ووٹ ملنا ضروری کیا جانا چاہیے۔‘
[email protected]