محمد فاروق اعظمی
دوڈھائی سو سال قبل آنے والے مشینی اور صنعتی انقلاب نے جس طرح پوری دنیا کی معاشرت کے ڈھنگ بدل دیے تھے اورانسانی تاریخ نے نیا موڑ لیا تھا، ٹھیک اسی طرح کمپیوٹر سائنس اور مصنوعی ذہانت آج پوری دنیا کو تہہ و بالا کرنے کے درپہ ہے۔ اس اکسویں صدی کے پہلے ربع میں کمپیوٹر سائنس سے کئی قدم آگے مصنوعی ذہانت کا سورج اپنے نصف النہار کی طرف بڑھ رہا ہے۔ ہر روزنئے نئے انقلابی واقعات دھماکوں کی شکل میں رونما ہورہے ہیں۔ چند ایک طاقتیں اس ’مصنوعی ذہانت‘ کا استعمال کرکے پوری دنیا پر بلا شرکت غیرے تسلط اوربرتری کی خواہش مند ہیں۔ان طاقتوں میں امریکہ اور یوروپ کو چیلنج کرنے کی پوزیشن پرآچکا چین سب سے آگے ہے۔ کمپیوٹر سائنس، تکنیک،ہارڈویئر،بگ ڈیٹا، پیریلل پروسیسنگ اور نیورل نیٹ ورکس کی دنیا میں چین کی اس پیش قدمی کا سب سے بڑا نقصان پڑوسی ہندوستان کو اٹھانا پڑرہا ہے۔ مشرقی لداخ اور وادی گلوان میں ہندوستان افواج کی مستعدی کی وجہ سے منہ کی کھانے کے بعد چین نے ہندوستان کے خلاف تکنیک کا استعمال کرتے ہوئے بالواسطہ سائبر جنگ چھیڑ دی ہے۔ملک کی اہم ترین ہستیوں کے خلاف سائبر جاسوسی کا ہتھ کھنڈا بھی اپنا رہا ہے۔ وزیراعظم نریندر مودی، صدرجمہوریہ رام ناتھ کووند، کانگریس کی عبوری صدر سونیا گاندھی سمیت ہندوستان کی ایک ہزار سے زیادہ اہم ترین شخصیات کی نجی زندگی کے سلسلے میں جانکاری اکٹھاکرنے میں لگا ہوا ہے۔ میڈیا میں آنے والی خبروں کے مطابق ژنہوا ڈاٹا انفارمیشن ٹیکنالوجی کمپنی لمیٹڈ دنیا بھر میں24لاکھ انتہائی اہم افراد کی ڈیجیٹل جاسوسی کررہی ہے۔ ژنہوا ڈاٹا انفارمیشن ٹیکنالوجی کمپنی کہنے کو توپرائیویٹ کمپنی ہے لیکن یہ چین کی کمیونسٹ حکومت کے ساتھ مل کر اس کے مفاد میں کام کرتی ہے۔ اس کمپنی نے دنیا بھر کے جن 24 لاکھ افراد کوڈیجیٹل جاسوسی کا ہدف بنایا ہے، ان میں سے10ہزار افراد اور ادارے ہندوستان کے ہیں اورتقریباً 35ہزار افراد آسٹریلیا کے بتائے گئے ہیں۔ان 10ہزار ہندوستانی زعما میں بڑے سیاسی لیڈروں کے ساتھ ہی اہم عہدوں پر تعینات بیوروکریٹ، جج، سائنس داں، ماہرین تعلیم، صحافی، فنکارا ور کھیل کے شعبہ سے وابستہ ہستیاں شامل ہیں۔نیز چین کی نظر ہندوستان کے مختلف مذاہب کے رہنمائوں پر بھی ہے۔
چین ’مصنوعی ذہانت‘ کے باب میں اپنی استعداد کا جو منفی استعمال کررہاہے، اس سے ہندوستان کی سائبر سیکورٹی سخت خطرہ میں پڑگئی ہے۔سیمانٹک کارپوریشن کے مطابق ہندوستان دنیا کے ان 5 ممالک میں سے ایک ہے جنہیں آج سائبر کرائم کی سنگین صورتحال کا سامنا ہے۔ہندوستان میں سائبر سے وابستہ جرائم کوفروغ دینے میں چین کے سرکاری اور نجی ہیکروں کا بھی بڑاہاتھ بتایاجاتاہے۔کہا جارہاہے چین نے ایسے سافٹ ویئر بھی تیار کرلیے ہیں جن کے ذریعہ وہ ہندوستان کے جرائم پیشہ افراد کا مکمل ڈیٹا محفوظ رکھ لیتا ہے اور ان سے اپنی مرضی کے کام کراتا ہے۔
جولائی 2016سے لے کر جون2017کے درمیان سائبر کرائم کے چار ایسے بڑے واقعات ہوئے جنہوں نے ہندوستانی سائبر سیکورٹی پر سوالیہ نشان کھڑا کردیا۔
سائبر سیکورٹی سے متعلق نیتی آیوگ کے ایک دستاویزمیں کہا گیا ہے کہ جولائی2016میں سائبر مجرموں نے ایک فشنگ ای-میل بھیج کر فنڈ ٹرانسفر کرنے کے لیے ایسے اسناد حاصل کرلیے تھے جن کی مدد سے وہ یونین بینک آف انڈیا سے171ملین ڈالر کی رقم کی نکاسی شروع کرچکے تھے۔لیکن فی الفور کی گئی کارروائی کے ذریعہ بینک کو خالی ہونے سے بچایا جاسکا۔ اسی طرح مئی 2017ہیکروں نے تاوان حاصل کرنے کے لیے ملک کے ہزاروں کمپیوٹر ہیک کرلیے تھے جس کا اثر آنددھرا پردیش پولیس کے کمپیوٹر نظام اور مغربی بنگال کے مختلف سرکاری دفاتر پر پڑا تھا۔ اسی طرح اسی مہینہ مئی2017 میں ہی فوڈ ڈیلیوری کمپنی زومیٹو نے بتایاتھا کہ اس کے 17ملین گاہکوں کے نام پتہ اور ای میل آئی ڈی پر مشتمل ڈاٹا ہیک کرلیاتھا۔ جون 2017میں رینسم ویئرنام کے سافٹ ویئر کا استعمال کرکے ہیکروں نے پوری دنیا کے کنٹینر ہینڈلنگ نظام کو قبضہ میں کرنے کی کوشش کی تھی، اس وقت ہندوستان کے ممبئی میں واقع جواہر لعل نہرو پورٹ ٹرسٹ کا نظام متاثر ہوا تھا۔یہ سارے شیطانی کام ڈیٹا اینالائز کرکے کیا جاتا ہے اور ڈیٹا اینالائز کے اس کام میں چینی کمپنیاں آگے ہیں۔ ہندوستان میں کام کررہی کئی ایسی سائبر اسپیس کمپنیاںہیں جو ٹوئٹر، فیس بک، لنکڈ ان، انسٹاگرام اور ٹک ٹاک کے اکائونٹ سے اطلاعات اکٹھی کرتی ہیں۔کچھ اطلاعات اوپین سورس سے اور کچھ خفیہ بینک ریکارڈ، ملازمت کی درخواستوں اور پروفائل سے بھی حاصل کرتی ہیں۔یہ اطلاعات حاصل کرکے چین ہندوستان کے خلاف روایتی ہتھیاروں کے بجائے مصنوعی ذہانت کے استعمال سے جنگ کر رہا ہے۔
امریکہ اور چین کے بعد ہندوستان دنیا کا تیسرا ملک ہے جہاں انٹرنیٹ استعمال کرنے والے افراد سب سے زیادہ ہیں اور یہاں سالانہ 44% کی شرح سے انٹرنیٹ استعمال کرنے والوں کی تعدادبڑھی ہے۔اتنی بڑی آبادی جو انٹرنیٹ کا استعمال کررہی ہے، ان میں سے اکثریت چین کے نشانہ پر ہیں۔ چین اس سائبر وار کے تحت ہندوستان میں افواہیں، غلط جانکاریاں اور فیک نیوز پھیلاکر ملک کی بڑی آبادی کی ذہنی ساخت بدلنے کی بھی کوشش کررہاہے۔ چین کی ان مذموم سرگرمیوں کامقصد ہندوستان کے معاشرتی اور سیاسی ڈھانچہ میں دراندازی کرنا ہے۔چین کی حکمت عملی یہ ہے کہ وہ بغیر کوئی گولی چلائے اپنے دشمن ملک پر اپنا تسلط قائم کرسکے اوراس ملک میں اپنا اثر و نفوذ یقینی بناسکے۔یہ اندیشہ پہلے سے ہی ظاہر کیاجارہاتھا کہ چین اپنے سائبر اسپیس اور’ مصنوعی ذہانت‘ کا استعمال کرتے ہوئے ہندوستان میں در اندازی کررہا ہے۔اس اندیشہ کے پیش نظر ہی ملک کی سالمیت کے لیے خطرہ بن چکے 224 چین ساختہ کمپیوٹر اور موبائل ایپلی کیشنز پر ہندوستان نے پابندی عائد کی۔ لیکن چین کے اس سائبر وار سے نمٹنے کے لیے اتنا ہی کافی نہیں ہے۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ ملک کے سائبر سیکورٹی سسٹم کو مضبوط کیاجائے۔ہندوستان میں سائبر سیکورٹی سے نمٹنے کے لیے کم وبیش تین درجن ادارے کام کرتے ہیں مگر اس کے باوجود سائبر سیکورٹی کے معاملے میں ہندوستان دوسرے ملکوں سے کافی پیچھے ہے اور افسوس ناک بات تو یہ ہے کہ سب کچھ جانتے ہوئے بھی ہندوستان چین ساختہ کمپیوٹر اور موبائل آلات استعمال کرنے میں سب سے آگے ہے۔ہندوستان کی سرکاری ٹیلی مواصلات کمپنی بھارت سنچار نگم لمیٹڈ (بی ایس این ایل) موبائل نیٹ ورک میں آج بھی تقریباً 53 فیصد ایسے آلات استعمال کرتی ہے جو چین میں بنے ہوئے ہیں اور چینی کمپنیوں کی جانب سے ہی فراہم کیے گئے ہیں۔ ان حالات میں چین کی سائبر تکنیک، مصنوعی ذہانت اور ڈیجیٹل جاسوسی کا مقابلہ کرنا ہندوستان کے لیے آسان نہیں ہے۔تاوقتیکہ حکومت اس معاملے کی سنگینی کو محسوس کرے اور نیشنل سائبر سیکورٹی پالیسی کے تحت ڈیٹا سیکورٹی سسٹم کی حفاظت کی سمت میں کام کرے۔
[email protected]