لمحوں کی خطا، صدیوں کو سزا: صبیح احمد

0
OpIndia

صبیح احمد

لمحوں کی خطا کی سزا صدیوں کو بھگتنی پڑتی ہے! ملک و قوم کی یہی تاریخ رہی ہے۔ خاص طور پر سیاسی بساط پر کبھی کبھی ذرا سی چوک اتنی بھاری پڑتی ہے کہ اس کے ازالہ میں صدیاں لگ جاتی ہیں اور اس کا خمیازہ کئی نسلوں کو بھگتنا پڑتا ہے۔ موجودہ پارلیمانی انتخابات ہندوستانی تاریخ کا ایک اہم موڑ ثابت ہونے والے ہیں۔ یہ محض ممبران پارلیمنٹ کے انتخاب اور حکومت سازی تک ہی محدود نہیں ہیں، ان انتخابات کے بعد ملک و قوم کی قسمت کا فیصلہ بھی ہونے والا ہے۔ درحقیقت یہ نظریات کی جنگ ہے۔ ہندوستانی ووٹروں کو اگلی حکومت کی تشکیل کے ساتھ ساتھ اس بات کا بھی تعین کرنا ہے کہ ملک کس راہ پر چلے گا؟ رواداری، مذہبی ہم آہنگی، امن و شانتی اور عدم تشدد کے آزمودہ اصولوں پر یا منافرت، فرقہ پرستی، زور و جبر اور تشدد کے اصولوں پر؟

ویسے تو ملک کا ہر حلقہ، ہر شہری اور ان کے ووٹ انتخابی نقطہ نظر سے کافی اہمیت کے حامل ہیں لیکن کچھ حلقوں اور وہاں کے ووٹروں پر عصری تقاضوں کے تحت ذمہ داریاں بڑھ جاتی ہیں۔ انہی حلقوں میں سے ایک کشن گنج پارلیمانی حلقہ ہے جہاں 26 اپریل کو پولنگ ہونے والی ہے۔ بہار کا واحد مسلم اکثریتی حلقہ ہونے کے ساتھ ساتھ نیپال، بھوٹان اور بنگلہ دیش کی بین الاقوامی سرحدوں سے متصل ہونے کے سبب قومی سطح پر بھی یہ حلقہ تزویراتی طور پر کافی اہمیت رکھتا ہے۔ شمال مشرقی ریاستوں کے لیے واحد زمینی راستہ ہونے کی وجہ سے اسے ’گیٹ وے آف نارتھ ایسٹ‘ بھی کہا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس پورے سیمانچل خطہ پر ہمیشہ ایک خاص نظر رہتی ہے اور جب عام انتخابات ہوں تو تمام تر توجہ مرکوز ہونا فطری بات ہے۔ یہاں صرف امیدواروں کی ہار یا جیت نہیں ہوتی، یہاں سے ایک پیغام بھی جاتا ہے جسے قومی سطح پر سنجیدگی سے لیا جاتا ہے۔ کشن گنج کے ذی شعور ووٹروں نے اکثر اپنے ووٹ کا استعمال کرتے وقت دانشمندی اور سیاسی سوجھ بوجھ کا مظاہرہ کیا ہے۔ حالانکہ بعض دفعہ سیاسی بازیگری کے جال میں بھی پھنسے ہیں لیکن موقع ملتے ہی فوراً اس جال سے باہر نکل آئے ہیں۔

اس بار بھی کشن گنج کے عوام کو سخت امتحان سے گزرنا پڑ رہا ہے۔ اب جب کہ حق رائے دہی کا وقت قریب آ چکا ہے، یہاں کے ووٹرس اب بھی تذبذب کا شکار ہیں۔ یہ طے نہیں کر پا رہے ہیں کہ ووٹ کسے دیا جائے۔ ویسے تو کئی امیدوار اپنی قسمت آزما رہے ہیں لیکن المیہ یہ ہے کہ اس حلقہ میں کوئی بھی امیدوار لوگوں کی توقعات پر کھرا نہیں اتر رہا ہے۔ بہرحال انہی میں سے کسی ایک کو چننا ہے۔ یہاں کی روایت رہی ہے کہ پولنگ سے ایک دن قبل اتفاق رائے ہوتا ہے کہ ووٹ کس پارٹی یا امیدوار کو دیا جائے۔ اس بار بھی اسی حکمت عملی پر عمل آوری کی توقع ہے۔ حالانکہ سیاسی پارٹیاں تو وہی ہیں لیکن ان کے امیدوار لوگوں کی پسند کے مطابق نہیں ہیں، اس لیے ابھی تک شش وپنج کی کیفیت برقرار ہے۔ یہاں اس بار سہ رخی مقابلہ ہے۔ آل انڈیا مجلس اتحادالمسلمین کی جانب سے مضبوط امیدوار کو میدان میں اتارے جانے سے مقابلہ کافی دلچسپ ہوگیا ہے۔ عموماً کانگریس اور بی جے پی یا اس کے خیمہ (این ڈی اے) کے کسی امیدوار کے درمیان میں سے کسی امیدوار کو چننا ہوتا تھا لیکن اے آئی ایم آئی ایم کی مضبوط دعویداری سے لوگ مخمصے میں ہیں۔ حالانکہ لوگ تبدیلی کے خواہاں ہیں لیکن این ڈی اے کے امیدوار پر دائو لگانے کے لیے تیار نہیں ہیں کیونکہ ووٹ کا اثر صرف کسی پارٹی یا امیدوار کی ہار یا جیت تک ہی محدود نہیں ہوتا، یہ دیکھنا بھی ضروری ہوتا ہے کہ یہ ملک و قوم کے مفادات کے تحفظ میں کارگرثابت ہو سکتا ہے یا نقصاندہ۔اے آئی ایم آئی ایم کسی کے گلے نہیں اتر رہی ہے۔ اسی کشمکش کی صورتحال کے درمیان جو ماحول بن رہا ہے، اسے بھانپتے ہوئے پلٹو چچا کی ٹولی کے کچھ لوگ اقلیتوں کے ایک اہم ادارہ کے نام پر لوگوں کو گمراہ کرنے کی بھی کوشش کر رہے ہیں۔ حالانکہ مذکورہ ادارہ کے ایک اہم عہدیدار کی جانب سے وضاحت پیش کی جا چکی ہے کہ ادارہ کی جانب سے کبھی بھی کسی کی حمایت یا مخالفت نہیں کی جاتی ہے اور نہ ہی اس بار کی گئی ہے۔ پہلے مرحلہ کی پولنگ کے بعد ہوا کے رخ کو دیکھتے ہوئے منافرت کی سیاست کے علمبردار تو اب کھل کر سامنے آنے لگے ہیں اور انہوں نے اپنا اصلی روپ دکھانا شروع کر دیا ہے۔

بہرحال ہر بار کی طرح اس دفعہ بھی کشن گنج کے عوام اپنی دانشمندانہ فہم کا ثبوت دیتے ہوئے صحیح فیصلہ کریں گے اور خطہ میں امن و سکون اور رواداری کے ماحول کو خراب کرنے کا کسی کو بھی موقع نہیں دیں گے۔ منافرتی ٹولے کے امیدواروں سے کسی کو کوئی ذاتی رنجش نہیں ہے لیکن وہ جس ’کشتی‘ پر سوار ہو کر قوم کو پار لگانے کی بات کرتے ہیں، وہ کشتی سیاسی بحر میں انتہائی ’فرسودہ‘ ہو چکی ہے۔ قابل توجہ بات یہ ہے کہ ایک امیدوار بطور ایم ایل اے 2 بار بہار اسمبلی میں علاقہ کی نمائندگی کرچکا ہے لیکن اس دوران ان کی کارکردگی سب کے سامنے ہے۔ اپنی تقریروں کے زور پر انہوں نے کون سی اسکیم یا فلاحی منصوبہ علاقے کو دیا؟ وہ ’گفتار کے غازی‘ ہو سکتے ہیں لیکن کشن گنج کو ’کردار کا غازی‘ چاہیے کیونکہ اس حلقہ کو اس طرح کے ’غازیوں‘ کا تلخ تجربہ رہا ہے جسے یہاں کے عوام ابھی تک شاید نہیں بھول پائے ہوں گے۔ سید شہاب الدین اور ایم جے اکبر جیسی شخصیتوں نے بھی اس علاقہ کے مسائل اور دکھ درد کی گونج سے پارلیمنٹ کو ہلا دینے کے حسین خواب دکھائے تھے۔ یہاں کے سادہ لوح عوام ان کی باتوں پر بھروسہ کیسے نہیں کرتے کیونکہ یہ وہ زمانہ تھا جب ان شخصیتوں کی صرف ہندوستان میں ہی نہیں، عالمی سطح پر بھی طوطی بولتی تھی۔ نتیجہ کیا نکلا؟ فریب اور مایوسی کے سوائے کچھ بھی نہیں۔ اتنا ضرور ہوا کہ ان ’ہستیوں‘ کو ممبران پارلیمنٹ کی فہرست میں جگہ مل گئی۔ اس کے بعدپھر ملک کے کسی اور حلقہ سے وہ الیکشن لڑنے کی جرأت نہیں کر سکے۔ کشن گنج حلقہ ان کے لیے پارلیمنٹ کا ’دروازہ‘ ثابت ہوا۔ مسلم اکثریتی حلقہ ہونے کے سبب کچھ لوگ کشن گنج کو پارلیمنٹ تک پہنچنے کا ایک آسان راستہ سمجھتے ہیں۔ دینی و ملی اخوت کے حوالے سے گمراہ کرکے اپنے ذاتی مفادات پورے کرتے ہیں۔ یہاں کے لوگوں نے اب وہ ’دروازہ‘ بند کر دیا ہے جو سیدھے پارلیمنٹ تک پہنچاتا ہے۔ ایسا ہرگز نہیں ہے کہ کشن گنج کے عوام کسی کے خلاف ہیں۔ ایک جمہوری ملک ہونے کے ناطے کوئی بھی شہری ملک کے کسی بھی حصہ سے الیکشن لڑسکتا ہے لیکن گمراہی پھیلانے کی اجازت قطعی نہیں دی جانی چاہیے۔

اب فیصلہ کشن گنج پارلیمانی حلقہ کے عوام کے ہاتھوں میں ہے۔ وہ آئندہ 5 سال کے لیے اپنی نمائندگی کا حق کسے دیں گے، اس کا تعین تو 26 اپریل کو ہوگا لیکن نتیجہ 4؍جون کو سامنے آئے گا۔ اسی دن کشن گنج کے عوام کی سیاسی فہم اور دانشمندی کا بھی ثبوت مل جائے گا کہ انہیں مکر و فریب اور مایوسی چاہیے یا خطہ کی خصوصی شناخت رواداری اور امن و چین اور سکون۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS