مفتی محمد ارشد فاروقی
عاشقان پاک طینت، الوہیت کا اقرار لا الہ الا اللہ پڑھ کر کرتے ہی گرویدہ الہ ہو جاتے ہیں، یہ اقرار عبدیت ان کی پوری حیات کو اپنے جلو میں لیے ہوئے ہوتا ہے، ان کے سامنے اب صرف ایک ہی حکم خدا کا چلتا ہے، وہ ارشادات خداوند ی، محبوب سبحانی کے فرامین کی روشنی کے ہمہ وقت منتظر رہتے ہیں اور’’ ان الحکم الا للہ‘‘ آرڈر تو بس اللہ ہی کا ہے اس کا وہ ہر وقت معترف رہتے ہیں، جب وہ اظہار عبدیت پنج وقتہ نمازوں میں کرتے ہیں تو پابند حکم الٰہی ہو کر رہ جاتے ہیں، کبھی ہاتھ اٹھا کر تمام احکام غیر کی نفی کرتے ہیں، اعلان کبریائی کرتے ہیں، سیدھے کھڑے رہتے ہیں، تعریف و ثنا خوانی، بڑی خوش الحانی سے کرتے ہیں، عبادت صرف رب کائنات ہی کے کرنے کا عہد و پیمان کرتے ہیں، مدد و نصرت کے لیے اسی کوکافی مانتے ہیں پھر اعلان برتری اسی کی کرتے ہوئے جھکے جھکے، عظمت کا چپکے چپکے اقرار کرتے ہیں ،پھر ان راز و نیاز کی مناجات کو سننے کا یقین رکھتے ہیں اور جب بے چینی بڑھتی ہے توجبین نیاز جھکاتے ہیں وچہرہ و بینی خاک آلود کرتے ہیں، سجدہ ریز ہو کر اعلان کبریائی و برتری کرتے ہیں، رحمن کے قدموں میں پڑ جاتے ہیں اور قربت و نزدیکی کے وہ مقامات ڈھونڈتے ہیں جن کی کوئی انتہا نہیں ہوتی۔
اس اثنا میں کھانا پینا حرام، بات چیت ممنوع کسی اور کا خیال مذموم، اس کا التزام روزانہ پانچ اوقات میں پابند عہد وفا کرتے ہیں، جب ان سے کہا جاتا ہے کہ وہ پسندیدہ مال راہ خدا میں خرچ کریں وہ دولت کا متعینہ و مطلوبہ حصہ لٹانے لگتے ہیں، ضرورت مندوں کی ضرورتیں پوری کرتے ہیں ان کے درد کا مداوا کرنے میں لگ جاتے ہیں، جب ان عاشقان اخوان کو بتایا جاتا ہے کہ پورے دن کے لیے حلال پاکیزہ کھانا، کھانا بند کر دیں، ٹھنڈا پانی پینا روک دیں، خوبصورت بیوی کو دور رکھیں اور پورے مہینے کا روزہ رکھ کر سوز عشق و محبت الٰہی میں گنا در گنااضافہ کریں توانہی عاشقوں پاکبازوں میں سے ایک گروہ کا سوز دروں جب سوا ہوتا ہے تو وہ پروانوں کی طرح مت والے محبوب کے گھر میں آ کر پڑ جاتے ہیں۔ دنیا کی تمام رونقوں، زینتوں آسائشوں بیوی کی قربتوں کو چھوڑ کر دنیا سے کٹ کر رب کی چوکھٹ پر پڑ جاتے ہیں اور جب تک ایوارڈ تقسیم ہونے کا اعلان یعنی ہلا ل عید نہیں ہو جاتا اس پاک در سے ہٹتے نہیں۔ انہیں باعزت رخصت کیا جاتا ہے رمضان کی بیسویں تاریخ کی شام آتے ہی دنیا کی تمام مساجد کی طرف اللہ سے محبت رکھنے والوں کا ایک قافلہ کشاں کشاں ساز و سامان لیے رخت سفر باندھے بڑھنے لگتا ہے، وہ اللہ کے رنگ میں رنگ جانا چاہتا ہے۔ والذین امنو اشدحباللہ کی تصویر بن جاتا ہے۔
انہیں اپنے گھر میں بھی چین نہیں ملتا ہے
رفیق حیات کی ہم نشینی بھی گوارا نہیں ہوتی اور دل ہر چیز سے اکتا جاتا ہے ایک وقت ایسا بھی آتا ہے کہ وہ اب وہ فدویانہ جذبات سے مغلوب ،محبانہ روح سے مجبور ہو کر،،ففروا الی اللہ ہوجاتا ہے ۔وانتم عاکفون فی المساجد یہ تو اصطلاح میں اعتکاف کہلاتا ہے۔ اللہ تعالی نے سیدنا ابراہیم اور اسماعیل علیہما السلام کو بیت اللہ کی تعمیر و تطہیر کا حکم دیاتاکہ طواف و اعتکاف کرنے والوں کو راحت پہنچے طھرابیتی للطائفین والعاکفین ،،بیت اللہ ،،تمام مساجد عالم کا مرکز ہے، غیر مرئی طور پر تمام مساجد، بیت اللہ سے منسلک ہیں، بیت اللہ پاور ہاؤس ہے، تمام مسجدوں کو اس سے بجلی سپلائی ہوتی ہے ،بیت اللہ مسجد حرام میں شائقین عبادت و ریاضت میں اعتکاف کرتے ہیں جہاں بیشتر انبیاء کا گزر ہوا، حرم ثانی مسجد نبوی میں خود عبدیت کے اعلیٰ ترین مقام پر فائز محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے 9رمضان کے آخری عشرے میں اعتکاف فرمایا
ایک رمضان میں اعتکاف نہیں فرمایا تو دوسرے اور آخری رمضان میں 20 روزے کو اعتکاف فرمایا۔
اعتکاف اور عکف کے لغوی معنی تو کسی جگہ اپنے مقصد و ارادے سے رکے رہنے کے آتے ہیں شرعی معنی اعتکاف کے یہ ہیں کہ اللہ کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے اللہ کے گھر میں رکنا، اس اعتبار سے اعتکاف کبھی واجب ہوتا ہے کبھی سنت تو کبھی نفل، نفلی اعتکاف تو آپ مسجد میں جب داخل ہوں تو اعتکاف کی نیت کر لیں، نفلی اعتکاف کا ثواب ملے گا ۔واجب اس وقت ہوتا ہے جب آپ اعتکاف کی نظر مان لیں یا اعتکاف شروع کر کے توڑ دیں، اعتکاف سنت رمضان مبارک کے آخری عشرے میں ہوتا ہے، ایسی مسجد میں جس میں نماز پنجگانہ باضابطہ ہوتی ہو۔ ہر مسجد کے نمازیوں کے لیے اعتکاف سنت موکدہ علی الکفایہ ہے کہ ان میں سے کوئی ایک اعتکاف کر لے تو سب کی طرف سے کفایت کرے ،ورنہ ترک سنت کے سب شکار ہوں گے ۔
ابن عمر سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان کے آخری عشرے میں اعتکاف فرماتے تھے( بخاری و مسلم)
ام المومنین سیدہ عائشہؓ سے روایت ہے کہ بے شک نبی صلی اللہ علیہ وسلم رمضان کے آخری عشرے میں تا دم حیات اعتکاف فرماتے رہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات اعتکاف فرماتی رہیں (بخاری و مسلم )
حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہر رمضان میں ایک عشرے کا اعتکاف فرماتے تھے جس سال رحلت ہوئی اس سال میں 20 دن کا اعتکاف فرمایا (بخاری) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول رمضان کے آخری عشرے کے اعتکاف کا تھا البتہ جس سال رحلت ہوئی اس سال آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے 20 روز کا اعتکاف فرمایا جو درحقیقت ایک عشرہ بطور قضا اور ایک بطور ادا تھا ۔ اس لیے سنت آخری عشرے ہی کا اعتکاف ہے ۔
البتہ ہمارے زمانے اور ہم سے کچھ پہلے بہت سے بزرگوں کا معمول رہا ہے کہ ایک مہینے کا اعتکاف کرتے پورا رمضان معتکف رہتے
تو آخری عشرہ بطور سنت اور دو عشرے بطور نفل وہ اعتکاف کرتے اور مقصد معتقدین وہ متوسلین کی اصلاح و تربیت ہوتی جو ملک کے اطراف و اکناف سے آکر ان کے یہاں جمع ہو جاتے اس طرح یہ اکابر تربیتی کیمپ لگاتے اور رمضان کی فضیلتوں برکتوں، رحمتوں اور مغفرتوں کے نورانی ماحول میں اصلاح و ارشاد کا عظیم کام انجام دیتے چونکہ ان آنے والوں کو بھی رمضان ہی میں بہترین موقع میسر آتا ،عاشقوں کے کارواں مساجد عالم میں خیمہ زن ہیں ان کے دن روزے سے مامور ہیں، ان کے روزوں اور غیروں کے روزوں میں بڑا فرق ہے، ان کے روزے بازاروں تفریح گاہوں کی رونقوں سے بہت دور لغوو بیہودہ باتوں سے محفوظ، غیبت و چغل خوری سے بچے، دشنام طرازی اور لڑائی سے وہ متنفر، بس ان کے روزے پاکیزہ ،ان کے روزے اللہ ہی کے لیے، ان کے روزے فرمان نبیؐ کے مصداق، جس نے ایمان و یقین اور ثواب کی امید کے ساتھ رمضان کے روزے رکھے اس کے پچھلے گناہ بخش دیے جاتے ہیں( بخاری و مسلم)
ان کی راتیں عبادت و ریاضت نماز تراویح، تہجدو قیام لیل اور استغفار و انابت ال اللہ میں گزرتی ہیں۔
دو پل سوتے نہیں کہ اٹھ پڑے اور لگ گئے محبوب مشغلے ذکر محبوب میں، ان عاشقوں معتکفوں کے سامنے ایک ہی مقصد ہے رضائے الہی کا حصول اور نجات کا پروانہ چاہیے، وہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بتائے ہوئے طریقے سے سر موانحراف نہیں کرتے، سنت کے متبع ہوجاتے ہیں، ان فدائیوں کو یقین ہے کہ فرمان رسالتؐ ہے کہ آخری عشرے میں شب قدر ڈھونڈو، طاق راتوں میں ڈھونڈو اس لیے کہ یہ قافلہ ہوش مند، گوہر نایاب، شب قدر کی فضیلتیں پانے کے لیے بے تاب ہیں کیونکہ شب قدر ہزار مہینے سے بہتر ہے اور اعتکاف کی بڑی حکمت بھی یہی ہے کہ شب قدر کا اہتمام نصیب ہو جائے ۔
رمضان المبارک قرآن کریم کا مہینہ ہے اور قرآن شب قدر میں اترا اس لیے رمضان کے ساتھ شب قدر کی اہمیت دو بالا ہوئی معتکف اسی شب قدر کا اہتمام کرتا ہے، جس میں قرآن کا نزول ہوا گویا قرآن کے نزول کا قدرداں ، قدردانی کے اظہار کے لیے اعتکاف کرتا ہے۔
اعتکاف کی حالت میں ہر طرف سے رخ موڑ کر صرف کتاب اللہ کی تلاوت غور و تدبر میں لگا رہتا ہے، کتاب ہدایت میں دنیا کے لیے رہنمائی ڈھونڈتا ہے اور پورے اعتکاف میں قرآنی تعلیمات سے یہ معتکفین اپنے قلوب منور کرنے کے بعد باہر کی دنیا کے لیے رہنمائی کا عزم لے کر نکلتے ہیں یہ ہے،، اعتکاف،،
اعتکاف: در جاناں پہ پڑ جانا
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS