گھریلو جھگڑوں سے کیسے چھٹکارہ حاصل کریں : قیصر محمود عراقی

0

قیصر محمود عراقی
گھریلوجھگڑے کئی قسم کے ہوتے ہیں، مثلاًمیاں بیوی کا جھگڑا ، باپ بیٹے کا جھگڑا ، بہن بھائی کا جھگڑا ، بہنوں کا آپس میں جھگڑا ، ساس بہوکا جھگڑا ، نند بھاوج کاجھگڑا ، جیٹھانی دیورانی کاجھگڑا ، دیور بھابھی کاجھگڑا ، دیورانی جیٹھ کاجھگڑا ، باپ بیٹی کا جھگڑا وغیرہ وغیرہ۔ اگر ہم بات کریں میاں بیوی کے جھگڑے کی تو ان کے درمیان زیادہ تر جھگڑے کسی ڈیمانڈ کی وجہ سے ہوتے ہیں۔ مثلاً بیوی کہتی ہے’’مجھے الگ رہنا ہے، میں اپنا کھانا الگ پکائونگی، میری آپ کی فیملی کے ساتھ بنتی نہیںوغیرہ وغیرہ‘‘۔ یہ بات طے شدہ ہے کہ جب کسی لڑکی کی شادی ہوتی ہے تو اس کی اپنی سوچ اور کچھ خواب ہوتے ہیں جس کی تکمیل کیلئے وہ کوششیں کرتی ہیںلیکن دوسری طرف اس کے گھر والے اس کو اپنی باتوں کے ذریعہ اس قدر مرعوب کرتے ہیںکہ وہ لڑکی جو سنہرے خواب دیکھ کر آتی ہے اس کا جینا دوبھر کردیتی ہیں، اس صورتحال کو بہتر بنانے کیلئے سب سے پہلے تو ایسے خالہ خیرن(کان بھرنے والی خاتون) جیسے لوگوں سے چھٹکارا پانا پڑیگاجو لگائی بجھائی میں رہتی ہیں تب جاکر گھر آباد ہوگا۔
باپ بیٹے کاجھگڑازیادہ تر عارضی ہوتا ہے اور اس میں بھی کسی نہ کسی عورت کا کردار قابلِ غور ہوتا ہے، لیکن اکثر یہ جھگڑے بہت آگے نکل جاتے ہیں اور مجبوراً باپ اپنے بیٹے کو جائیداد سے ’’عاق‘‘کردیتا ہے اور بیٹا ہمیشہ ندامت کے آنسوروتا رہتا ہے۔ اسی طرح بہن بھائی کا جھگڑا ہے ۔ میرے دوستو!یہ رشتہ ایسا ہے کہ جتنا آپس میں لڑتے ہیں اتنا ہی پیار بڑھتا ہے(اس کا یہ مطلب نہیں کہ اس لڑائی کو فروغ دیا جائے)یہ لڑائی بھی عارضی ہوتی ہے، وقت جب دونوں میں سے کسی کا بھی پڑتا ہے تو یہ دونوں ہی کبھی منع نہیں کرتے اور ایک دوسرے کا خیال رکھتے ہیں۔ زیادہ تر بہتیں پیش قدمی کرتی ہوئی یہ کام سر انجام دیتی ہیں ، اکثر وبیشتر بھائی بھائی کا جھگڑا بھی دیکھا گیا ہے ، یہ جھگڑا ہمیشہ دونوں بھائیوں کی شادی کے بعد ہی ہوتا نظر آئیگا، زیادہ تر ایسے جھگڑے کے پیٹھ پیچھے بھی اکثر عورت کا کردار ہوتاہے اور اگر بھائی آپس میں اتفاق کرلیں کہ ہمیں کسی قیمت پر نہیں الجھنا ہے تو عورت پریشان رہتی ہے اور تعویذگنڈے کی طرف راغب ہوجاتی ہے کیونکہ اسے اپنی بات منوانی ہوتی ہے۔ اسی طرح بہنوں کا آپس میں جھگڑا ، یہ جھگڑا زیادہ تر ان گھروں میں نظر آئے گا جہاں بیٹیوں کے رشتے نہیں آرہے ہوتے اور ایسی لڑکیاںعمر کے بڑھتے ہوئے وقت کے ساتھ چڑچڑی اور بد زبان ہوتی جاتی ہے اور فوبیاجیسی بیماری کا شکار ہوجاتی ہیں، چاہے وہ صحت اور صفائی کی بات ہو ، چاہے وہ شادی بیاہ یا روز مرہ کاموں کی بات ہو ، ہر ایک نے اپنے آپ کو برتر ثابت کرنا ہوتا ہے۔ بعض اوقات ایک دوسرے کو کوسنا اور گالی گلوج تک نوبت آجاتی ہے ، ہر گھر اس مسئلہ سے محفوظ رہے ، بہت کڑا امتحان ہوتا ہے ماں باپ کا اگر ایسا ہو۔
ساس بہوکا جھگڑا ، نند بھاوج ، جیٹھانی، دیورانی اور دیور بھابھی کا جھگڑا ، یہ جھگڑا بہت ہی کم دیکھنے کو ملتا ہے، اکثر جگہوں پر نظر آئیگا جہاں ماں باپ کی عزت نہیں کی جاتی ہوگی، ویسے آج کل تو لوگ عزت کے لفظ ہی بھول گئے ہیں، لہذا میرے دوستو!اپنے گھروں پر توجہ دو اور نئی آنے والی نسل کو ایسا ماحول فراہم کروکہ وہ ایک اچھے انسان بن کر آپ سب کا نام روشن کرسکیں۔کیاخیال ہے؟مذکورہ بالا جھگڑوں کے علاوہ بھی کوئی آفت ہوتی ہوگی گھروں میں؟ دعا ہے ہم سب کے تمام مسئلے خوش اسلوبی کے ساتھ انجام پا جائیں اور آپس میں محبت قائم رہے اور خاندان خوشحال رہے اور جن بیٹے بیٹیوں کے رشتے کیلئے ان کے ماں باپ پریشان ہیں ان کی مشکل آسان ہوجائے۔
خیال رہے کہ گھریلوجھگڑے کے اثرات کمسن بچے خاموشی سے برداشت کرتے ہیں، اگرچہ جھگڑے کمسن بچوں کی سمجھ نہیں آتے لیکن اس سے ان کی شخصیت پر جومنفی اثرات مرتب ہوتے ہیں وہ عمر بھر ان سے چھٹکارا نہیں پاتے۔ لڑائی جھگڑے ، گھریلو چپقلش ، نااتفاقیاں بچوں کے ذہنوں پر انمٹ نقوش چھوڑدیتی ہیں، جس کے بچوں کی ذہنی نشوونما بھی شدید متاثر ہوتی ہے۔ بچوں پر یہ ثابت کرنے کی ضرورت نہیں کہ آپ کے درمیان بھی کوئی اختلاف ہوا ہو، ہاںاگر بچوں کے سامنے یا انہیں بٹھاکر گھریلو اختلافی مسئلے پر بحث اچھی طرح کی جائے تو بچے یہ سیکھ رہے ہوتے ہیں کہ گھریلو تنازعہ کو کیسے اور کس طرح حل کیا جاتا ہے۔ماہرین نفسیات کا کہنا ہے کہ دراصل بچے کم عمری میں گھریلوماحول سے یہ سیکھ لیتا ہے کہ اختلافی معاملات کو کس طرح سلجھایا جاسکتا ہے۔ اگر بچوں کے سامنے تشدد ، گالی گلوج ، چیخ وپکار ، گھر کی اشیاء کو پھینکا جائے اس طرح بچے اپنے گھریلوماحول سے یہ سیکھ لیتا ہے کہ اپنے مطالبات کیلئے چیزوں کو پھینکنے یا چیخ وپکار کرکے منواسکتے ہیں۔ اس عادت کا اثر نہ صرف اس کی سماجی زندگی بلکہ شادی کے بعد بھی خواندگی زندگی پر بھی پڑتا ہے۔ ماہرین نفسیات کا کہنا ہے کہ گھریلو اختلافات کو بچوں کے سامنے مثبت انداز سے حل کرنا دراصل بچوں کی بہترین تربیت ہوتی ہے، ان ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ خوش گوار زندگی گذارنے والے افراد کے بچوں کی زندگیاں بھی خوشگوار گذرتی ہیں۔ کوشش کی جائے کہ زندگی بہتر طریقے سے گذاری جائے تاکہ بچوں کی ذہنوں میں منفی اثرات مرتب نہ ہو ۔ بلاشبہ بچوں کی پہلی تربیت گاہ اس کا گھر اور گھریلو ماحول ہوتا ہے، ہمیں چاہئے کہ ہم بچوں کی بہتر تربیت کیلئے اپنے گھر اور گھریلو ماحول کو مثبت رکھیں۔

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS