سرینگر: صریرخالد،ایس این بی
مسلم اکثریتی کشمیر میں ہزاروں مساجد کا بند رہنا یہاں کے لوگوں کیلئے کسی عذاب سے کم نہیں ہے تاہم ایسے میں یہاں کے ہزاروں گھروں میں چھوٹی چھوٹی جماعتیں قائم ہوتی ہیں۔مساجد میں نماز پڑھنے سے قاصر بیشتر خاندان گھروں کے اندر ہی باجماعت نماز پڑھتے ہیں جن میں گھر کے چھوٹے بڑے افراد شامل ہوتے ہیں اور گھر کا کوئی بڑا پیش امام بنکر انہیں نماز پڑھاتا ہے۔
یاد رہے کہ کشمیر چونکہ ایک مسلم اکثریتی علاقہ ہے اور یہاں جگہ جسہ مساجد قائم ہیں،سرکاری انتظامیہ نے خصوصی طور یہاں کے لوگوں کو مساجد کی بجائے گھروں میں نماز پڑھنے کی ہدایت دی ہے تاکہ،بقول اُنکے،کرونا وائرس مزید نہ پھیلنے پائے۔سرکاری انتظامیہ کے کہنے پر کئی مذہبی علماٗ نے بھی لوگوں سے مساجد میں جاکر بھیڑ جمع کرنے سے پرہیز کی صلاح دی ہوئی ہے اور ابھی ایک ماہ سے زیادہ عرصہ سے یہاں کی مساجد میں جماعت نہیں ہو پارہی ہے اگرچہ دیہی علاقوں میں کہیں کہیں مختصر جماعتیں قائم ہوتی آرہی ہیں۔یہ بات ویسے ہی دردناک تھی تاہم رمضان کے مہینے میں لوگوں کی مساجد سے دوری ایک جذباتی مسئلہ ہے ۔اسکا اظہار روزنامہ راشٹریہ سہارا کی ایک رپورٹ میں گذشتہ دنوں بعض سرکاری افسروں نے بھی ،یہ کہکر کہ انہیں خدشہ ہے کہ لوگ ماہِ رمضان میں زبردستی مسجدوں کی طرف نہ دوڑیں،کیا تھا۔
کرونا وائرس کے بچاؤ کی سب سے بڑی تدبیر سوشل ڈسٹینسنگ کی وجہ سے کئی چند ایک مسلم ممالک کو چھوڑ کر دیگر سبھی پہلی بار ماہِ رمضان کی عبادت گھروں میں ہی کرتے ہیں اور کشمیر بھی پہلی بار اس طرح کا ’’اذیت ناک تجربہ‘‘ کر رہے ہیں۔مذہبی علماٗ نے لوگوں کو مساجد سے دور رہنے پر آمادہ کرنے کیلئے نہ صرف اضطراری حالات میں گھروں کے اندر نماز پڑھنے کے بارے میں دلائل دیں بلکہ سوشل میڈیا کے ذرئعے تصاویر پر مبنی ایک گائیڈ بھی جاری کیا گیا جس میں لوگوں کو یہ سکھانے کی کوشش کی گئی کہ اگر صرف میاں بیوی جماعت پڑھئیں تو صفوں کی ترتیب کیا ہوگی اور اگر مردوزن ایک ساتھ ہوں تو کس طرح صفیں باندھی جائیں گی۔
سرینگر کے چھانہ پورہ علاقہ کے ایک شخص پرویز مقبول شاہ کے مطابق وہ مسجد جانے سے قاصر ہونے کی وجہ سے درونِ خانہ باجماعت نماز کا اہتما کرتے ہیں اور اپنی نوعیت کی اس جماعت میں گھر کے سبھی چھوٹے بڑے مردو زن شامل ہوتے ہیں۔ شمالی کشمیر کے ایک نوجوان منظور احمد نے کہا کہ وہ بھی اپنے گھر میں باجماعت نماز کا اہتمام کرتے ہیں ۔تاہم انہوں نے مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ’’وہ مسجد جیسا سکون گھر میں کہاں؟‘‘۔دیہی علاقوں میں کہیں کہیں لوگ مساجد میں جمع ہوتے تو ہیں لیکن انتہائی قلیل تعداد میں۔ جنوبی کشمیر کے اننت ناگ ضلع کے ایک نوجوان شکیل الرحمان نے بتایا ’’مسجد گئے بغیر رہا نہیں جاتا ہے،گھر میں نماز پڑھنے سے جیسے تسلی ہی نہیں ملتی ہے حالانکہ ہم چند نوجوان مسجد جاکر مختصر جماعت پڑھنے کے فوری بعد چلے جاتے ہیں‘‘۔ ایک ریٹائرڈ تعلیم دان غلام نبی کا کہنا ہے ’’یہ بڑی تکلیف دہ بات ہے کہ مسجد نہ جانا مجبوری بن گئی ہے، میں کئی دنوں سے مسجد نہیں گیا حالانکہ ہمارے یہاں کے کئی نوجوانوں نے مولوی صاحب کو دھمکی دی ہے کہ اگر انہوں نے مسجد آنا چھوڑ دیا تو وہ انکی جگہ دوسرا امام مقرر کریں گے،کچھ بچے نہیں مانتے ہیں لیکن میں گھر میں ہی نماز پڑھتا ہوں‘‘۔ انہوں نے کہا کہ عام حالات میں وہ بیشتر وقت مسجد میں ہی گذارتے تھے۔ فاطمہ بیگم نامی ایک خاتون نے کہا ’’یہ بہت ہی بدشگونی کی بات ہے،مسجد نہ جاپانا کوئی معمولی بات نہیں ہے بلکہ میں سمجھتی ہوں کہ ہمارے گناہ اتنے زیادہ ہوگئے ہیں کہ اللہ نے مساجد تک کے دروازے ہم پر بند کردئے،اللہ رحم کرے اور ہمیں بخش دے‘‘۔
مساجد کے بند رہتے کشمیر کے بیشتر گھروں میں باجماعت نمازوں کا اہتمام مگر مساجد جیسا سکون کہاں
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS