گزشتہ 200دنوں سے غزہ میں اسرائیل کی بربریت جاری ہے۔ 7؍اکتوبر 2023کے دہشت گردانہ حملوں کو جواز بناکر اسرائیل نے عالم انسانیت کو بدترین المیہ سے دوچار کیا ہے۔ اسرائیل کو لگتا ہے کہ یہ ایک نادرموقع ہے کہ وہ غزہ کے فلسطینیوںکو صفحہ ہستی سے مٹا دے۔ اس المیے کا ایک بدترین پہلویہ ہے کہ دنیا بھر میں انصاف پسندعوام فلسطینیوںکے حق میں مظاہرے کر رہے ہیں اور بے خوف ہوکر کر رہے ہیں لیکن مغربی ممالک ان مظاہروںکی حوصلہ شکنی کرنے میں کوئی کسر نہیں اٹھا رہی۔ ان میں سب سے بدترین صورت حال جرمنی، فرانس اورامریکہ کی ہے۔ گزشتہ کئی روز سے امریکہ کے جدید ترین کہے جانے والے شہر نیویارک میں قائم نیویارک یونیورسٹی اور کولمبیا یو نیورسٹی میں مظاہرین جن میں غالب اکثریت درس وتدریس سے متعلق افراد اور طلبا وطالبات کی ہے، خیمہ زن ہیں۔ یہ لوگ غزہ میں جنگ بندی کا اورغیرمشروط جنگ بندی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ لیکن قانون نافذ کرنے والے ادارے اینٹی سیمیٹک قوانین (Antisemitsm)کا حوالہ دے کر ان مظاہروںکو ختم کرنے کی جستجو کر رہے ہیں۔ کئی دن سے جاری ان مظاہروں پر قابوپانے کے لئے انتظامیہ یونیورسٹی کے اہلکار اور ارباب و حل و عقد کوششیں کر رہے ہیں، مگر آہنی عزم مصمم کے ساتھ یہ نوجوان اپنے موقف پر قائم ہیں اور تادم تحریر ان کے مظاہرے جاری ہیں۔ یہ مظاہرے یالے یونیورسٹی، کولمبیا یونیورسٹی اور نیویارک یونیورسٹی وغیرہ میں ہورہے ہیں۔ مظاہرین کی حوصلہ شکنی کرنے کے لئے سخت پولیس کارروائی ہورہی ہے۔ نفسیاتی دبائو ڈالنے کے لئے ہیلی کاپٹر اور ڈرونوں سے ان کی نگرانی ہورہی ہے۔ گزشتہ روز امریکہ کے صدر جوبائیڈن نے ان ان مظاہروںمیں یہودیوںکے خلاف جذبات کو نکتہ چینی کا نشانہ بنایا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ان مظاہروں میں یہودی کے جذبات کے خلاف بو آتی ہے۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ مظاہرے یہودی قوم کے خلاف نہیں بلکہ ان سب کے خلاف ہیں جو آنکھ بند کرکے غزہ کے لوگوںپر بم برسا رہے ہیں۔ یہی طرز عمل جرمنی میں دیکھا گیا جہاں اسرائیل کی بربریت کے خلاف ایک مذاکرے کو منعقد نہیں ہونے دیا گیا۔ دنیا بھر میں اظہارخیال کی آزادی کا ڈھنڈورہ پیٹنے والے جرمنی کے طرز عمل پر مختلف حلقوںمیں ناپسندیدگی کا اظہار کیا جارہا ہے۔ خیال رہے کہ یہ وہی جرمنی ہے جس کے حکمراں ہٹلر نے یہودیوںکے خلاف انسانیت سوز کارروائیاں کرکے لاکھوں معصوم اور بے گناہ یہودیوںکو موت کے گھاٹ اتار دیا تھا اور اسی طرز عمل کو پوری دنیا نے نسلی تطہیر قرار دے کر سیاسی رویوںمیں ایک نئی اصطلاح کو مروج کیا تھا۔ آج وہی جرمنی جس کو ہٹلر کے دوراقتدار کی غلطیوں سے
سبق حاصل کرنا چاہئے تھا وہی طرز عمل فلسطنیوںکے خلاف استعمال کر رہا ہے۔ جرمنی نے کچھ ایسے رضاکار تنظیموں اور دیگر اداروں کے خلاف بھی کارروائی کی ہے جس پر یہ شبہ ہوتا ہے کہ وہ درپردہ اور کھلے عام صہیونی ریاست کی انسانیت سوز کارروائیوںکی مدد کر رہی ہے۔ یاد رہے کہ جرمنی کا شمار ان ممالک میں ہوتا ہے جو اسرائیل کو سب سے زیادہ ہتھیار فراہم کرتے ہیں۔ مغربی ایشیا کی اس چھوٹی سی ریاست جس کی مجموعی آبادی تقریباً ایک کروڑ ہے، اس کو اپنے وجودکو قائم رکھنے کے لئے بڑے پیمانے پرفوجی امداد، اسلحہ ساز انڈسٹری اور اسی طریقے کے دیگر متعلقہ صنعتوں اور صنعت کاروںکی مدد حاصل کرنی پڑ رہی ہے۔ یہ ایک اہم پہلوہے جس پر تمام انصاف پسندوںکو غورکرنا چاہئے کہ اگر اسرائیل انصاف پسندی اور اقوام متحدہ کے چارٹر اور قراردادوںپر عمل کر رہا ہے تو اس کو اس قسم کی فوجی، اخلاقی اور سفارتی مدد کی کیوں ضرورت پڑ رہی ہے۔ اقوام متحدہ نے اسرائیل کی ریاست کو قائم کرنے کا جو مینڈیٹ دیا تھا اسرائیل نے اپنے وجودمیں آنے کے بعد اس مینڈیٹ کو منمانے ڈھنگ سے بڑھایا اور اقوام متحدہ کے اصولوں، عالمی قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے عرب ملکوںکی سرزمینوںپہ وہ 1967سے قابض ہے۔
ایسے حالات میں جبکہ وہ یعنی اسرائیل عالمی اداروں، قوانین کی کھلم کھلا مخالفت کر رہا ہے تو امریکہ، جرمنی، فرانس اور دیگرمغربی ممالک کو کیا ضرورت ہے کہ وہ اس کے خلاف قانون قبضے اورحرکات و سکنات کو جاری رکھنے کے لئے اسرائیل کو اسلحہ، اقتصادی مدد، سفارتی حمایت فراہم کرے۔ امریکہ اورجرمنی کے علاوہ فرانس جیسے ذمہ دار ممالک بھی اسی صورت حال کا شکار ہیں۔ فرانس میں ایک بڑی تعداد عربوں خاص طورپر افریقہ کے عرب ممالک کی رہتی ہے۔ یہ ان ممالک کے شہری ہیں جن پر ایک زمانے میں فرانس کا تسلط تھا۔ فرانس کے حکمرانوں اور ہر دور کے ارباب اقتدار نے اپنے منظورنظر اور معاون مسلم افریقی شہریوں کو بلابلاکر اپنے ملک میں پناہ دی، ان کو تمام مراعات، سہولیات اور حقوق عطا کئے۔ آج یہ طبقہ فرانس کی معیشت اور سماج دونوں کا اہم جز ہے، لیکن یہودی اورصہیونی اثرات کے سبب فرانس میں بھی مسلمانوں پر قدغن لگانے کی کوشش کی جاتی رہی ہے۔ 21اپریل کو فرانس میں مسلمانوںکے خلاف نفرت کے مظاہروں ، پرتشدد واقعات کے خلاف ایک بڑا اجتماع وہاں کے انصاف پسندوں، جمہوریت نوازوںاور اہل علم لوگوںنے رکھا تھا، مگر فرانس میں مصروف کار کچھ اسرائیل نواز اوریہودی پرست لوگوں نے اس مظاہرے کے انعقاد میں قانونی رکاوٹیں پیدا کرنے کی کوشش کی اور ارباب اقتدار سے مل کر ہر ممکن کوشش کی گئی کہ انصاف پسند عوام فرانس کے اس تازہ صورت حال کے خلاف کوئی مظاہرہ نہ کرسکیں، مگر عدلیہ نے اس مظاہرے کو منعقد کرنے کی اجازت دے دی۔ یہ صورت حال فرانس میں قانون نافذ کرنے والے اداروںکے اس رویہ کے خلاف بھی اظہارناراضگی تھا جس میں ایک سال پہلے ایک 17سال کے الجیریا کے ناہیل نام کے لڑکے کو گولی ماردی تھی۔ خیال رہے کہ یہ لڑکا ایک کار ڈرائیو کر رہا تھا کیونکہ فرانس میں کم عمر اور غیرلائسنس یافتہ نابالغ لڑکوںکی ڈرائیونگ پر پابندی ہے لیکن یہ اپنے سامنے پولیس کو دیکھ کر راہ فرار اختیار کرہا تھا مگرپولیس نے اس کوروکنے کے لئے براہ راست اس پر فائرنگ کردی۔ اس پر فرانس کے اندر عوامی سطح پر اورانتظامی سطح پر مسلمانوں خاص طورپر افریقہ کے ممالک کے تئیں جانبدارانہ رویہ کا واضح اشارہ ملتا ہے۔ افریقہ کے لوگوں نے اس واقعہ پر زبردست مظاہرے کئے اور ایسا لگا کہ فرانس میں مسلمانوں اور ارباب اقتدار کے درمیان ایک خلش پیدا ہوگئی ہے اوریہ معاشرہ خاص طورپر افسران بطورخاص پولیس افسران مسلمانوں اور افریقی نسل کے سیاہ فام یا گندمی رنگ والے افرادکے خلاف پرخاش رکھتے ہیں۔ اس واقعہ نے فرانس کو ایک بحران سے دوچار کردیا تھا۔ یہ وہ دور تھا جب فرانس میں صدارتی الیکشن کی مہم شباب پر تھی۔ یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں تھا جو فرانس کے ارباب اقتدار کے رویہ کی طرف اشارہ کرنے والا تھا۔ اس قسم کے واقعات سے فرانس کی گزشتہ 10سال اوراس سے بھی طویل تاریخ سے بھری پڑی ہے۔ یہ تمام واقعات اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ مغرب کے لوگ تمام تر بلندوبالا دعووں اورنعروںکے باوجود افریقہ، سیاہ فام اور مختلف اقلیتوں سے وابستہ افراد کے تئیں جانبدارانہ سلوک کرتے ہیں۔ ٭