غیاث الدین دھام پوری
ہر بارراقم الحروف سوچتاہے کہ اس بارکس موضو ع پرطبع آزمائی کی جائے۔لیکن غزہ کی جنگ کے بعد ہمیں وہاں جاں بلب بلکتے سسکتے تڑپتے اوربوجہ بھوک شکم پر پتھر باندھے(یعنی یہ مبارک سنت بھی اہل غزہ ہی کے حصے میں آئی ہے) گھاس کھاتے،پانی چاٹتے بچوںکی دل دوز ویڈیوز اورآٹے کی وصولی کیلئے جمع فلسطینیوں پر درندوں کی برستی تابڑتوڑ گولیاں اور لگاتار میّتوں کے خون میں لتھڑے ہوئے یومیہ تازہ جنازے وتراشے ،خون میں نہلائے ہوئے ننھے لاشے اور زندہ درگور ہونے والے بچوں کی تصاویر و دیگردل خراش مناظردیکھنے کے بعدبجز اس کے دیگر کوئی موضوع ہمیں اہم لگتا ہی نہیں۔
غزہ قتل عام پر سب سے حقیقت پسندانہ اور انتہائی دردناک کہانی ایک فلسطینی بچی کی ہے،جس سے کسی صحافی نے پوچھاکہ ’’غزہ کہاں واقع ہے؟‘‘
تو ایک9 سالہ فلسطینی بچی نے جواب دیاکہ ’’آدھا غزہ جنت میں اور باقی زخمیوں سے چورصحرائے سینائی کے جنوب میں بحیرۂ روم کے کنارے ایڑیاں رگڑ رہا ہے۔‘‘
ناجائز صہیونی ریاست اسرائیل کی جانب سے غزہ کی محدود محصورپٹی پرآتش وآہن کی موسلادھاربارش ہوتے ہوئے ڈیڑھ سو دن مکمل ہوگئے ہیں۔ گزشتہ سال 7اکتوبر کونسل کشی کایہ سلسلہ شروع ہواتھااوراب چھٹے مہینے میں یہ جنگ داخل ہوگئی ہے۔تاہم ابھی تک فضا، سمندر اور زمین ہرطرف سے اہل غزہ پرآتش وآہن کی برسات جاری ہے۔ گرچہ یہ بربریت خو دصہیونی ریاست کوبھی مہنگی پڑرہی ہے، اسرائیل کے مرکزی ادارہ ٔشماریات کی رپورٹ کے مطابق گزشتہ تین ماہ کے اندر قومی معیشت 20فیصد سکڑگئی ہے۔ صہیونی اخبارات یدیعوت احرونوت کاکہناہے کہ دجالی فوج اپنے بھاری نقصان اورہزاروں نئی فوری بھرتیوں کی درخواست کی وجہ سے گہرے صدمے میں ہے، نیز بڑھتے ہوئے جانی نقصان، سپاہیوںکی معذوری، کسادبازاری، مزدوروںکی طرف سے ہڑتال کی دھمکی اور 25فروری کوتل ابیب میں ہوئے اشتعال انگیز مظاہروںسے اسرائیلی وزیراعظم بنیامن نیتن یاہو دبائو میں تو ہے لیکن اس کی چوٹ کھائی ہوئی انااتنی آسانی سے ہتھیارڈالتی نظرنہیں آتی؟
ایک اسرائیلی اخبارنے غزہ کی جنگ میں قابض فوج کے نقصانات کے بارے میں ایک چونکادینے والی رپورٹ شائع کی،جس میں کہاگیاکہ زخمی ہونے والے فوجیوںکی تعداد تقریباً5000تک پہنچ گئی ہے،جن میں کم از کم 2ہزار معذورہوگئے ہیں ،لیکن حسب سابق دلچسپ با ت یہ ہے کہ اس رپورٹ کو ویب سائٹ پر جاری کرنے کے کچھ ہی دیر بعد اخبارنے واپس لے لیااور شائع شدہ تعداد میں کمی کرکے دوبارہ جاری کردیا۔ یہ صہیونی مکاری کی ایک ادنیٰ مثال ہے۔
آہ! مظلوم فلسطینیوں پرڈھائے جانے والے ظلم وستم اور بربریت کوباربارکس دل گردے سے لکھا جائے اورکس طرح قلم کوجنبش دی جائے۔ مظلومین کی بعض ویڈیو دیکھ کرآنکھیں نم ہوجاتی ہیں کہ یا اللہ تو نے ان بہادروں کو کس مٹی سے بنایاہے جوبھوک پیاس ،گولی اوربم بارود سے شہید تو ہونا پسند کررہے ہیں مگر اپنا وطن اور مسجد اقصیٰ چھوڑنا منظور نہیں کررہے ہیں۔
غزہ خونریزی کوجنگ کہناغلط ہے،یہ جنگ نہیں نسل کشی ہے،یہ درحقیقت جدید ہتھیاروں سے لیس،منظم فوج کا عورتوں اور بچوں پر حملہ ہے۔ تاریخ میں ایسا کبھی نہیں ہوا سوائے ایک مرتبہ کے کہ جب ہٹلرنے یہودیوں کومارنے کافیصلہ کیاتھا۔غزہ کے بعد اب بیت المقدس سے لہو کی مہک محسوس ہورہی ہے اورڈرہے کہ رمضان میں مسجد اقصیٰ میدان کربلاکامنظرپیش کرے گی۔ اسرائیلی اخبارات کے مطابق رمضان کے دوران فلسطینیوں کے القدس شریف میں داخلے محدود کرنے کے اقداما ت کی نیتن یاہو نے منظوری دے دی ہے۔منصوبے کے مطابق پہلی تراویح سے اتنے ہی لوگوں کو کمپائونڈ میںآنے کی اجازت دی جائے گی جتنے مسجد اقصیٰ کے اندر سماسکیں، دالان میں صفیں بنانے کی ممانعت ہوگی۔ القدس شریف کے مختلف دروازوں خاص طورسے باب دمشق پر سحر و افطارکے لیے اشیائے خوردونوش کے جواسٹال لگائے جاتے ہیں، ان کی اجازت بھی منسوخ ہوگی۔
واضح ہوکہ مسجد اقصیٰ کے معاملے میں فلسطینی حد درجہ حساس ہیں۔گزشتہ70سال سے وہ مسجد اقصیٰ کی بازیابی کی خاطر اپنی زندگیاں دائو پر لگائے ہوئے ہیں ۔بہرحال رمضان القدس میں تباہ کن انسانی صورتحال مزید خراب ہوسکتی ہے، اس لیے فلسطینیوں کو رمضان المبارک میں خصوصی دعائوں میںیاد رکھیں ۔
[email protected]