عدل و انصاف ہندوازم کے حوالے سے

0

ڈاکٹر ریحان اختر
سماجی انصاف سے مراد یہ ہے کہ کسی بھی سماج میں وسائل استحقاق اور مواقع کی برابر تقسیم اس سماج میں رہنے والے لوگوں کے درمیان کی جائے۔ اسی کو ساجی انصاف کہتے ہیںاور ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ سماجی انصاف کا تعلق کسی مذہب سے نہیں ہے بلکہ اس کا سیدھا سیدھا تعلق انسان سے ہے، جو کہ کسی سماج کا حصہ ہے، خواہ اس انسان کا تعلق کسی بھی مذہب سے ہو، کیونکہ سماج کی تشکیل انسانوں کے ذریعہ ہی ہوتی ہے۔ اس پر لوگوں کی مختلف رائے ہو سکتی ہے لیکن میری ذاتی رائے یہی ہے کہ سماجی انصاف کا تعلق انسانوں سے ہے جس کی تمام زندگی سماج کے ارد گر د ھوتی رہتی ہے۔
ہندوستان کی آزادی کے بعد ہندو مذہب کے ماننے والوں نے سماجی انصاف میں کافی دلچسپی دکھائی ہے۔ قدیم زمانہ میں یہ چیزیں صرف برہمن کے لئے خاص تھی۔ ہندو مذہب یک طبقاتی درجہ بندی (ـCast System) میں جو لوگ سب سے اوپر تھے وہی لوگ سماج میں موجود وسائل اور مواقع کا فائدہ اٹھا پاتے تھے۔ ہندوئوں کا ماننا ہے کہ خدا ہر جاندار چیزوں میں موجود ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ’’ ‘‘One in all and all in oneاور یہ ہندو مذہب کی ایک آئٹ سچائی ہے۔ اسی طرح’’Vasudeva Kutumskan‘‘ یہ ایک بہت ہی اہم اور بنیادی نظریہ تھا ہندو ازم کا وہ یہ کہ تمام عالم کو ایک خاندان کی طرح دیکھا جاتا ہے اور تمام جانداروں کو جس میں انسان، حیوانات، نباتات شامل ہیں، متبرک سمجھا جاتا تھا۔ یہ ہندوئوں کا اہم اور بنیادی نظریہ رہا ہے۔ اس نظریہ کا اثر تمام زندگیوں اور اس وقت کے ہندو راجائوں پر تھا۔ راما ، ہندور اما کو ایک مثالی راجہ سمجھتے تھے اور رام اپنی سمجھ سے جو اچھا سمجھتا وہ کرتا تھا۔
ہندو ان کے راج کو رام راج یعنی مثالی خدا کی حکومت قرار دیتے تھے۔ رام راج دھرم پر بنی ہے جو راست بازی، انصاف پرستی ، دوسروں کے حقوق کا پاسدار ہے، اور ہندو دھرم میں صدیوں سے سیاست اور سماج میں دھرم کا بہت بڑا کردار رہا ہے، اور دھرم کمزوروں ، بے بسوں کے لئے سہارا بنا ہے۔ اسی طرح مایا اور کرم ہندو ازم کا بہت بنیادی حصہ ہے۔ عام لفظوں میں ’’ مایا‘‘ کا مطلب یہ کہ اگر کا ئنات فریب ہے تو خدا حقیقت ہے اس وجہ سے ’’مایا‘‘ سے بچا جاتا ہے اور کرم میں لگا جاتا ہے۔ کوئی کہے کہ و دنیا سے منہ موڑ لو، دنیا کو چھوڑ دو اور اپنے آپ کو خدا کے آگے سرتسلیم خم کر دو، تو اس نظریہ کے مطابق سماجی انصاف غیرمتعلق موضوع ہو جاتا ہے کیونکہ جب سماج سے کوئی تعلق ہی نہیں تو سماجی انصاف کہاں سے عمل میں آئے گا۔
اور کرم کا مفہوم یہ ہے کہ انسان جن تکالیف کا سامنا کرتا ہے وہ اس کے ماضی کے افعال کا نتیجہ ہوتا ہے اور زمانہ حال کی موجودہ حالت کا ذمہ دار خود ہی ہے۔ اس کے لئے دوسروں کو ذمہ دار نہیں ٹھہر ایا جا سکتا ہے تو زمانہ حال میں جو بھی نا برابری بظاہر دکھ رہی ہے اسے وہ برداشت کرے۔ اس سیاق میں سماجی انصاف ایک رحم دل ہنرم دلی ، احسان و خیرات جیسی صفت کا نام ہوگا، لیکن اس صورت میں وہ ضرورت مندوں کی مدد نہیں کر پا رہا ہے اور خود دوسری طرف نیکیاں کر رہا ہے تو یہ اس کا ذاتی فائدہ ہے اور دوسروں کی ضرورت پوری کرنا یا دیکھنا یہ سماجی انصاف اور سماجی فائدہ ہے۔
ہندو طبقاتی درجہ بندی ( Cast System) مذکورہ نظریہ پر ہے اگر وہ نچلے طبقہ سے تعلق رکھتا ہے تو یہ اس کی حالیہ حالت ہے اس سے اس کو دل برداشتہ نہیں ہونا چاہئے۔ نچلے طبقہ سے ہونا یہ اس کے اپنے کرتوت کا مکمل انجام ہے اور اگر وہ اپنا مستقبل مزید د خوشگوار رکھنا چاہتا ہے تو حال میں اچھے اچھے کرم کرے، سماجی نابرابری کا علاج صرف کرم ہے۔صدیوں سے کئی مصلحین آئے جو ہندو سماج کی اصلاح چاہتے تھے لیکن ہر کس کو محدود کامیابی ملی۔ در حقیقت ہندوستان میں مسلم ، سکھ، عیسائی کرم کے جبری سوچ میں ملوث ہیں اور یہ سماجی طبقاتی نظام کو ہی ساری برائیوں اورسماجی نا انصافیوں کی جڑمانتے ہیں۔
ڈاکٹر روبیلا ریٹائرڈ نیوروسائیکولجسٹ اسکالر نے ایک اخبار(ISMA TIMEUSA) میں 30 نومبر 2017 کے شمارہ میں اپنے ایک آرٹیکل ’’ہندو مذہب اور سماجی انصاف ‘‘ میں جو کہا ہے اس کا خلاصہ یہ ہے : وہ لکھتے ہیں کہ ہندو مذہب میں طبقاتی نظام یعنی ’’ Cast System کرم کا نتیجہ ہے، یعنی اگر کوئی ’’Lower Cast‘‘میں پیدا ہوا ہے تو وہ ضرور کوئی اوچھی حرکت کسی جنم میں یعنی ماضی میں کیا تھا جس کی وجہ سے وہ Lower Cast میں پیدا ہوا۔ یعنی اسCast System کو دل سے قبول کرنا چاہئے اور اسے اچھے کام کو خوش دلی سے کرتے رہنا چاہیے اور جو لوگ ہندو مذہب میں سماجی نا انصافی ’Social Inequality’‘‘کی جڑ طبقاتی نظام ’’ـCast System‘‘کو مانتے ہیں، وہ ڈاکٹر روبیلا کے نزدیک غلط کرتے ہیں۔ جبکہ تمام عقلی دلائل دیکھتے ہوئے یہ کہا جاسکتا ہے کہ جب تک ہندو مذہب میں Cast system ہو گا تب تک ہندو سماج میں سماجی انصاف نا ممکن و محال ہے۔اسی طرح پروفیسر ڈ ی بی چودھری نے اپنے ایک آرٹیکل میں لکھا ہے کہ سنسکرت لفظ دھرم کا درست طریقے سے کوئی ترجمہ نہیں کیا جاسکتا ہے اس لفظ کا آسان سا مطلب یہ ہے کہ ایک دوسرے کے ساتھی مل کر رہو۔ یہ لفظ ہندو فلسفہ دھرما کے چھ نظاموں میں سے بہت سے معانی کا احاطہ کرتا ہے۔ دھرما بطور اخلاقیات ، دھرما بطور قانون ’’ دھرمابطور ذمہ داری ، اور دھرما بطور مذہب ، ایک معاشرے میں اچھی زندگی کی بنیاد رکھنے کے لئے یہ چیزیں ضروری ہیں۔ یہ باہمی تقویت ہے۔
پروشارتھا (Purushartha)
ہندو مذہب کے چار انسانی زندگی کے مقصد:
دھرما (Dharma) اخلاقیات اور اخلاقی خصائل۔
آرتھا (Artha) مواد کا تعاقب۔
کاما (Kama) لطف اندوزی۔
مو کشا (Moksha) سچائی کا احساس۔
یہ مذکورہ بالا چار چیزیں ہندومت میں انسانی زندگی کے لئے خاص ہیں۔
پروفیسر ڈی بی چودھری اپنشد کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ اپنیشد کے اقتباس کے حوالہ سے پتہ چلتا ہے کہ پر جاتی کی تین قسم کی اولاد تھی ، ان کی تعلیم کی تکمیل پر ان کے لئے ان کی آخری ہدایت ایک لفظ ” دا (Da) میں آکر رکی۔ پر جایتی نے ہر ایک سے پوچھا کہ اس کا کیا مطلب ہے۔ ان میں سے جو سب سے عقل مند تھا اس نے کہا ’’ داما (Dama) خود پر قابو پانا Control) (yourself ، اس کے بعد والے نے کہا ’’ دانا (Dana) صدقہ کرنا یا دان کرنا (Give, be charilable)آخر والے نے کہا دیا (Daya) دردمندی (Be Compassionate)۔
اس کے بعد ڈی بی چودھری بھگوت گیتا کے حوالے سے لکھتے ہیں:
دنیا کی فلاح و بہبود کے لئے مسلسل کوشش کریں، بے لوث کام کی عقیدت ہی تو زندگی کا اعلیٰ مقصد ہے۔ دوسروں کی فلاح وبہبود کے ساتھ کام کرتے رہے یہ بات آپ کے ذہن میں ہمیشہ ہونی چاہئے۔ ہندو مذہب کی مقدس کتابوں کے مطالعے سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ اخلاقیات اور اخلاقی خصائل سے متعلق بہت سی تعلیمات ملتی ہیں لیکن سماجی انصاف کے سلسلے میں بہت ہی کم تعلیمات ملی ہوں گی کیونکہ ہندوئوں کا نظریہ ہی معاشرے سے ہٹ کر ہے۔ ہندومت کا طبقاتی درجہ بندی کا جو نظریہ ہے یا یوں کہے کہ ان کا بنیادی عقیدہ ہے جس کی وجہ سے آج بھی نچلے طبقہ کے لوگوں کے ساتھ نا انصافی ہورہی ہے، آج بھی برہمن طبقہ کے لوگ اپنے سے نچلے طبقے کے لوگوں کے ساتھ زیادتی کر رہے ہیں ان کا سماجی استحصال کیا جا رہا ہے یہی وجہ ہے کہ ڈاکٹر امبیڈ کر صاحب بھی چاہتے تھے کہ طبقاتی نظام کو ختم کیا جائے ، وہ اس نظام کو مٹانا چاہتے تھے تا کہ سماجی انصاف کو جگہ ملے ، سماج میں لوگوں کو ایک نظر سے دیکھا جائے اور سماجی وسائل کی برابر تقسیم ہو، ذات پات کا کوئی مسئلہ ہی نہ رہے۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS