کیا بیت المقدس اورمسجد الاقصیٰ صرف فلسطینیوں کا ہے؟ : ایم اے کنول جعفری

0

ایم اے کنول جعفری

فلسطین کے صحافی جلال الفرا نے پاکستانی ٹی وی اینکر سید علی حیدر کو اُردو میں دیے انٹرویو میں فلسطینیوںکے دل کی آواز اورخون کے آنسو روتے ہوئے اپنے درد کو جن الفاظ میں بیان کیا،اسے سن کر رونگٹے ہی کھڑے نہیںہوجاتے، خوف الٰہی سے ریڑھ کی ہڈی تک لرز اُٹھتی ہے۔اُنہوں نے کہا،’یہ وہ پیغام ہے،جو فلسطینی غزہ کے عوام کے ہر بچہ بچہ کے دل سے نکل رہا ہے۔اَﷲ کی قسم کسی بھی مسلمان کو ہم معاف نہیں کریں گے۔جس مسلمان کے ہاتھ میں کچھ تھا اورنہیں کیا انہوں نے،کچھ کرسکتا تھا اور انہوں نے نہیں کیا ہے، قیامت کے دن تک معاف نہیں کریں گے۔کیوں کہ ہم جو کر رہے ہیں غزہ کے اندر علی حیدر صاحب! ہم آپ کے لیے کر رہے ہیں۔ یہ بیت المقدس صرف ہمارا نہیں ہے! یہ مسجدلاقصیٰ ہماراصرف نہیں ہے،یہ!! یہ آپ سارے مسلمانوں کا ہے۔۔۔۔۔برباد ہو گئے ہم علی حیدر صاحب! تباہ و برباد ہو گئے۔کچھ نہیں بچا۔ میرے خاندان میں سے تو کچھ بچا ہی نہیں۔۔۔ہمارے لیے اَب مت روئیے گا۔کوئی بھی نہ روئے ہمارے لیے۔آپ لوگ اپنے اُوپر روئیں۔کیوں کہ عذاب! اَﷲ کے عذاب سے کوئی نہیں بچے گا۔یہ فلسطینی جو بچے، ٹکڑے ٹکڑے ہوئے ہیں نا۔یہ ان کے جو عذاب ہیں۔یہ اَﷲ کی طرف سے سزا اور عذاب ہوگا نا اُمت مسلمہ کے اُوپر، وہ آپ بھی دیکھیں گے، ان شاء اﷲ!آپ ماشاء اﷲ جوان ہیں اوراَﷲ آپ کو لمبی زندگی دے۔ آپ دیکھیں گے،یہ عذاب اَﷲ تعالیٰ کا کیسا نازل ہوتا ہے اسی اُمت مسلمہ کے اُو پر۔ کس طریقے سے اَﷲ تعالیٰ ان معصوم بچوں کا بدلہ لیتا ہے؟اَﷲ اکبر!اَﷲ اکبر!!‘
فلسطین کے غزہ میں اسرائیل کو بمباری کرتے ہوئے ساڑھے 6 مہینے ہوگئے۔ مغرب کا کوئی بھی ملک اسرائیل کے دانت گننا تو دُور،اُس سے یہ پوچھنے والا نہیں کہ غزہ کو اُجاڑ کر، رہائش گاہوں کو مٹی کا ڈھیر بناکر، اسپتالوں کو کھنڈرات میں تبدیل کرکے، مساجد و عبادت خانوں کو تباہ و برباد کرکے اور تقریباً 34ہزاربے گناہ معصوم بچوں،خواتین اور بزرگوں کے ٹکڑے ٹکڑے کرکے اُنہیںاَبدی نیند سلانے سے کیا حاصل ہونے والا ہے؟امریکہ،جس نے شروع سے ہی غاصب اسرائیل کی حمایت اور اقتصادی، عسکری و جوہری مدد کرکے اُسے ’پاورفل‘ بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی، بھی دکھاوا کرتا نظر آ رہا ہے۔ وہ اسرائیل سے رہائش گاہوں کو نشانہ بناکرمعصوم فلسطینیوں کا قتل اور رفح پر حملہ نہیں کرنے کو کہہ رہا ہے،لیکن اس حمایت کے ساتھ کہ تجھے جو کرنا ہے، کرتا رہ۔وہ ایک جانب اسرائیل کی فوجی بٹالین ’نتزاح یہودا‘ پر انسانی حقوق کی پامالیوں کے الزام میں پابندی لگانے کا ڈرامہ کر رہا ہے تو دوسری طرف اسرائیل کو سالانہ مدد کے علاوہ 26 اَرب ڈالر کی ہنگامی امداد کا بل بھی منظور کر رہا ہے۔’نتزاح یہودا‘ فوجی یونٹ دائیں بازو کے انتہا پسند عناصر پر مشتمل ایک گروپ ہے،جو فلسطینیوں کے خلاف تشدد سے متعلق بہت سے تنازعات کا مرکز رہا ہے۔خاص کر 78سالہ فلسطین نژاد امریکی عمرالاسد کی موت،جسے چیک پوائنٹ سے گرفتار کرکے ہتھکڑیاں لگائیں اور تشدد کے بعد سرد رات میں زمین پر پھینکنے سے موت ہوگئی۔ اسرائیلی ڈیفنس فورسز کی تحقیقات میں اسے فوج کی ناکامی اور فیصلے میں غلطی ہونا تو تسلیم کیا ہی، انسانی اقدار کو شدید نقصان پہنچنا بھی قبول کیا گیا۔ یونٹ پر پابندی سے لیڈران سخت برہم ہیں۔بنیامن نیتن یاہو نے سخت ردعمل کے اظہار میں اسے مضحکہ خیزی اور اخلاقی گراوٹ کی بلندترین سطح بتاتے ہوئے امریکی فیصلے کا ممکنہ جواب دینے کا اعلان کیا۔ اسی دوران امریکی ایوان نے اسرائیل کے لیے26اَرب ڈالر کا ہنگامی امداد کا بل منظور کیا۔اس میں انسانی ضروریات کی9اَرب ڈالر کی رقم شامل ہے۔ غزہ جنگ کے بعد سے اسرائیل کی مالی اور فوجی امداد میں اضافہ کیا گیا۔دو مہینے قبل بھی اسی طرح کی امداد دی گئی تھی۔یہ کتنا مضحکہ خیز ہے کہ ایک طرف امریکہ صہیونیوں کی ہر طرح سے مدد کر رہا ہے، جب کہ دوسری جانب اسرائیلی دھماکوں میں فلسطینیوں کے ہوا میں اُڑتے جھلسے اجسام اور لاشوں کے انبار دکھائی نہیں دے رہے ہیں۔ اگر حماس اور حوثی یادیگر عسکری گروپ نے اسرائیل پر حملہ کیاتو بدلہ اسی گروپ سے لیا جانا چاہیے۔ غزہ کے شہریوں کا قتل عام کہاں کی بہادری ہے؟اسرائیلی خفیہ ایجنسیاں’موساد‘ اور ’شاباک‘،جن کا شمار دنیا کی اعلیٰ ترین ایجنسیوں میں ہوتا ہے، حماس کے حملہ کا پتا لگانے میں پوری طرح فیل ہوگئیں۔ اسرائیلی بمباری میں شہید فلسطینیوں کی تعداد34 ہزار سے تجاوز کر گئی،جب کہ زخمیوں کی تعداد 76ہزار سے زیادہ ہے۔
امریکہ نے اقوام متحدہ میں فلسطین کو مکمل رکنیت دینے کی تجویز کو ایک مرتبہ پھر ویٹو کردیا۔یہ تجویز اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل(یو این ایس سی) میں الجیریا نے پیش کی تھی۔اس میں کسی بھی قرارداد کو منظور کرنے کے لیے کم سے کم 9ارکان کی حمایت ضروری ہے۔15رکنی سلامتی کونسل میں فلسطین کے حق میں 12 ووٹ پڑے۔برطانیہ اور سوئٹزرلینڈ نے ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا،جب کہ امریکہ نے اپنی پاور کا استعمال کرتے ہوئے فلسطین کو دوسری مرتبہ مکمل رکنیت سے محروم کر دیا۔اس سے قبل 2011 میں یہی صورت حال پیش آئی تھی۔ خیال کیا جا رہا تھا کہ غزہ میں زبردست تباہی کے مدنظر امریکہ قرارداد کو ویٹو نہیں کرے گا، لیکن وہ اپنے موقف پر قائم رہا۔ اقوام متحدہ میں امریکہ کے نمائندے رابرٹ ووڈ نے کہا کہ امریکہ بھی دو ریاستی حل چاہتا ہے،لیکن اقوام متحدہ مکمل رکنیت دینے کی جگہ نہیں ہے۔فلسطین کو علیحدہ ملک کا درجہ دینے کا صحیح طریقہ اسرائیل اور فلسطین کے درمیان براہ راست مذاکرات ہیں۔ اسرائیل اور فلسطین کے درمیان براہ راست گفتگو کیسے ممکن ہے،جب کہ امریکی ویٹو کو اسرائیلی وزیر خارجہ اسرائیل کاٹس ایک شرمناک تجویز سے تعبیر کر رہے ہیں۔ فلسطین مملکت کا درجہ اور 1967کی حدود چاہتا ہے، جب کہ اسرائیل ایسا کرنے کو تیار نہیں ہے۔ فلسطین کو140سے زیادہ ممالک تسلیم کرچکے ہیں۔ بابیڈاس نے بھی حال ہی میں فلسطین کو ایک ریاست کے طور پر تسلیم کیا ہے۔ اس کے باوجود فلسطین کو ابھی تک اقوام متحدہ کا مکمل رکن نہیں بنایا جاسکا،جب کہ اسرائیل کو1947میں ہی اقوام متحدہ کی مستقل رکنیت مل گئی تھی۔فلسطین کو2012میں اقوام متحدہ کا غیر رکن ملک بنایا گیا۔ایسا ملک اقوام متحدہ میں اپنا نقطہ نظر تو پیش کر سکتا ہے،لیکن ووٹ نہیں ڈال سکتا۔ دوسرا غیررکنی ملک ویٹی کن سٹی ہے۔ دنیا میں مسلم اکثریت والے 57ممالک ہیں۔اسلام دنیا کا دوسرا بڑا اور تیزی سے پھیلنے والا مذہب ہے۔ مسلمانوں کی آبادی2اَرب سے تجاوز کرگئی ہے۔براعظم ایشیا اور افریقہ کے26 ممالک کا سرکاری مذہب اسلام ہے۔آبادی کے لحاظ سے تقریباً62فیصد مسلمان ایشیا میں رہتے ہیں۔ سب سے بڑے مسلم ملک انڈونیشیا میں12.7فیصد، پاکستان میں11 فیصد، ہندوستان میں 10.9 فیصد،بنگلہ دیش میں 9.2 فیصد اور عرب ممالک میں تقریباً20فیصد مسلمان رہتے ہیں۔ مشرقی وسطیٰ میں غیر عرب ممالک ترکیہ اور ازبکستان سب سے بڑے مسلم اکثریت والے ممالک ہیں۔افریقہ میں مصر اور نائیجیریا میں کثیر مسلم آبادی ہے۔ اسرائیل کے شمال میں لبنان، شمال مشرق میں شام، مشرق میں اردن اورمغربی کنارہ، مشرق اورجنوب مشرق میں فلسطین،جنوب میں مصر،خلیج عقبہ و بحیرہ احمر اور غزہ پٹی واقع ہیں۔اس کے باوجود اسلامی ممالک نے بیت المقدس اور قبلہ اول کی بازیابی کی ذمہ داری فلسطین پر ڈال رکھی ہے۔
فلسطینی صحافی جلال الفرا نے کسی ایک مسلمان کو نہیں، اُمت مسلمہ کے ہراُس فردکو،جوفلسطین کے لیے کچھ کرسکتا تھا اور نہیں کر پایا،رَب کی عدالت میںلا کھڑا کیا۔ نہ صرف عرب،بلکہ57 مسلم ممالک اور دنیا میں بسنے والے 2اَرب مسلمان بیت المقدس اور مسجد الاقصیٰ کے تحفظ کے لیے فلسطین کی مدد نہیں کر سکے۔یہ صحیح ہے کہ ہندوستان کے مسلمان چاہتے ہوئے بھی کچھ نہیں کرسکتے،لیکن ہر نماز میںاُن کے لیے دعا اور اسرائیل و امریکہ کی مصنوعات کا بائیکاٹ تو کرہی سکتے ہیں۔
(مضمون نگار سینئر صحافی اور اَدیب ہیں)
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS