دہکتے جنگل، دھوئیں میں اڑتے سوال

0

ابھیشیک کمار سنگھ

اتراکھنڈ کے جنگل ایک بار پھر دہک اٹھے ہیں۔ ہر سال وسط فروری سے وسط جون کے چار ماہ کے اندر جنگلی حیوانات/چرندوپرند، ماحولیات اور مکمل حیاتیاتی تنوع کو بحران میں ڈالنے والے واقعات تمام کوششوں کے بعد بھی تھمتے نظر نہیں آتے۔ اتراکھنڈ میں گزشتہ برس اکتوبر سے لے کر حال تک جنگل میں آگ لگنے کے تقریباً 650 معاملات درج ہوچکے ہیں۔ یہ اعدادوشمار محکمہ جنگلات کے ہیں جو ثابت کرتے ہیں کہ تقریباً ڈیڑھ ہزار ہیکٹیئر جنگلاتی علاقہ جنگل کی آگ سے متاثر ہوچکاہے۔ حالات کی سنجیدگی کو دیکھتے ہوئے اس معاملہ میں اتراکھنڈ ہائی کورٹ نے ریاستی حکومت سے مصنوعی بارش کی تکنیک کا سہارا لینے کے امکانات پر غور کرنے کو کہا ہے۔ سوال ہے کہ اگر یہ سالانہ خطرہ ہے تو اس آفت کو روکنے کے لیے ٹھوس قدم کیوں نہیں اٹھائے جارہے ہیں۔کیا جنگل کی آگ روکنے والے وسائل کم ہیں، لاپروائی ہے یا آگ بھڑکنے یا بھڑکانے کی جبراً کوششوں کا زور اتنا ہے کہ کسی کا اس پر کنٹرول نہیں۔
جن کی یادداشت میں گزشتہ سال امیزن کے جنگلوں میں لگی آگ کے خوفناک مناظر ابھی تک زندہ ہیں، وہ بتاسکتے ہیں جنگل کی آگ بھڑکتی بھلے ہی ایک معمولی چنگاری سے ہے لیکن اس کے بجھنے تک ہونے والا نقصان معمولی نہیں ہوتا۔ جیسے اتراکھنڈ کے جنگلوں میں آگ کی بات کریں تو محکمہ جنگلات دعوے کے ساتھ کہتا ہے کہ یہ آگ انسانی سرگرمیوں کا نتیجہ ہے، یعنی اسے وہاں کے لوگ ہی لگاتے ہیں۔ تو سوال یہ ہے کہ وہ چاہے جس وجہ سے بھی آگ لگارہے ہیں، کیا انہیں سمجھاکر اس آگ کو ہمیشہ کے لیے بجھایا نہیں جاسکتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ قدرت کو اگر چلتے رہنا ہے تو آگ ضروری ہے۔ خاص طور سے جنگل کی آگ کے بارے میں یہی کہا جاتا ہے کہ ایک سالانہ انعقاد کے تحت لگنے یا لگائی جانے والی آگ نئی تخلیق کا راستہ کھولتی ہے۔ ایسا صدیوں سے ہوتا آیا ہے اور آگے بھی ہوتا رہے گا۔ لیکن مسئلہ تب ہے جب یہ آگ بے قابو ہوجائے اور چرند و پرند نزدیکی آباد انسانی آبادی کے لیے آفت بن جائے، اس سبب پیدا ہوئے دھویں کی وجہ سے آنا جانا مشکل ہونے لگے اور جنگل کی بیش قیمتی عمارتی لکڑیاں جل کر خاک ہوجائیں۔

مـاہـرین جـنـگل کـی آگ بـجـھـانــے کـے تـیـن طـریـقـے بـتـاتـے ہـیـں۔ پہلا مشـیـنـوں سـے جـنـگلوں کــی مستقل صفائی ہو اور چیڑ وغیرہ کـی پـتـیـوں کـو وقت رہتـے ہـٹـایـا جائـے۔ لیکن یـہ بـے حـد مہنگا متبادل ہـے۔ دوسـرا، وہـاں آگ پـر قابو پانـے کـے طـریقہ سـے آگ لگائـی جـائـے۔ جـنـوبـی افـریـقـہ اور جنوبی امریکہ کے کئی ممالک میں یہی کیا جارہا ہے۔ لیکن اس کے لیے بھی کافی وسائل چاہئیں۔ تیسرا متبادل یہ ہے کہ پہاڑی عـلاقـوں میں نقل مکانی روک کر جنگلوں پر منحصر نظام کو بڑھاوا دیا جائے، جس سے جنگلوں کی صاف صفائی ہوگی اور آگ کے خطرے کم ہوں گے۔

اس سال اتراکھنڈ میں صدیوں کے دوران 65فیصد تک بارش کم رہی۔ اس کی وجہ سے جنگل اس نمی سے محروم رہ گئے جو آگ بھڑکنے سے روکنے میں مددگار ہوتی ہے۔ نمی کی کمی یا کہیں کہ سوکھے کی وجہ سے، مارچ میں ہی یہاں کے جنگلوں میں آگ پیدا ہونے لائق خشکی ہوگئی۔ اتراکھنڈ کے کئی علاقوں سے اپریل کے شروعاتی ہفتہ میں ہی آگ کی خوفزدہ کرنے والی تصاویر آنے لگیں۔ ان تصویروں کو دیکھ کر لگ رہا ہے کہ وہاں آگ پر قابو پانا آسان نہیں ہے۔ اس آگ سے صرف جنگل ہی سواہا(خاک) نہیں ہورہے، بلکہ اس سے پیدا ہونے والی دھند اور دھویں سے آمدورفت بھی متاثر ہورہی ہے۔ یہ آگ محض جنگل تک محدود نہیں رہتی، بلکہ رہائشی علاقوں اور عوام کے استعمال کی عمارتوں-املاکوں تک بھی پہنچ جاتی ہے۔ جموں و کشمیر میں ویشنودیوی کے راستہ ترکٹا کے جنگلوں میں لگی آگ نے عقیدت مندوں کا راستہ روک دیا تھا۔ 2018میں ہی ناسا کی سیٹیلائٹ کی تصویروں کے ذریعہ بتایا گیا تھا کہ اترپردیش، مدھیہ پردیش، مہاراشٹر، چھتیس گڑھ، اتراکھنڈ، ہماچل اور جموںو کشمیر کے علاوہ جنوبی ریاستوں میں آگ سے 6ہزار ہیکٹیئر جنگل کا علاقہ خاک ہوگیا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ اتراکھنڈ ہائی کورٹ نے ریاست کے جنگلوں میں دہک رہی آگ پر قابو پانے کے لیے مصنوعی بارش کا سہارا لینے کے امکانات تلاش کرنے کے لیے کہا ہے۔
جنگلاتی علاقوں میں لگی آگ بجھانا آسان نہیں ہوتا، کیوں کہ اس سے پیدا ہونے والے دھوئیں کی وجہ سے مرئیت بے حد کم ہوجاتی ہے۔ اس لیے ہیلی کاپٹروں کے ذریعہ بڑی بالٹیوں سے پانی لاکر اسے بجھانے کی کوشش کرنا بے حد خطرے والا کام بن جاتا ہے۔ ویسے تو ایسی ہر جگہ جہاں مانسون اور سردیوں میں بارش ہوتی ہے اور گرمیوں میں خشک موسم رہتا ہے، وہاں آگ لگتی رہتی ہے۔ گرمیوں میں جھاڑیاں اور گھاس پھوس سوکھ کر آگ کے خطرے میں اضافہ کردیتی ہیں۔ قدرتی طورپر جنگلوں میں لگنے والی آگ وہاں موجود پیڑپودوں سے ہی ختم ہوجاتی ہے۔ کہیں درختوں کی موٹی چھال بچاؤ کا کام کرتی ہے تو کہیں آگ کے بعد جنگل کو پھر سے پھلنے پھولنے کا موقع مل جاتا ہے۔ افریقہ کے سوانا جیسے گھاس کے میدانوں میں بار بار آگ لگتی رہتی ہے۔ لیکن گھاس پھوس جلدی جلنے سے آگ کا اثر زمین کے اندر، گھاس پھوس کی جڑوں تک نہیں پہنچتا۔ یہی وجہ ہے کہ آگ ختم ہوتے ہی گھاس کے میدان پھر سے ہرے ہوجاتے ہیں۔ اگر گھاس پھوس میں آگ نہیں لگے گی تو اس کے بڑے بڑے ڈھیر آگے چل کر بڑے بارود کا کام کریں گے۔
اتراکھنڈ، ہماچل اور جموں و کشمیر کے جنگلوں کی آگ کے پیچھے کچھ ایسی ہی وجوہات ہیں۔ یہاں کے جنگلوں میں چیڑ کی وافر تعداد ہے۔ جب چیڑ کی پتیوں کے ڈھیر زیادہ لگ جاتے ہیں تو جنگلوں میں چھوٹی سی چنگاری بہت بڑی آگ کی شکل اختیار کرلیتی ہے۔ 2016میں اتراکھنڈ کے جنگلوں میں لگی آگ کے پیچھے یہی حقیقت تھی کہ وہاں تقریباً 3کروڑ ٹن چیڑ کی سوکھی پتیاں جمع ہوگئی تھیں۔ اتراکھنڈ کے کل جغرافیائی علاقہ کا 66فیصد حصہ جنگل ہے۔ اس کے 23فیصد میں جھاڑیاں یا گھاس پھیلی ہیں تو 43فیصد رقبہ میں اونچے پیڑوں والے جنگلوں کا احاطہ ہے۔ ان جنگلوں میں سے 18فیصد میں چیڑ کے ہی جنگل ہیں جو تیزی سے پھیل رہے ہیں۔ چیڑ کی ایک اور خاصیت ہے کہ یہ اپنے آس پاس چوڑی پتیوں والے درختوں کو پنپنے نہیں دیتا۔ پہلے ان پہاڑی علاقوں کے دیہی علاقوں میں لوگوں کی بھرپور آبادی تھی اور مویشی پروری ان کی زندگی کی اہم بنیاد تھی۔ اس وجہ سے جنگلوں میں بکھری چیڑ کی پتیوں کو لوگ مویشیوں کے بچھونے کے طور پر استعمال کرلیتے تھے۔ اس کے علاوہ ان پتیوں کو گوبر کے ساتھ سڑا کر کھاد بالیتے تھے۔ لیکن روزگار کی ضرورت کے سبب نقل مکانی کی وجہ سے گاؤں کے گاؤں خالی ہیں۔ اس سے مویشی پروری بہت کم یا نہ کے برابر رہ گئی ہے۔ اس کی وجہ سے چیڑ کی پتیاں اور آگ لگنے میں مددگار بیج جنگلوں میں ہی پڑے رہتے ہیں جو چنگاری ملتے ہی دہک اٹھتے ہیں۔
ماہرین جنگل کی آگ بجھانے کے تین طریقے بتاتے ہیں۔ پہلا مشینوں سے جنگلوں کی مستقل صفائی ہو اور چیڑ وغیرہ کی پتیوں کو وقت رہتے ہٹایا جائے۔ لیکن یہ بے حد مہنگا متبادل ہے۔ دوسرا، وہاں آگ پر قابو پانے کے طریقہ سے آگ لگائی جائے۔ جنوبی افریقہ اور جنوبی امریکہ کے کئی ممالک میں یہی کیا جارہا ہے۔ لیکن اس کے لیے بھی کافی وسائل چاہئیں۔ تیسرا متبادل یہ ہے کہ پہاڑی علاقوں میں نقل مکانی روک کر جنگلوں پر منحصر نظام کو بڑھاوا دیا جائے، جس سے جنگلوں کی صاف صفائی ہوگی اور آگ کے خطرے کم ہوں گے۔ چوں کہ ہمارے قائدین اور پالیسی سازوں نے جنگلوں کی آگ کی اہمیت کو ٹھیک سے سمجھا نہیں ہے، اس لیے کہنا مشکل ہے کہ ان میں سے کوئی بھی طریقہ انہیں راس آئے گا۔ ایسے میں اکلوتا طریقہ یہی ہے کہ اطلاع ملتے ہی بہت بڑی بالٹیوں سے ہیلی کاپٹر پانی کے ساتھ دہکتے جنگلوں کی طرف ر وانہ کیے جائیں اور گاؤں، انتظامیہ سمیت فوج بھی ایسے نازک مواقع پر الرٹ رہے۔
(بشکریہ: جن ستّا)

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS