ہندوستان کی سب سے بڑی ریاست اور سب سے زیادہ ممبران پارلیمنٹ لوک سبھا میں بھیجنے والا صوبہ یعنی اترپردیش میں سیاسی ماحول گرما یا ہواہے، اس کی کئی وجوہات ہیں ایک تویہ کانگریس پارٹی اور سماجوادی پارٹی نے اختلافات کو بالائے طاق رکھ کر لوک سبھا انتخابات کے لیے ایک اتحاد پر الیکشن لڑنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ دونوں پارٹیوں میں سیٹوں کی تقسیم ہوگئی ہے۔ یہ تقسیم ان معنوں میں اہمیت کے حامل ہیں کہ اترپردیش کی ایک اہم جماعت جو دلتوں اور محروم طبقے کی نمائندہ سمجھی جاتی ہے ، یو پی میں کسی بھی تال میل یا اتحاد میں شامل ہونے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ اس طریقے سے دیکھا جائے تو بی ایس پی ان دونوں اہم سیاسی محاذوں یعنی بی جے پی کی قیادت والے این ڈی اے محاذ اور کانگریس اور سماجوادی پارٹی پر مشتمل محاذ یا انڈیا محاذ میں سے کسی اتحاد بھی شامل نہیں ہے۔ ابھی تک بی ایس پی کی لیڈر بہن مایاوتی اپنے پتے نہیں کھولے تھے۔ ایک امید یہ لگائی جارہی تھی کہ شاید بی ایس پی آخری وقت میں نام نہاد سیکولر محاذ انڈیا میں شامل ہوجائے گی، مگر ابھی تک جو اشارے سامنے آئے ہیں ایسا لگتا نہیں ہے کہ وہ کسی بھی محاذ کا حصہ بنے۔ اترپردیش میں اس محاذ کی کامیابی کا دارومدار اس بات پر ہے کہ سیکولر پارٹیاں کس حد تک اپنے اختلافات کو بالائے طاق کھ کر بی جے پی کے خلاف کوئی متحد مورچہ کھڑا کرسکیں گے۔
بہر حال کانگریس پارٹی لوک سبھاکی 80سیٹوں میں سے 17پر اپنی امید وار کھڑا کرے گی ، جبکہ سماجوادی پارٹی چھوٹے حلیفوں کے ساتھ مل کر الیکشن لڑے گی۔ اس انتخابی فارمولے پر کئی مبصرین کا کہنا ہے کہ کانگریس پارٹی نے گزشتہ تقریباً دو ماہ قبل پانچ ریاستوں میں جن صدمات کو جھیلا ہے ان سے سبق بھی حاصل کیا ہے۔ کانگریس پارٹی نے سماجوادی پارٹی کو مدھیہ پردیش میں ایک سیٹ پر امیدوار کھڑا کر نے پر حامی بھر لی ہے۔ مدھیہ پردیش کے اسمبلی انتخابات میں کانگریس پارٹی کے اہم ترین لیڈر کمل ناتھ نے اکھلیش یادو کی سربراہی والی سماجوادی پارٹی کے ساتھ اتحاد نہ کرنے کا فیصلہ کیا تھا اور یہی نہیں اکھلیش یادو پر براہ راست حملہ کیا تھا، یہ کانگریس پارٹی اور سماجوادی پارٹی کے درمیان اختلافات کا اہم سبب بن گیا تھا اور اس دوران ایسا لگ رہا تھا کہ اترپردیش میں دونوں پارٹیوں کے درمیان کوئی سمجھوتہ نہیں ہوپائے گا، مگر راہل گاندھی اوران کی بہن پرینکا گاندھی نے اکھلیش یادو کے ساتھ بات چیت کرکے یہ ڈیل کرنے میں کامیابی حاصل کی ہے۔
اترپردیش لوک سبھا انتخابات کے لیے سب سے اہم ریاست ہے اگر ایسا نہ ہوتا تو وزیراعظم نریندر مودی 2014میں وارانسی سے الیکشن نہ لڑتے۔ ہندوستان کا دل کہنے جانے والے اترپردیش سے وزیراعظم نریندر مودی کا الیکشن لڑنا اترپردیش میں بی جے پی کی جڑوں کو اور مضبوط کرنے والا قدم ثابت ہوا ہے۔ سیاسی پنڈت جانتے ہیں کہ اترپردیش میں کامیابی حاصل کیے بغیر کسی بھی پارٹی کے لیے مرکز میں حکومت بنانا آسان نہیں ہے۔ یہاں یہ بات بھی ملحوظ خاطر رہے کہ ہندوستان کی سیاست کے چانیکہ کہے جانے والے امت شاہ اترپردیش کے انتخابات پر نگرانی رکھ رہے ہیں۔ 2014میں بی جے پی نے اترپردیش کی 80میں سے 71سیٹوں پر کامیابی حاصل کی تھی جبکہ بی جے پی کی اتحادی پارٹی اپنا دل کو دو سیٹیں ملی تھیں۔
یہ زبردستی کامیابی بی جے پی کو ایسے حالات میں ملی جب 2012 کے اسمبلی الیکشن میں بی جے پی صرف کل ووٹ کا 15فیصد ہی حاصل کرپائی تھی، مگر جلدہی قلیل مدت میں نریندر مودی اور امت شاہ کی قیادت والی پارٹی نے جو جست لگائی اس کے آگے تمام پارٹیاں ڈھیر ہوگئیں۔ اس وقت بہوجن سماج پارٹی اور سماجوادی پارٹی نے خواب بھی نہیں ہوچا تھا کہ ان کی یہ درگت بن جائے گی۔ 2019کے انتخابات میں بھی بی جے پی نے جو کامیابی حاصل کی اس سے دیگر پارٹیاں ہواس باختہ ہوگئیں۔ اس وقت بی ایس پی ، ایس پی نے مل کر الیکشن لڑا تھا اس کے باجو د دونوں پارٹیاں 15محض سیٹوں پر ہی کامیابی حاصل کرپائیں۔ سماج کے کمزور طبقے کے نام نہاد نمائندہ دونوں پارٹیوں کا یہ اتحاد بی جے پی کی اس پیش قدمی کو نہیں روک پایا۔ 2014میں بی جے پی کو 42فیصد ووٹ ملا جبکہ 2014میں یہ ووٹ شیئر بڑھ کر 49فیصد ہوگیا۔ 2014کے بعد سے بی جے پی لگاتار دومرتبہ سے اسمبلی کا الیکشن جیت رہی ہے۔ ظاہر ہے کہ ریاست میں یو گی آدتیہ ناتھ کی طاقت اس کے پاس ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ 2024لوک سبھا الیکشن میں سب سے بڑی ریاست اترپردیش میں سماجوادی پارٹی اور کانگریس کا اتحاد کیا گل کھلاتا ہے۔
اس میں کوئی دورائے نہیں اترپردیش میں بی جے پی تمام پارٹیوں کو لگاتار شکست سے دوچار کررہی ہے۔ چاہے وہ وہ اسمبلی کے انتخابات ہوں یا لوک سبھا کے الیکشن ہو ۔ وزیراعظم نریند ر مودی اور وزیر اعلیٰ امت شاہ کی جوڑی نے اپوزیشن میں غدر مچا دیا ہے۔ مگر اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا ہے کہ اکھلیش یادو کی قیادت والی پارٹی سماجوادی پارٹی ہرطرح کی ناکہ بندی کے باوجود کل ووٹ کا 22فیصد ووٹ حاصل کرسکی ہے۔ اگرچہ یہ بھی حقیقت کہ 2022میں سماجوادی پارٹی نے جو چھوٹی چھوٹی پارٹیوں کا اتحاد وضع کیاتھا وہ ٹوٹ گیا ہے۔ مایاوتی الیکشن لڑنے میں خاص دلچسپی یا سنجیدگی ظاہر نہیں کررہی ہیں۔ ان کے ووٹ شیئر میں بڑی گراوٹ آئی ہے۔ انہوںنے الیکشن اکیلے لڑنے کا ارادہ ظاہر کیا ہے۔ ظاہر ہے کہ اس کا براہ راست فائدہ بی جے پی کو ہوگا۔ اس کے علاوہ مغربی اترپردیش میں چودھری چرن ، اجیت سنگھ کی پارٹی راشٹریہ لوک دل نے انڈیا اتحاد کا دامن چھوڑدیا ہے۔ آر ایل ڈی کے موجودہ لیڈر نے اپنے دادا اور سابق وزیراعظم آنجہانی چرن سنگھ کو بھارت رتن دیے جانے کا حوالہ دے کر بی جے پی کے ساتھ اتحاد کرکے راہل اکھلیش اتحاد کو کرارہ جھٹکا دیا ہے۔ مگر مغربی یوپی میں بی جے پی کی راہ اس قدرآسان نہیں ہوگی، کیونکہ یہ خطہ مسلم غلبہ والا ہے۔ جاٹ ووٹ اور مسلم ووٹ آر ایل ڈی کی بڑی طاقت ہے اور دونوں برادریوں میں اتحاد ہے۔ اس الیکشن میں یہ صورت حال آر ایل ڈی کو نقصان پہنچائے گی یہ فائدہ اس پر کوئی تبصرہ کرنا قبل از وقت ہوگا۔ خاص طور پر ایسے حالات میں جب کسان مظاہرین نے پھر مورچہ سنبھال لیا ہے اور آر ایل ڈی چیف پچھلے کسان آندولن میں بڑی چوٹ کھا چکے ہیں۔ اب کسان تحریک کے پرزور ہونے کے بعد کیا صورت حال سے یہ دیکھنا دلچسپی سے خالی نہیں ہوگا۔
rvr
یوپی: بنتے بگڑتے رشتے اور 2024کے الیکشن
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS