مفتی عبد المنعم فاروقی قاسمی
دنیا کے دیگر مذاہب دنیا کے بارے میں الگ الگ رائے رکھتے ہیں مگر اسلام دنیا کے متعلق یہ کہتا ہے کہ یہ دنیا عارضی اور فانی ہے اور یہاں کی ہر ایک چیز کو زوال ہے اور اس میں بسنے والوں کا قیام وقرار بھی مختصر اور بہت تھوڑا ہے ۔اس کے مقابلہ میں ایک اور دنیا ہے جسے آخرت کہا جاتا ہے ،وہ باقی اور طویل ہے اور وہاں کا زمانہ قیام بھی طویل اور لامحدود ہے ، پیغمبر آخر الزماں ؐنے ارشاد فرمایا’’دنیا میں اس طرح رہو جس طرح پردیسی یا راستہ چلتا مسافر رہتا ہے‘‘( صحیح بخاری)۔صحابی رسول عبداللہ بن عمر ؓ فرماتے ہیں کہ ایک دن رسول اللہ ؐ نے میرے دونوں مونڈھے پکڑ کر مذکورہ اہم ترین نصیحت ارشاد فرمائی ۔اس نصیحت کے ذریعہ گویا رسول اللہ ؐ نے ان کے واسطے سے قیامت تک اپنے ہر امتی کو بتایا کہ دنیا کو اپنا اصلی وطن نہیں سمجھنا چاہیے کہ اسی کے پیچھے پڑکر آخرت سے غافل ہوجائے بلکہ اس کی نظر دائمی اور ابدی دنیا یعنی آخرت پر ہونا چاہئے ،جو سمجھدار مسافر کی طرح دنیا سے گزر کر آخرت کی طرف جاتا ہے وہی آخرت اور اس کی ابدی نعمتوں کا حقدار ہوتا ہے ۔اسلام نے اس حقیقت کو سمجھانے کے بعد یہ بات بتائی کہ اپنی ضروریات کو ضرورت کی حد تک ہی محدود رکھے ،انسان کے لئے کفایت کرنے والی روزی ،تن ڈھاپنے کے لئے لباس ،برتنے کے لئے سامان اور سر چھپانے کے لئے بقدر ضرورت مکان کافی ہے،مکانات کی تعمیر وتزئین میں حد سے زیادہ پیسہ خرچ کرنا اسلام کی نظر میں محبوب عمل نہیں ہے ،رسول اللہ ؐ نے بلند وبالا عمارتوں کی کثرت کو قیامت کی علامتوں میں سے ایک قرار دیا ہے ۔مکانات اگر چہ انسانی ضروریات میں سے ایک اہم ضرورت ہے ،اس کے حصول کے لئے اور اس کی تعمیر وتوسیع کے لئے دوڑ دھوپ کرنا منافی شریعت نہیں ہے ۔ اہل علم فرماتے ہیں کہ مومن کو چاہئے کہ وہ تعمیر ات کے سلسلہ میں اور خصوصاً اپنی رہایش گاہوں کو تعمیر کرتے وقت چند باتوں کو ملحوظ رکھیں۔
یہ بات ہمیشہ ذہن میں رہنی چاہئے کہ اس کا اصل ٹھکانہ جنت ہے دنیا اور یہاں کا قیام تو عارضی اور چند روز کے لئے ہے ،چند روز کے قیام کے لئے شریعت کے حکم کو چھوڑ کر ،فکر آخرت سے بے پرواہ ہو کر مکانات کی تعمیر میں حد سے زیادہ اور بے تحاشہ روپیہ پیسہ خرچ کرنا ،راہ اعتدال سے ہٹ جانا ،خواہشات کے پیچھے پڑجانا اور اسی میں لگ کر اپنے اوقات ضائع کرنا کہاں کی عقلمندی ہے۔
(۱) مکان کی تعمیر اپنی ہی زمین پر ہو ،کسی دوسرے کی زمین یا متنازع زمین پر ہر گز تعمیر نہ کرے بلکہ کسی کی ایک بالشت زمین لینے سے بھی گریز کرے ، کسی کی ناحق زمین لینے پر رسول اللہ ؐ نے سخت قسم کی وعید سنائی ہے ، حضرت سعد بن زید ؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ؐ نے ارشاد فرمایا : جو کوئی کچھ زمین ظلم سے چھین لے تو سات زمینوں کا طوق (قیامت کے دن) اس کے گلے میں ڈالا جائے گا (بخاری: ۲۲۸۸)،(۲) مکان کی تعمیر کے لئے ایسے علاقہ کا انتخاب کرنا ضروری ہے جہاں کی آب وہوا صاف ستھری ،ماحول خوشگوار اور جہاں کی اخلاقی فضا ء عمدہ ہو ،کیونکہ یہ دونوں چیزیں جسم اور روح کی تندرستی کے لئے بے حد ضروری ہیں ،اسلام جہاں جسمانی صحت کی حفاظت کی تعلیم دیتا ہے وہیں اس سے زیادہ اخلاق کی پاکیز کی طرف بھی توجہ دلاتا ہے ۔(۳) مکان بنواتے وقت اس بات کا خیال بھی رکھے کہ وہ مسجد کے قرب وجوار میں ہو تا کہ جماعت سے فرض نماز وں کی ادائیگی میں سہولت ہو سکے،جس طرح آدمی کے لباس وپوشاک ،گفتگو وطرز کلام سے اس کے مزاج واخلاق کا پتہ چلتا ہے اسی طرح اس کے پابندی کے ساتھ مسجد آنے جانے اور مکان کو اس کے قریب بنوانے سے بھی اس کے دیندار ہونے کا پتہ چلتا ہے۔( ۴) مکان بنواتے وقت اس بات کا بہت ہی خاص خیال رکھنا ضروری ہے کہ اس کا پڑوسی کیسا ہے ،جب بھی مکان خریدیں یا تعمیر مکان کے لئے زمین کا انتخاب کریں تو اول وقت میں پڑوسی کے متعلق معلومات حاصل کریں ،اگر پڑوسی دیندار اور با اخلاق وکردار ہے تو گراں قیمت ہی کیوں نہ ہو اسی جگہ کا انتخاب کریں اور اگر پڑوسی کے بد اخلاق وبد کردار ہونے کا پتہ چلے تو وہاں سے ہٹ جائیں ،کیونکہ اچھا پڑوسی بھی اللہ تعالیٰ کی نعمتوں میں سے ایک عظیم نعمت ہے۔جس کا پڑوسی اچھا ہو تو وہ پڑوسی خوش قسمت ہے اور جس کا پڑوسی بد کردار ،ترش مزاج اور بد دین ہو اس کے پڑوسی کے لئے یہاں کا قیام جہنم سے کم نہیں ،رسول اللہ ؐنے اس شخص کو خوش نصیب کہا ہے کہ جس کا پڑوسی اچھا ہو۔ارشاد فرمایا: وہ شخص خوش نصیب ہے جس کو اچھا پڑوسی ملے ،کشادہ گھر ملے اور اچھی سواری نصیب ہو( مستدرک حاکم)۔
مکانات اور دیگر چیزوں کی تعمیرات کے سلسلہ میں ایک مومن کو شریعت کے مزاج کو سامنے رکھنا نہایت ضروری ہے ،یہ بات ہمیشہ ذہن میں رہنی چاہئے کہ اس کا اصل ٹھکانہ جنت ہے دنیا اور یہاں کا قیام تو عارضی اور چند روز کے لئے ہے ،چند روز کے قیام کے لئے شریعت کے حکم کو چھوڑ کر ،فکر آخرت سے بے پرواہ ہو کر مکانات کی تعمیر میں حد سے زیادہ اور بے تحاشہ روپیہ پیسہ خرچ کرنا ،راہ اعتدال سے ہٹ جانا ،خواہشات کے پیچھے پڑجانا اور اسی میں لگ کر اپنے اوقات ضائع کرنا کہاں کی عقلمندی ہے۔ ایک حدیث میں تو آپ ؐ نے یہاں تک ارشاد فرمایا ’’ مسلمان کو ہر خرچ کے عوض اجر دیا جاتا ہے سوائے اس مٹی کے‘‘ (مشکوٰۃ: ۵۱۸۲) ۔ n