دبئی :اسرائیل اور متحدہ عرب امارات نے ’امن معاہدے‘کا اعلان کیا ہے جس سے دونوں ممالک کے مابین سفارتی تعلقات بحال ہوجائیں گے ۔جمعرات کو اس اعلان کے بعد دنیا بھر کے رہنماﺅں کا ملا جلا رد عمل سامنے آیا ہے۔ جہاں کچھ نے معاہدے کا خیر مقدم کیا ہے وہیں کچھ ممالک نے اسے تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔
اسرائیلی وزیراعظم بنجامن نیتن یاہو نے عبرانی زبان میں ٹوئٹ کیا کہ ’یہ تاریخی دن‘ہے ۔ علاوہ ازیں انہوں نے ٹی وی خطاب میں کہا کہ ”اسرائیل اور عرب دنیا کے تعلقات میں آج ایک نئے دور کا آغاز ہوا ہے“۔
متحدہ عرب امارات نے کہا کہ اسرائیل کے ساتھ امن معاہدہ جرات مندانہ اقدام ہے جس سے اسرائیل اور فلسطین کے مابین طویل عرصے سے جاری تنازع کا حل ممکن ہوسکے گا۔ پریس کانفرنس کے دوران متحدہ عرب امارات کے وزیر مملکت برائے امور خارجہ انور قرقاش نے کہا کہ دونوں ممالک میں سفارت خانہ سے متعلق حتمی طور پر کچھ نہیں کہہ سکتے لیکن اس میں یقینی طور پر زیادہ وقت نہیں لے گا۔اس معاہدہ پر غزہ کی پٹی کے حکمران جماعت حماس نے مذکورہ معاہدہ کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس سے فلسطین کے مقاصد پورے نہیں ہوتے ۔حماس کے ترجمان حازم قاسم نے خبررساں ایجنسی اے ایف پی کو بتایا کہ ”متحدہ عرب امارات کے ساتھ معاہدہ اسرائیلی قبضے اور جرائم کا صلہ ہے“۔ حماس کے ایک بیان میں کہا گیا کہ فلسطینی صدر محمود عباس نے اسرائیل اور متحدہ عرب امارات کے معاہدے پر فلسطینی قیادت کا ’ہنگامی اجلاس‘ طلب کیا ہے ۔
اقوام متحدہ کے ترجمان نے اسرائیل اور متحدہ عرب امارات کے معاہدے کے اعلان کے بعد کہا کہ اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل ’مشرق وسطی کے خطے میں امن اور سلامتی کو فروغ دینے والے کسی بھی اقدام‘کا خیرمقدم کرتے ہیں۔
مصر کے صدر عبد الفتاح السیسی نے اسرائیل اور متحدہ عرب امارات کے مابین امریکہ کے کردار کی تعریف کی ہے ۔انہوں نے ایک ٹوئٹ میں کہا کہ ”میں نے فلسطینی سرزمین پر اسرائیل کے الحاق کو روکنے کے بارے میں امریکہ، متحدہ عرب امارات اور اسرائیل کے درمیان مشترکہ بیان کو دلچسپی اور تحسین کے ساتھ پڑھا“۔مصر کے صدر نے مزید کہا کہ اس سے مشرق وسطی میں ’امن‘کے قیام میں مدد ملے گی۔انہوں نے کہا کہ ”میں اپنے خطہ کی خوشحالی اور استحکام کے لئے اس معاہدہ کے معماروں کی کاوشوں کی ستائش کرتا ہوں“۔واضح رہے کہ اسرائیل کے عرب ریاستوں کے ساتھ رسمی طور پر سفارتی تعلقات نہیں ہیں، اسرائیل کے رسمی سفارتی تعلقات دو پڑوسی عرب ممالک مصر اور اردن سے ہیں۔
برطانوی وزیر اعظم بورس جانسن نے بھی اس معاہدہ کا خیرمقدم کیا ہے ۔انہوں نے ٹوئٹ میں کہا کہ متحدہ عرب امارات اور اسرائیل کے تعلقات معمول پر لانے کا فیصلہ بڑی خوشخبری ہے ۔بورس جانسن نے کہا کہ اس میں میری گہری دلچسپی تھی کہ اسرائیل مغربی کنارے میں الحاق نہ کرے اور آج ہونے والا معاہدہ الحاق سے متعلق اسرائیلی فیصلہ کو معطل کردے گا اس طرح یہ مشرق وسطی میں امن کی راہ میں ایک خوش آئند قدم ہے ۔
اس حوالے سے ترکی کے صدر طیب اردگان نے متحدہ عرب امارات پر سخت الفاظ میں تنقیدکرتے ہوئے کہا کہ تاریخ اور خطے کے لوگ اسرائیل کے ساتھ معاہدے پر متحدہ عرب امارات کے دوہرے معیار کو کبھی فراموش نہیں کر پائیں گے۔ امارات نے فلسطینی عوام کے امنگوں پر اپنے مفادات کو ترجیح دی۔
ایران کے صدر حسن روحانی نے بھی اسرائیل اور متحدہ عرب امارات کے درمیان معاہدے کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ خطے میں کوئی بھی پیشرفت فلسطینی عوام کے بغیر قابل قبول نہیں ہوگا۔ متحدہ عرب امارات نے فلسطینی عوام کے جذبات کو مجروح کیا۔
واضح رہے کہ امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اسرائیل اور متحدہ عرب امارات (یو اے ای) کے مابین امن معاہدہ کا اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہ دونوں ممالک باہمی تعلقات استوار کرنے پر متفق ہوگئے ہیں۔امریکہ کے صدر نے کہا تھا کہ اسرائیلی اورمتحدہ عرب امارات کے وفود آئندہ ہفتوں میں سرمایہ کاری، سیاحت، براہ راست پروازوں، سلامتی اور باہمی سفارتخانوں کے قیام سے متعلق دوطرفہ معاہدوں پر دستخط کریں گے ۔اس معاہدہ کے تحت اسرائیل فلسطین کے مغربی کنارے کے علاقوں میں اپنی خودمختاری کے اعلان کو عارضی طور پر معطل کرے گا۔