کانگریس، مسلمان، درانداز اور منگل سوتر

0

جمہوریت میں انتخابات کے تقدس کو برقرار رکھنے کیلئے کئی انتظامات کیے گئے ہیں۔عوامی نمائندگی قانون 1951 میں کئی ضابطے ہیں جن کی خلاف ورزی قابل سزا ٹھہرتی ہے۔اسی قانون کی دفعہ123کے مطابق انتخابی عمل میں بدعنوانی کی بھی صراحت کی گئی ہے۔ اس صراحت کے مطابق کوئی بھی امیدوار انتخاب میں کامیاب ہونے کیلئے رشوت، غیرضروری اثر و رسوخ کا استعمال، مذہب کااستعمال یعنی کسی ایک مذہب کے لوگوں کے خلاف بول کر دوسرے مذہب کے لوگوں کو اپنے حق میں ہموار کرتا ہے، نسل، ذات، برادری یا زبان کی بنیاد پر ہندوستان کے شہریوں کے مختلف طبقات کے درمیان دشمنی، نفرت اور مخاصمت کے جذبہ کو فروغ دیتا ہے یا پھر غلط معلومات اورا فواہ پھیلاتا ہے تو وہ قابل مواخذہ ہوگا، اس کے خلاف قانونی چارہ جوئی کی جائے گی، ثبوت و شواہد کی بنیاد پر انتخابی کمیشن اس کی امیدواری رد بھی کرسکتا ہے۔اس کے علاوہ بھی پرامن، شفاف اور غیرجانبدارانہ انتخاب کو یقینی بنانے کیلئے انتخاب کی تاریخ کے اعلان سے ملک میں مثالی انتخابی ضابطہ اخلاق نافذکیاجاتا ہے۔ اس ضابطے کے دائرہ میں سیاسی جماعتوں اورا میدواروں کے ساتھ ساتھ سماج کا ہر فرد آتا ہے۔اس ضابطہ کے مطابق کسی بھی انتخابی جلسہ میں مذہب یا ذات پات کے نام پر ووٹ مانگا جاناقابل مواخذہ ہے۔ اس کی خلاف ورزی پر سزا بھی ہوسکتی ہے۔

ایک طرف یہ روشن روشن اجلے اجلے قانون اورضابطے ہیں تو دوسری جانب انتخابی مہم کے مکروہ حقائق ہیں جو ان ضابطوں کی دھجیاں بکھیررہے ہیں۔ ہر امیدوار اور سیاسی جماعت کا قائد حصہ بقدر جثہ کے مطابق انتخابی مہم میں غلاظت انڈیل رہا ہے۔ ایں قدر اورآں قدر کی کوئی تمیز باقی نہیں ہے۔مقام حیرت اور افسوس تو یہ بھی ہے کہ انتخابی قوانین اور مثالی ضابطوں کی پامالی میں آئینی عہدہ پر فائز ملک کے سربراہ بھی شامل ہیں اور الیکشن کمیشن شکایتوں کے باوجود خاموش تماشائی بناہوا ہے۔

گزشتہ پیر کے روز راجستھان کے بانسواڑہ میں وزیراعظم نریندر مودی کی انتخابی تقریر کا عوامی نمائندگی قانون اور مثالی انتخابی ضابطہ اخلاق کی دفعات کے معیار پر جائزہ لیا جائے تو ان پر ان کی کھلی اور واضح خلاف ورزی کا الزام لگایاجاسکتا ہے۔ نریندر مودی انتخابی مہم کیلئے راجستھان کے بانسواڑہ پہنچے تھے۔ جہاں انہوںنے کانگریس کے انتخابی منشور کے بارے میں من گھڑت باتیں کیں اور ہزاروں لوگوں کے ہجوم کے سامنے بہت آسانی سے غلط بیانی سے کام لیا۔ وزیر اعظم کو اپنی غلط بیانی سے فرقہ وارانہ پولرائزیشن کی کوشش کرتے ہوئے بھی دیکھا گیا۔ انہوں نے 2006 میں نیشنل ڈیولپمنٹ کونسل کے اجلاس میں سابق وزیر اعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ کی طرف سے دی گئی تقریر میں سے کچھ نکات اٹھائے اور اسے غلط تناظر میں پیش کیا۔ وزیراعظم مودی نے اپنی تقریر میں کہا کہ اس سے پہلے جب ان کی حکومت تھی تو انہوں نے کہا تھا کہ ملک کی جائیداد پر پہلا حق مسلمانوں کا ہے، جس کا مطلب ہے کہ اس جائیداد کو جمع کرنے کے بعد وہ اسے کس میں تقسیم کریں گے- جن کے زیادہ بچے ہیں۔ وہ اسے دراندازوں میں تقسیم کریں گے۔ کیا آپ کی محنت کی کمائی دراندازوں کو دی جائے گی؟ مودی یہیں نہیں رکے، انہوں نے مزید کہاکہ کانگریس کا یہ منشور کہہ رہا ہے کہ وہ ماؤں بہنوں کے سونے کا حساب لیں گے، اس کے بارے میں معلومات لیں گے اور پھر ان لوگوں میں تقسیم کریں گے جنہیں منموہن سنگھ کی حکومت نے کہا تھا کہ ملک کے وسائل پر پہلا حق مسلمانوں کا ہے۔ انہوں نے کہا کہ بھائیو اور بہنو! یہ اربن نکسلیوں کی سوچ ہے،وہ ماؤں اور بہنوںکا منگل سوتر بھی بچنے نہیںدیں گے۔

وزیراعظم مودی کی تقریر کے اس حصہ میں عوام کو گمراہ کرنے کی کوشش صاف نظر آتی ہے۔اس کے خلاف حزب اختلاف نے پیر کے روز الیکشن کمیشن سے شکایت بھی کی۔ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ الیکشن کمیشن کسی شکایت کا انتظار کرنے کے بجائے خود آگے بڑھ کر ضابطہ کا پیرہن چاک کرکے انتخابی عمل کو سربازار ننگاکرنے پر کارروائی کرتا لیکن وہ ٹک ٹک دیدم دم نہ کشیدم کی تصویر بنارہا اوراس کا نتیجہ یہ نکلا کہ آج منگل کے دن راجستھان کے ہی ٹونک میں وزیراعظم نریندر مودی نے انتخابی جلسہ میں تقریر کے دوران ایک بار پھر وہ سب کچھ کہاجو کسی جمہوری ملک کے سربراہ کو زیب نہیں دیتا ہے۔ انہوں نے کانگریس پر پھر وہی الزامات دہرائے۔ انہوں نے کہا کہ کانگریس کے منشور میں وعدہ کیا گیا ہے کہ اگر پارٹی اقتدار میں آتی ہے تو وہ دولت کو ’دراندازوں‘ میں دوبارہ تقسیم کرے گی۔
بانسواڑہ، علی گڑھ اوراس کے بعد ٹونک کی انتخابی تقریر میں وزیراعظم نے جس طرح کانگریس، مسلم لیگ، مسلمان، درانداز، بڑھتی مسلم آبادی اور منگل سوتر کی باتیں کررہے ہیں، وہ ہندوستان جیسے جمہوری ملک میں وزیراعظم کے عہدہ کے وقار اور اخلاقیات تباہ ہونے کی مکروہ مثال ہے۔ ضرورت ہے کہ الیکشن کمیشن اس جانب توجہ دے اور بے داغ انتخاب کو یقینی بنائے۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS