کرونا وائرس کے پھیلاو کو روکنے کے لئے جموں و کشمیر انتظامیہ کی جانب سے قرار دیئے گئے ریڈ زون علاقوں میں 100 فیصد لاک ڈاؤن نافذ کرنے کا اعلان کیا گیا ہے۔ ایسے علاقے لوگوں کی نقل و حرکت کے لئے مکمل طور پر سیل رہیں گے۔ ان علاقوں سے کسی کو ۔ بھی باہر یا پھر اندر آنے کی اجازت نہیں ہوگی۔ جہاں تک ممکن ہو ایسے علاقوں میں جانے کے لئے صرف ایک ہی راستہ کھلا ہوگا جس پر ناکہ پارٹی اور مجسٹریٹ تعینات رہیں گے۔
ریڈ زون علاقوں کے اندر اور باہر جانے کے مقامات پر اسٹیکرس لگائے جائیں گے جن پر ریڈ زون لکھا ہوگا۔ اس علاقے کے لئے طبی سہولیات، سبزیاں دیگر اناج، میڈیکل ایمرجنسی، فیو مگیشن / صحت صفائی اور دیگر عملے کے آنے جانے کے لئے ایک ہی راستہ کھلا رہے گا۔
یہ ہدایات اس یونین ٹریٹری کے ریڈ زونز میں عمل میں لائے جانے والے رہنما خطوط (ایس او پیز) میں شامل ہیں۔ منگل کو جاری ایس او پیز میں کہا گیا ہے کہ یہ ہدایات اس لئے جاری کی جا رہی ہیں تاکہ ڈیزاسٹر مینجمنٹ ایکٹ 2005 کے تحت کووڈ 19 کی وبا کو روکنے کے سلسلے میں پہلے ہی سے لگائی گئی پابندیوں کے دوران لوگوں کو ضروری اشیاء و خدمات کی فراہمی یقینی بنائی جاسکے۔
ایس او پی کا نفاذ چیف سیکرٹری بی وی آر سبھرامنیم کی طرف سے جاری کردہ ایک حکم نامے کے تحت کیا گیا ہے۔ چیف سکریٹری ڈیزاسٹر مینجمنٹ ایکٹ 2005 کے دفعہ 24 کے تحت اسٹیٹ ایگزیکٹو کمیٹی کے چیئرپرسن بھی ہیں۔ حکم نامے کے مطابق جس علاقے میں کورونا وائرس کے معاملات زیادہ ہوں یا جہاں اس وبا کے پھیلنے کے شبہات پائے جائیں متعلقہ ایس پی پولیس کی صلاح سے اُس علاقے کو متعلقہ ضلع مجسٹریٹ ریڈ زون قرار دیتا ہے۔
ریڈ زون علاقوں میں جانے کے لئے باقاعدہ پاس اجراء کیے گئے ہیں اور تعینات عملے کو تحفظ دینے کے لئے اُن کی گاڑیوں کو فیو مگیشن کی جائے گی بلکہ وہاں سیفٹی ٹنل بھی نصب کیے جائیں گے۔ ریڈ زون کے ارد گرد دیہات / آبادیوں کو بفر زون قرار دیا جائے گا۔
ریڈ زون علاقے میں رہنے والے لوگوں کی باقاعدہ نگرانی اور اسکریننگ عمل میں لائی جائے گی۔ اس کے علاوہ آروگیاں سیتو کے تحت صد فیصد سروے بھی عمل میں لایا جائے گا۔ ریڈ زون کے علاقوں میں مشتبہ افراد اور اُن کے پڑوسیوں کی باقاعدہ تشخیص کی جائے گی۔ اگر مشتبہ افراد کی تعداد میں اضافہ دکھائی دے اور ڈاکٹروں کو متعلقہ افراد کے لئے وقت کی کمی ہو۔ اس لئے ایسے موقع پر علیحدہ ٹیموں کو تشکیل دیا جائے گا تاکہ ڈاکٹر اپنی طبی ذمہ داریاں پور ی کرسکیں۔
تحصیلدار یا دیگر افسر متعلقہ ریڈ زون کا ایڈمنسٹریٹر ہوگا۔ اُن کی معاونت کے لئے ٹی ایس او، ٹی ایس ڈبلیو او، جونیئر انجینئر (بجلی / صحت عامہ) فارماسسٹ تعینات کیے جائیں گے جو لوگوں کو ضروری خدمات، خوراک و ادویات فراہم کریں گے۔ اہم خدمات اور ایمرجنسیوں سے نمٹنے کے لئے پاسز کا نظام عمل میں لایا جائے گا۔ تمام ریڈ زونوں میں کنٹرول روم قائم کیے جائیں گے جن کے ساتھ ہیلپ لائین /کال سینٹر کی سہولیات بھی فراہم کی جائیں گی۔
ریڈ زونوں کے اندر عوامی اہمیت کے حامل مقامات و دیگر جگہوں کو دن میں دو بار فیومگیٹ کیا جائے گا۔ اس موقع پر تمام ایمبولنسوں و دیگر سپلائی گاڑیاں جو ریڈ زون میں داخل ہوں گی کو فیومگیٹ کیا جائے گا۔ اس کے علاوہ صحت و صفائی کی مہم میں بھی اضافہ کیا جائے گا۔ محکمہ بجلی اور صحت عامہ ریڈ زون علاقے کو بجلی اور پانی کی فراہمی یقینی بنائیں گے۔ یہ دونوں محکمے ترجیحی بنیادوں پر لوگوں کی شکایات دور کرنے کے لئے ہیلپ لائینوں کو استحکام بخشیں گے تاکہ لوگوں کو کسی بھی مشکل کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ ان علاقوں میں بینکنگ سہولیات جیسے موبائیل اے ٹی ایم و دیگر سہولیات بھی یقینی بنائی جائیں گی۔
کسی بھی ایمرجنسی کے مدنظر متعلقہ ایس ڈی ایم /تحصیلدار طبی عملے کو آنے جانے کی اجازت دے سکتے ہیں۔ بفر زون میں بھی میڈیکل ٹیم تعینات کی جائے گی تاکہ کسی بھی میڈیکل ایمرجنسی کا مقابلہ کیا جاسکے۔ ریڈ زون علاقے میں اگر کسی مریض کو فوری طور اسپتال منتقل کرنے کی ضرورت پڑے تو اس مسئلے کو حل کرنے کے لئے متعلقہ بی ایم او اجازت دینے کے مجاز ہوں گے اور متعلقہ مریض اپنے ایک تیماردار کے ساتھ ایمبولنس کے ذریعے علاج و معالجہ کے لئے اسپتال کی طرف روانہ کیے جاسکتے ہیں۔