چیتن بھگت
میں نے یہ مضمون نوراتری کے سات دن اپواس رکھنے کے بعد تحریر کیا ہے۔ میں 30برسوں سے سال میں دو مرتبہ ایسا کررہا ہوں۔ مجھے اپنے مذہب پر فخر ہے۔ میں اس سے پیار کرتا ہوں۔ حالاں کہ کبھی کبھی پیار کا مطلب ہوتا ہے ایسی چیزیں بتانا جنہیں تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ کورونا وبا پر ہمارے ردعمل سے ایسی بات سامنے آئی ہے جو ہماری کمیونٹی کے لیے مہلک ہے۔ غیرسائنسی ہندوؤں کی بڑی تعداد۔ انہی کے سبب ہندوستان برصغیر پر صدیوں غیرملکیوں کی حکومت رہی اور اب کورونا سے ریکارڈ اموات ہورہی ہیں، جب کہ چین و امریکہ وبا کو پیچھے چھوڑ معاشی ترقی کی جانب بڑھ رہے ہیں۔
اس سے پہلے کہ کوئی اوپر لکھے الفاظ کو توڑمروڑ کر پیش کرے، یہ واضح کردوں کہ میرا مطلب یہ نہیں ہے کہ (الف)سبھی ہندو غیرسائنسی ہیں یا (ب)باقی مذہب کے لوگ غیرسائنسی نہیں ہیں یا (پ)ہندو مذہب زیادہ غیرسائنسی ہے۔ نہیں، میرا مطلب یہ قطعی نہیں ہے۔ کئی غیرسائنسی مسلم اور عیسائی بھی ہیں۔ اور سبھی مذہب غیرسائنسی عقائد سے بھرے ہیں۔ حالاں کہ ہندوستان میں ہندو مذہب متاثرکن ہے۔ اسی لیے ہمارے ملک کی قسمت راست طور پر ہندو آبادی سے جڑی ہے۔ ساتھ ہی، بطور ہندو مجھے لگتا ہے کہ سب سے پہلے میں خود اپنی کمیونٹی پر غوروخوض کروں۔
میں اپنے مذہب اور گرنتھوں کا احترام کرتا ہوں۔ حالاں کہ سائنسی تجربہ گاہوں (Scientific laboratories) میں بنی ویکسین ہی آج انسانی نسل کو بچا سکتی ہے۔ اس سے سائنس، مذہب سے اوپر نہیں ہوجاتی۔ حالاں کہ یہ ضرور بتاتی ہے کہ عقیدہ اور سائنس دونوں کی اپنی اپنی جگہ ہے۔ عقیدہ یا کسی کی تاریخ میں مصنوعی سائنس کو ملانا، مذہب اور ثقافت کو سب سے اوپر بتانا پوری طرح غیرسائنسی ہے۔ اس سے آج کے مسائل حل نہیں ہوں گے۔
دنیا کے مشہورنوبل انعام یافتہ سے لے کر لاکھوں ہندوؤں کی سائنسی ذہنیت ہے۔ بدقسمتی سے کئی غیرسائنسی ہندو بھی ہیں جو ملک پر حاوی ہونے کے لیے کافی ہیں۔ اس سے بھی برا یہ ہے کہ کچھ نقلی سائنس کو اپنے غیرسائنسی عقائد میں ملاکر سائنس ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں۔ اس سائنس مخالف یا مصنوعی سائنسی رویہ کی ہم نے بہت قیمت چکائی ہے۔ تاریخی طور پر حملہ آوروں اور نوآبادیات نے ہمیں لوٹا اور حکومت کی کیوں کہ زیادہ تر کے پاس بہتر تکنیک تھی۔ موجودہ وقت میں چین جیسے ملک ہم سے آگے نکل گئے۔
سائنسی ذہنیت کیا ہے؟ جواب میں کچھ ہندو گرنتھوں کی موروثی عظمت بتائیں گے، جن میں سائنس پوشیدہ ہے۔ کچھ کہیں گے کہ ہندوستان میں اتنی سائنس تھی کہ ہم نے اعشاریہ نظام (Decimal system) کی کھوج کی یا ہمارے متھکوں(خیالی کہانیاں) میں اڑنے والی مشینوں، جدید ہتھیاروں کا ذکر ہے۔ اسی لیے ہم سائنسی سوچ والے ہیں۔ بدقسمتی سے ہماری تاریخ یا متھکوں کے ’اتی مہیمامنڈن‘ سے ہم سائنسی سوچ والے نہیں ہوجاتے۔ حقیقت میں اس کے برعکس ہوتا ہے۔
ایک سائنسی سوچ یہ قبول کرتی ہے کہ ہم سب نہیں جانتے۔ ابھی بہت کچھ تلاش کرنا باقی ہے، جس کی بنیاد پر ہم اپنے یقین میں تبدیلی کرتے رہیں گے۔ مثال کے لیے جب کووڈ آیا تو ہم وائرس کو نہیں سمجھتے تھے۔ پھر مشاہدہ، پیمائش، جانچ اور کھوج سے اسے بہتر ڈھنگ سے سمجھا اور ویکسین بنائی۔ وقت کے ساتھ کچھ نیا علم ہوگا تو اور حل نکلے گا۔ سائنسی ذہن نئے جواب تلاش کرتا رہتا ہے۔ اس کے برعکس غیرسائنسی ذہن سمجھتا ہے کہ ہمیں جس علم کی ضرورت ہے، وہ ہمارے عظیم ماضی میں تلاش کیا جاچکا ہے۔ اگر ہم صرف اپنے شاستروں کے مطابق چلیں، فخریہ تاریخ کی مانتے رہیں، عظیم آباو اجداد کے اعتماد پر سوال نہیں اٹھائیں اور اپنی عقیدت قائم رکھیں تو ہمیں زبردست ترقی حاصل ہوگی۔
وہ ہمارا کھانا پینا، معیشت، دوائیں، تعلیم، جینے کا طریقہ ہو یا پھر گورننس، کئی غیرسائنسی ہندو مانتے ہیں کہ ہمارے ماضی میں سارے جواب ہیں۔ ہم اس بے بنیاد دعوے کو تسلیم بھی کرلیں تو سوال اٹھتا ہے کہ پھر کیا ہوا؟ ہم کہاں بھٹک گئے؟ سائنسی سوچ کا مطلب ہوتا ہے نئے جواب تلاش کرکے وقت کے ساتھ بدلنا، نہ کہ ماضی کے علوم سے چپکے رہنا۔ المیہ ہے کہ ہم بچوں کو اسکول میں سائنس پڑھاتے ہیں، لیکن سائنسی سوچ کو نافذ کرنا نہیں چاہتے۔
کورونا کی دوسری لہر کے باوجود لاکھوں لوگوں نے کنبھ میں ڈبکی لگائی۔ پوری دنیا ہم پر ہنسی کیوں کہ جب لاکھوں کیس آرہے تھے، تبھی لاکھوں لوگ ندی کے کناروں پر تھے۔ ہم نے تبلیغی جماعت پر تو بڑے جلدی الزامات لگائے تھے، لیکن ہم اپنے اندر کب جھانکیں گے؟ معاملے فروری سے بڑھ رہے تھے، لیکن اپریل کے آخر میں سبھی کے لیے ٹیکہ کاری اسکیم پر سنجیدگی نظر آئی۔
میں اپنے مذہب اور گرنتھوں کا احترام کرتا ہوں۔ حالاں کہ سائنسی تجربہ گاہوں (Scientific laboratories) میں بنی ویکسین ہی آج انسانی نسل کو بچا سکتی ہے۔ اس سے سائنس، مذہب سے اوپر نہیں ہوجاتی۔ حالاں کہ یہ ضرور بتاتی ہے کہ عقیدہ اور سائنس دونوں کی اپنی اپنی جگہ ہے۔ عقیدہ یا کسی کی تاریخ میں مصنوعی سائنس کو ملانا، مذہب اور ثقافت کو سب سے اوپر بتانا پوری طرح غیرسائنسی ہے۔ اس سے آج کے مسائل حل نہیں ہوں گے۔ جو تصوراتی ماضی میں جیتے ہیں، وہ ناکارہ ہوجاتے ہیں جب کہ ترقی انہیں ملتی ہے جو مستقبل میں جیتے ہیں۔
اپنے مذہب سے پیار کریں۔ روایتوں کا احترام کریں۔ حالاں کہ سائنسی سوچ رکھیں۔ نئی دریافتوں کے تئیں تجسس رکھیں اور ان کے سبب تبدیل کرنے کی خواہش رکھیں۔ صرف یہی ہندوستان کے لیے سنہری دور کو واپس لائے گا۔
(بشکریہ: دینک بھاسکر)
[email protected]