ڈاکٹر محمد طارق ایوبی
ان دنوں جہیز کی خاطر احمد آباد کی ایک بیٹی کی خود کشی کی خبر پر بہت گفتگو ہو رہی ہے۔ ظاہر ہے یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے بلکہ اس طرح کے واقعات کا ایک طویل سلسلہ ہے، یہ الگ بات ہے کہ کسی واقعہ کی نوعیت اور سوشل میڈیا کی فعالیت کے سبب بہت شہرت ہوجا تی ہے۔ میرے نزدیک یہ واقعہ صرف خودکشی نہیں بلکہ ایک سماجی قتل ہے،جب تک اس طرح کے واقعات کو سماجی قتل کہا اور سمجھا نہ جائے گا تب تک یہ سلسلہ یوں ہی چلتا رہے گا۔خودکشی بہرحال ایک حرام عمل ہے جس پر اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں وعید نازل فرمائی ہے۔ مسلمانوں میں خودکشی کے واقعات بہت کم ہونے کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ لوگ اسے حرام سمجھتے ہیں، لوگوں کو یہ سمجھانے کی ضرورت ہے کہ مومن کا ایمان اسے زندگی سے لڑنا اور حالات سے مقابلہ کرنا سکھاتا ہے۔
اس طرح کے واقعات رونما ہونے کے اسباب کا پتہ لگانے، انہیں سمجھا نے اوراس پر کام کرنے کی ضرورت ہے نہ کہ ماتم کرنا اس کا حل ہے۔ بے شمار بچیاں خود کشی کرتی ہیں، قتل کردی جاتی ہیں، زندہ جلادی جاتی ہیں، گھر سے نکال دی جاتی ہیں، طلاق کا دکھ سہتی ہیں، بہت سی عمر بھر جسمانی تشدد کا درد سہتے سہتے زندگی گزار دیتی ہیں، اس میں ہندوستان میں بسنے والی دیگر اقوام اعدادو شمار کے اعتبار سے مسلمانوں سے بہت آگے ہیں، اس لیے کہ جبرواکراہ اور غیر متوازن سماجی رویے دوسروں کے یہاں زیادہ پائے جاتے ہیں۔ مسلمانوں کا مذہب اس سلسلہ میں بہت صاف ہے اور واضح تعلیم رکھتا ہے، یہ الگ بات ہے کہ مسلمانوں میں بھی اب وہ سب رویے در آئے جو دوسرے سماج کا حصہ تھے۔ مسلمانوں کے مذہب میں نکاح ایک کنٹریکٹ تھا، جسے اس قدر آسان بنایا گیا تھا کہ نکاح سے ہر خواہش مند مرد؍عورت بآسانی اپنی خواہش کی تکمیل کرسکتا تھا۔ مسلمانوںکے یہاں نکاح کے لیے ایک مرد اور ایک عورت کا دو گواہوں کے سامنے ایجاب قبول کرلینا نکاح کہلاتا ہے، اس عمل میں اسلام نے مرد پر مہر کی ادائیگی کو لازم قرار دیا ہے، ساتھ ہی اگر اس کے پاس کچھ ہے تو اسے حسب سہولت ولیمہ کا اہتمام کرنے کا حکم دیا گیا ہے تاکہ نئے رشتۂ ازدواج اور نکاح کا اعلان ہوسکے۔ اس کے علاوہ سماج میں آپ کو جو کچھ بھی نظر آتا ہے، اس کا اسلام کی تعلیمات سے قطعی کوئی تعلق ہے ہی نہیں، جتنے امور لازمی قرار دیے گئے وہ سب سماج کی اپنی اُپج اور سماجی جبر کا نتیجہ ہیں۔ اس سماجی جبر اور نکاح کو ریت ورواج کے بندھن میں قید کرنے کے سبب جو مشکلات پیدا ہوئیں وہ سب کے سامنے ہیں، نکاح کے بالمقابل زنا عام ہونے لگا، لوگ لیو اِن رلیشن شپ کو فروغ دینے لگے، لڑکیاں تو لڑکیاں ان کے والدین تک خودکشی کرنے لگے، گھریلو جھگڑوں، سماجی تشدداور طلاق کے واقعات سے سماج زخمی نظر آنے لگا، لوگ قرضوں میں دب جاتے ہیں، سماجی دباؤکے سبب سودی قرض لے کر شادیاں کرتے ہیں، جہیز کا انتظام کرتے ہیں بلکہ اب تو نقد رقم بھی دی جاتی ہے گو بکری بیچی اور بکرا خریدا جاتا ہے۔ لڑکے والوں کی طرف سے اس طرح کے مظالم کیے جاتے ہیں کہ متوسط طبقہ میں لڑکی کا باپ کئی کئی سال صرف شادی کا قرض ادا کرتارہتا ہے۔ شادی کے اسی بوجھ اور فضولیات کے سبب بچیوں کا رحم مادر میں قتل ہوتا ہے، ان کی پیدائش پر خوشی کے شادیانے کیا بجتے چہرے اتر جاتے ہیں۔ دوسری طرف آپ کو کتنے ایسے لڑکے مل جائیں گے جو زندگی گزارنے بھر اپنی روزی روٹی کماتے ہیں لیکن ان کو کوئی اپنی بیٹی دینے کو تیار نہیں ہوتا، وہ بھی یہ سوچ کر پریشان رہتے ہیں کہ آخر شادی کے لیے قرض کہاں سے لائیں،رشتہ داروں کو برات میں کیسے لے جائیں،پھر سماجی دباؤ کے پیش نظر ایک اچھے اور معیاری ولیمہ کا انتظام کیسے کریں۔
شادی کو آسان بنائیں، غیر اسلامی خرافات سے گریز کریں۔ شادی کو محض ایک انسانی ضرورت سمجھ کر انجام دیں۔۔۔ ضرورت ہے کہ جہیز کے مطالبہ، برات کی فضولیات اور شادی کی خرافات کو سماجی عار بنا دیا جائے تا کہ اس میں ملوث لوگ منھ چھپائے پھریں، جب تک زمانہ کے رسم و رواج، سماجی دباؤ اور تہذیبی رویوں کا حوالہ دے کر شادی کو ایک مشکل ترین عمل بنا کر رکھا جائے گا تب تک اس طرح کے درد انگیز واقعات کا سلسلہ چلتا رہے گا۔
جبکہ اسلام نے لڑکی والوں کے ذمہ شادی کی کوئی ذمہ داری نہیں ڈالی،مہر لڑکے کے ذمہ ہے، ولیمہ لڑکے کے ذمہ ہے،ولیمہ بھی وہ جیسے چاہے اورجتنا مختصر چاہے کر سکتا ہے، قطعاًیہ ضروری نہیں کہ وہ بہت بڑا متنوع اقسام پر مشتمل ولیمہ کرے، مختصر سے ریفریش منٹ سے بھی ولیمہ ہوسکتا ہے، اس میں اصلاً ولیمہ کرنے والے کی حیثیت و سہولت کو پیش نظر رکھا جائے گا،ساتھ ہی سیرت رسولؐ اور صحابہ ؓکے طرز عمل سے پتہ چلتا ہے کہ حیثیت و سہولت کے باوجود سادگی اور کم خرچ ہی پسندیدہ ہے۔ اچھی طرح سے سمجھ لینا چاہیے کہ نکاح ایک فطری انسانی اور جنسی و دینی ضرورت ہے، اسی لیے اسلام نے اسے نہایت آسان بنایا ہے۔ اسلام کا بنیادی اصول ہے کہ وہ کسی کو اس کی استطاعت سے زیادہ کا مکلف نہیں بناتا، اگر اسلامی اصول کے مطابق شادیاں ہوتیں تو جسمانی تشدد، قتل اور طلاق کے واقعات نہ ہونے کے برابر ہوتے۔
تین طلاق پرجس قدر شور مچایا گیا، اس کاعشر عشیر بھی اگر اسلامی نکاح کی تفہیم پر محنت کرلی جائے تو طلاق کی نوبت نہ آئے اوراگر آئے بھی تو طلاق کی تفہیم کے نتیجہ میں بات کبھی تین طلاق تک نہ پہنچے۔ یہ وہ مسائل ہیں جو قانون سے کبھی حل نہیں ہوں گے، معاشرہ میں غربت اور جہالت عام ہے جو ان مسائل کے وجود پذیر ہونے کا اصل سبب ہے۔ ہماری طرف سے تفہیم کی کوششیں لگژری ہالوں یا اہل علم کے درمیان نشستوں تک محدود رہتی ہیں۔ طلاق اللہ تعالیٰ کے نزدیک مبغوض ترین حلال شے ہے،لیکن عورت کو کڑھ کڑھ کے مرنے اور مرد کے ظلم سے بچانے کا ذریعہ بھی ہے۔ معاشرہ میں 99 فیصد لوگ یہی جانتے ہیں کہ جب تک کئی مرتبہ لفظ طلاق نہ بولا جائے طلاق نہیں ہوگی،آج بھی جاہل تین طلاق دے رہے ہیں، عورت خود اپنی مجبوری دیکھ کر عدالت نہیں جائے گی اور چلی بھی جائے تو شریعت کی نظر میں بیوی نہ بن سکے گی، پھر یہ ہو رہا ہے کہ طلاق کے بعد بھی ایک دوسرے کے ساتھ میاں بیوی بن کر رہ رہے ہیں، یہ واقعات ہیں کوئی سنی سنائی کہانی نہیں۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ مسلمان ہر محلے میں کاؤنسلنگ سینٹر قائم کریں، لوگوں کی افہام و تفہیم کریں، نکاح و طلاق اور ازدواجی حقوق سے ہر ہر فرد کو واقف کرائیں، اس کے لیے مسجد مسجد اور گلی گلی میں تفہیمی پروگرام چلانے کی ضرورت ہے۔ بڑے بڑے پروگراموں سے شخصیت اور کام کی شہرت تو ہو سکتی ہے مگر مقصد نہیں پورا ہوگا، یہ بات تجربے سے ثابت ہو چکی ہے۔ ضرورت ہے کہ چھوٹے چھوٹے پروگرام کیے جائیں، لوگوں کو واقف کرایا جائے، ان کا مزاج بنایا جائے کہ وہ شادی کو آسان بنائیں، غیر اسلامی خرافات سے گریز کریں۔ شادی کو محض ایک انسانی ضرورت سمجھ کر انجام دیں، جس طرح آدمی اپنی روزمرہ کی ضرورت مناسب طریقے سے آسانی کے ساتھ حل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ سماجی دباؤ کا مقابلہ کریں، گھریلو مسائل کو کاؤنسلنگ سینٹر میں لا کر حل کریں، مشکلات کے باوجود مسکرانا سیکھیں، اگر ایسا نہ کیا گیا تو سماج ایسے سماجی قتل کا مرتکب ہوتا رہے گا اور خاندان بکھرتے رہیں گے۔ ضرورت ہے کہ جہیز کے مطالبہ، برات کی فضولیات اور شادی کی خرافات کو سماجی عار بنا دیا جائے تا کہ اس میں ملوث لوگ منھ چھپائے پھریں، جب تک زمانہ کے رسم و رواج، سماجی دباؤ اور تہذیبی رویوں کا حوالہ دے کر شادی کو ایک مشکل ترین عمل بنا کر رکھا جائے گا تب تک اس طرح کے درد انگیز واقعات کا سلسلہ چلتا رہے گا۔
[email protected]