ڈاکٹرجسیم محمد
گروپ ایڈیٹر روزنامہ راشٹریہ سہاراوعالمی سہارا
ایران کا شمار ان چند مسلم ملکوں میں ہوتا ہے جن کے پاس بصارت بھی ہے اور بصیرت بھی۔ ایران نے اللہ پر یقین رکھا اور ےہی وجہ ہے کہ مایوسیوں کے دور میں بھی نہ کبھی اس کا عزم کمزور پڑا، نہ کبھی وہ حوصلہ شکن نظر آیا اور نہ کبھی سمٹتا ہوا نظر آیا۔ مصیبتیں ایران پر جتنی پڑیں، وہ نکھرتا چلا گیا، وہ پہلے سے زیادہ پرعزم، حوصلے سے بھرپور نظر آنے لگا۔ اس کا دائرہ اثر وسیع ہونے لگا، کیونکہ اس کے پاس جنرل قاسم سلیمانی جیسے کمانڈر تھے جنہوں نے اپنی قوم کو یہ احساس دلایا تھا کہ جنگیں ہتھیار سے ہی نہیں، حوصلوں سے بھی جیتی جاتی ہیں، وہ قوم میدان میں اترنے سے پہلے ہی ہار جاتی ہے جو ہمت ہار جائے، اس لیے جنرل قاسم سلیمانی کو مار ڈالنے کی کوششیں کی جاتی رہیں اور ناکام ہوتی رہیں مگر امریکہ آخر اپنی کوشش میں کامیاب ہو گیا۔
جنرل قاسم سلیمانی کی شہادت پر تمام امریکیوں کی ایک رائے نہیں۔ کچھ اسے ٹرمپ انتظامیہ کا ایک صحیح قدم بتا رہے ہیں اور کچھ کے لیے یہ قدم قابل تعریف نہیں۔ دنیا بھر کے غیر مسلم اور مسلم ملکوں کے لےڈران بھی دو حصوں میں منقسم ہو گئے ہیں۔ امریکہ کو آقا سمجھنے اور اسرائیل سے درپردہ رشتہ رکھنے والے مسلم ملکوں کے لےڈروں کو تو ایران نہ کبھی پسند تھا، نہ ہوگا، اس لیے جنرل قاسم سلیمانی کی شہادت پر ان کا خوش ہونا فطری ہے، البتہ ان مسلم ملکوں کے لیے امریکہ پہلے سے زیادہ مشکوک ہو جائے گا جن کے لیے اپنی خودمختاری اہمیت کی حامل ہے، جنہیں مدد مانگنی ہوتی ہے تو اللہ سے مانگتے ہیں، امریکہ سے نہیں۔ آیت اللہ علی خامنہ ای ایران کے روحانی لےڈر ہےں۔ ’انتقام‘جے سا لفظ ان کے منہ سے شاید ہی کبھی سنا گیا ہو لےکن جنرل قاسم سلیمانی کی شہادت کے بعد آیت اللہ علی خامنہ ای نے کہا ہے کہ ’سخت انتقام ان مجرموں کا منتظر ہے جنہوں نے (سلیمانی) اور دیگر شہیدوں کے خون سے گزشتہ رات اپنے ہاتھ رنگے ہیں۔‘
ایرانی لےڈروں کو سمجھنے والے لوگ یہ جانتے ہیں کہ ان کی دھمکی کا مطلب کیا ہوتا ہے۔ اسرائےلی وزیراعظم بنجامن نیتن یاہو نے یونان کا دورہ بیچ میں ہی رد یونہی نہیں کیا ہے، یونہی نہیں امریکہ 3,000 فوجیوں کو مشرق وسطیٰ میں تعینات کررہا ہے۔ امریکی، اسرائیلی اور دیگر ملکوں کے لےڈران جانتے ہیں کہ ایران کوئی عام ملک نہیں ہے۔ ایران کا دائرہ اثر بہت وسیع ہے۔ ایران سے امریکہ کی جنگ کا مطلب یہ ہوگا کہ پورا مشرق وسطیٰ جلے گا اور محفوظ اسرائیل بھی نہیں رہ سکے گا۔ دنیا کے دیگر ممالک اس کا منفی اثر دوسری شکل میں محسوس کریں گے۔ جنرل قاسم سلیمانی کی شہادت کے بعد اس کی شروعات بھی ہو چکی ہے۔ عالمی منڈی میں تیل کی قیمتوں میں 4 فیصد اضافہ ہو چکا ہے اور یہ کہنا مشکل ہے کہ ابھی اور کتنا اضافہ ہوگا۔
اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل انتونیو گتریس کا کہنا ہے کہ ’دنیا ایک اور خلیجی جنگ برداشت نہیں کرسکتی۔‘یہ بات عراق جنگ سے پہلے بھی امریکہ سے کہی گئی تھی لےکن اس کے باوجود اس نے مسئلے کا حل جنگ سے تلاش کرنے کی کوشش کی۔ موجودہ امریکی صدر ٹرمپ کے لیے اہمیت امن کی نہیں ہے، ورنہ ایران کے ایٹمی پروگرام پر ہوئے پرامن معاہدے کووہ ختم نہیں کرتے، انہیں اگلا صدارتی انتخاب لڑنا ہے۔ صدارتی انتخاب جیتنے کے لیے ٹرمپ ایران کے خلاف باضابطہ جنگ شروع کر دیں تو حیرت نہیں ہوگی، ’باضابطہ‘ لفظ اس لیے استعمال کر رہا ہوں، کیونکہ قدوس فورس کے سپہ سالار اعلیٰ جنرل قاسم سلیمانی کو شہید کر کے امریکہ نے ایران سے گفت و شنید کے سارے دروازے بند کر دیے ہیں، اسے حالت جنگ میں لا دیا ہے لیکن امریکہ کے لیے یہ جنگ آسان نہیں ہوگی۔ اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے روس اور چین موقع کی مناسبت سے راست یا بالواسطہ طور پر ایران کا ساتھ دیں، حزب اللہ اور حماس اسرائیل کے خلاف ایک شدید جنگ چھیڑ دیں اوراس میں تمام فلسطینیوں اور شام کی فوج کا ساتھ انہیں حاصل ہو تو حیرت نہیں ہونی چاہیے۔ امریکہ کے ایران کے خلاف باضابطہ جنگ کی صورت میں افغان جنگجوئوں کے حملوں میں شدت آنے کا امکان رہے گا۔ ادھر عراق میں اپنے مفادات کا تحفظ اس کے لےے آسان نہےں ہوگا۔ اس جنگ کے منفی اثرات سے سعودی عرب بھی بچ نہیں پائے گا، کیونکہ یمن کے حوثیوں کے لیے اس کے خلاف جنگ میں شدت لانے کا یہ ایک سنہرا موقع ہوگا۔ ڈیموکریٹک پارٹی کی طرف سے امریکہ کے صدارتی دوڑ میں شامل برنی سینڈرس کا یہ کہنا بجا ہے کہ (جنرل قاسم سلیمانی پر)یہ حملہ ہمیں مشرق وسطیٰ میں تباہ کن جنگ کے قریب لے جائے گا جس سے ان گنت جانوں اور کھربوں ڈالروں کا زیاں ہو سکتا ہے۔‘
ہم سے رابطہ کے لیے : [email protected]
! ایران چپ نہیں رہے گا
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS