سیاست کے زیراثر عدلیہ!

0

مضبوط آئینی جمہوریت کیلئے آزاد عدلیہ کی ضرورت ہوتی ہے۔آزاد عدلیہ ایسی عدالت ہوتی ہے جس پر کسی طرح کا دبائو نہ ہو،نہ اس پر مقننہ اثرانداز ہوتی ہو اور نہ انتظامیہ دخیل، نہ سماج کی جانب سے کوئی دبائو ہوتا ہو اور نہ وہ سیاسی تسلط قبول کرتی ہو۔اس عدالت میں مسند انصاف پر فروکش منصف نہ کسی ترغیب سے متاثر ہوتا ہے اور نہ لالچ، خوف اور مستقبل کے اندیشے و امکانات ہی اس کے فیصلے پر اثرانداز ہوتے ہوں۔ منصف کا صرف فیصلہ ہی نہیں بلکہ فیصلہ سازی کا پورا عمل سماجی و سیاسی دبائو اورسیاسی، لسانی، علاقائی، مذہبی ہر طرح کے تعصبات سے پاک شفافیت، دیانتداری اور غیر جانبداری کا شاہکار بن کر انصاف کا سر بلند کرتا ہے۔
لیکن آج کی عدلیہ اس معیار سے بالکل ہی مختلف اور ’آزاد عدلیہ‘ کی مسلمہ تعریف کے دائرہ سے خارج ہورہی ہے۔ نچلی اور ماتحت عدالتوں کوتو چھوڑیئے اعلیٰ عدلیہ کو بھی کلیتاً اس دائرہ میں نہیں رکھاجاسکتا ہے۔ریاستوں کے ہائی کورٹ سے لے کر سپریم کورٹ تک نے حالیہ دنوں درجنوں ایسے فیصلے دیے، جنہیں وقت کا مورخ ملک کی تاریخ عدل و انصاف کے صفحات پر ’ ایک داغ‘ لکھے گا۔ایسے فیصلوں کے کیااثرات ہوئے اس سے قطع نظر ایسے فیصلے سنانے والے منصفان ذی شان پر حکومت کی فیاضی بہت سی ان کہی کہانیوں کا عنوان بن جاتی ہے۔ابھی ایک ماہ قبل ہی بنارس کی جامع مسجد گیان واپی میں پوجا کے حق میں فیصلہ سناکر سبکدوش ہونے والے اجئے کرشن ویویش کو اگلے ہی دن لوک پال مقرر کردیاگیا۔اس سے قبل طلاق ثلاثہ اور حق رازداری جیسے معاملات کو ’ فیصل ‘ کرنے والی سپریم کورٹ کی کثیر نفری بنچوں میں شامل فاضل جج صاحبان میں سے کسی کو کہیں گورنر لگایا گیا توکوئی کسی کمیشن کا سربراہ مقرر کردیاگیا۔ بابری مسجد کی شہادت، رافیل جیسے اہم مقدمات میں فیصلہ سنانے والے جج سپریم کورٹ کے ماسٹر آف دی روسٹر کے طور پر عہدہ چھوڑنے کے چار ماہ کے اندر رنجن گگوئی کی راجیہ سبھا کیلئے نامزد گی تو بھولنے والی کوئی بات ہی نہیں ہے۔حکومت سے فیض یابی کا منصوبہ اور سیاسی عزائم رکھنے والے ایسے منصفان ذی وقار کی فہرست میں ایک اور نام شامل ہوگیا ہے اور وہ ہے مغربی بنگال کے ’ سابق‘ جج جسٹس ابھیجیت گنگوپادھیائے کا۔
کل تک کلکتہ ہائی کورٹ میں مسند انصاف پر سرفراز رہنے والے جسٹس ابھیجیت گنگوپادھیائے نے استعفیٰ دے کر بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی )میں شامل ہونے کا اعلان کیا ہے۔قیاس آرائی یہ بھی ہے کہ وہ بی جے پی کے ٹکٹ پر لوک سبھا کا انتخاب لڑیںگے۔ جسٹس ابھیجیت گنگوپادھیائے مغربی بنگال کی ریاستی حکومت سے متعلق اور حکمراں ترنمول کانگریس کے لیڈروں کے خلاف مسلسل فیصلے دیتے رہے ہیں۔ گزشتہ دو برسوں کے دوران انہوں نے ایک درجن سے زائد مقدمات کو تفتیش کیلئے ای ڈی اور سی بی آئی کو بھی سونپاتھا۔ ان کا سب سے زیادہ متنازع فیصلہ مغربی بنگال میں پرائمری ٹیچروں کی تقرری گھوٹالہ سے متعلق تھا جس میں انہوں نے 32 ہزار پرائمری ٹیچروں کو برطرف کرنے کا حکم دیاتھا۔ان کے متنازع فیصلوں کی آنچ نے مغربی بنگال کا سیاسی ماحول گرمائے رکھا اوربھارتیہ جنتا پارٹی کو حکمراں ترنمول کانگریس کے خلاف جارحانہ سیاست کے مواقع فراہم کیے۔ کمرہ عدالت سے باہر وہ اکثر حکمراں جماعت بالخصو ص ممتابنرجی اور ان کے بھتیجے ایم پی ابھیشیک بنرجی کے خلاف یاوہ گوئی کرتے رہے تھے۔ ایک ٹیلی ویژن چینل کو انٹرویو دینے کے دوران بھی زیرسماعت مقدمات کے حوالے سے انہوں نے حکمراں جماعت پر کئی سنگین الزامات لگائے تھے،جس پر سپریم کورٹ کے چیف جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ کو مداخلت کرنی پڑی تھی۔
اعلیٰ اختیارات اور مکمل خودمختاری کے ساتھ کام کرنے والے ہائی کورٹ کے کسی جج کے فیصلوں میں مسلسل کسی ایک فریق کی طرفداری یا مخالفت ہونے لگے تو اس کے فیصلے شکوک و شبہات کی زد میں آجاتے ہیں۔ جسٹس ابھیجیت گنگوپادھیائے کے متعدد فیصلوں میں شفافیت، دیانتداری اور غیر جانبداری کے بجائے جب سیاسی عزائم کی جھلک ملنے لگی تو ان کے فیصلوں کوسپریم کورٹ میں چیلنج کیا گیا جس کے نتیجے میں انہیں کئی مقدمات کی سماعت سے الگ کر دیا گیا۔ جسٹس ابھیجیت گنگوپادھیائے دوران کار بھی سیاسی عزائم کا اشارہ دیتے رہے تھے مگر استعفیٰ دینے کے ساتھ ہی بی جے پی میں شمولیت کا اعلان اور پھر لوک سبھا انتخاب لڑنے کے امکان سے ظاہر ہوتا ہے کہ ملک کی عدلیہ ’سیاسی تعصب ‘ کی راہ پر چل رہی ہے۔
آئینی جمہوریت کے جسد خاکی کی روح سمجھی جانے والی ’آزاد عدلیہ ‘ کو ایسے مکروہ تعصبات اور آزار سے بچانے کیلئے ضروری ہے کہ بعد ازسبکدوشی سیاسی تقرری حاصل کرنے یا اس سے قبل استعفیٰ دے کر سرگرم سیاست میں حصہ دار بننے والے کے خلاف قانون سازی کی جائے۔نیز عدل و انصاف کے مسلمہ تقاضوںکے خلاف اور قانون کی حکمرانی کے بنیادی اصول کو پامال کرنے والے عالی مرتبت جج صاحبان کے احتساب اور مواخذہ کابھی انتظام کیاجائے۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS