سیاست میں سب سے زیادہ اہمیت مفاد کی ہوتی ہے۔ اس لیے مختلف جماعتوں کے اتحادکی تشکیل جتنی مشکل ہوتی ہے، اس سے زیادہ مشکل اس اتحاد کو قائم رکھنا ہوتا ہے۔ بہار کے وزیراعلیٰ اور جنتادل(یونائیٹڈ) کے موجودہ صدر نتیش کمار نے اپوزیشن پارٹیوں کے اتحاد ’انڈیا‘ کی تشکیل میں کافی اہم رول ادا کیا تھا۔ ان کی کوششوں کو دیکھ کر ایسا لگتا تھا کہ یہ اتحاد آنے والے وقت میں حکمراں اتحاد این ڈی اے کے لیے مسئلہ بن جائے گا، کیوں کہ اس وقت یہ بات ہورہی تھی کہ اپوزیشن اتحاد ’انڈیا‘ کی طرف سے ایک سیٹ پر ایک ہی امیدوار کو اُتارا جائے گا۔ پھر سیٹوں کی تقسیم موضوع بحث بن گئی اور یہ باتیں ہونے لگیں کہ کانگریس ’انڈیا‘ کی سب سے بڑی پارٹی ہے، اسے فراخ دلی دکھانی چاہیے۔ دراصل کرناٹک اسمبلی انتخابات میں شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کرنے کے بعد کانگریس کے لیے جو حالات بنے تھے، مدھیہ پردیش، راجستھان اور چھتیس گڑھ کے اسمبلی انتخابات میں بہترکارکردگی کا مظاہرہ نہ کرپانے کی وجہ سے وہ حالات نہیں رہے تھے۔ سوال یہ بھی تھا کہ ’انڈیا‘ میں شامل جو پارٹیاں کانگریس سے ٹوٹ کر بنی ہیں یا کانگریس کو شکست دے کر اقتدار میں آئی ہیں، وہ اگر کانگریس کے ساتھ اتحاد کرکے انتخابات لڑیں گی، پھر مستقبل قریب یا مستقبل بعید میں ان پر کیا اثرات مرتب ہوں گے؟ ایسی صورت میں یہ بات ناقابل فہم نہیں تھی کہ ’انڈیا‘ کی تشکیل کے وقت اپوزیشن پارٹیوں میں جو جوش و ولولہ تھا، وہ دیر تک قائم نہیں رہ پائے گا اور ’انڈیا‘ کے موجودہ حالات کچھ اسی طرح کے ہیں۔ اپوزیشن پارٹیوں کے اس اتحاد میں کئی اپوزیشن پارٹیاں تو ہیں لیکن وہ اتحاد نظر نہیں آرہا ہے جو ’انڈیا‘ کی تشکیل کے وقت نظر آیا تھا۔ ایک سے زیادہ پارٹیاں ’انڈیا‘ کو چھوڑ کر حکمراں اتحاد این ڈی اے میں شامل ہوچکی ہیں اور جو پارٹیاں ابھی بھی ’انڈیا‘ کے ساتھ ہیں، وہ لوک سبھا انتخابات تک متحد رہیں گی، دعوے سے اس پر کچھ کہنا مشکل ہے، کیوں کہ لوک سبھا انتخابات کو زیادہ دن نہیں بچے ہیں اور ابھی بھی ’انڈیا‘ کی اپوزیشن پارٹیوں کے درمیان سیٹوں کی تقسیم نہیں ہوپائی ہے جبکہ کسی بھی اتحاد کی مضبوطی سیٹوں کی تقسیم کے وقت ہی دیکھی جاتی ہے۔ ذرائع کے حوالہ سے آنے والی ایک رپورٹ کے مطابق سماجوادی پارٹی کی طرف سے یہ بات واضح کردی گئی ہے کہ اگر کانگریس نے اترپردیش میں 15سیٹوں سے زیادہ کا مطالبہ کیا تو پھر اترپردیش میں نہیں ہوگا اتحاد۔ ذرائع سے یہ خبربھی آئی ہے کہ ’کانگریس کو آج سماجوادی پارٹی کو جواب دینا ہے۔ اگر کانگریس اس پر اتفاق کرلیتی ہے کہ وہ اترپردیش میں 15 سے زیادہ سیٹوں کا مطالبہ نہیں کرے گی تبھی اکھلیش یادو رائے بریلی میں راہل گاندھی کے ساتھ ’بھارت جوڑو نیائے یاترا‘ میں شامل ہوں گے۔ یعنی اکھلیش اگر رائے بریلی میں راہل گاندھی کے ساتھ بھارت جوڑو نیائے یاترا میں نظر نہ آئیں تو یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ اترپردیش میں لوک سبھا انتخابات میں اپوزیشن کی کیا پوزیشن رہے گی۔ حیرت اس بات پر ہے کہ پہلے اکھلیش یادو کے حوالہ سے ہی یہ خبر آئی تھی کہ ان کی گفتگو کانگریس اعلیٰ کمان سے ہوچکی ہے۔ سیٹوں کی تقسیم پر اتفاق رائے ہوچکا ہے۔ سیٹوں کی تقسیم پر کوئی تذبذب نہیں۔ توکیا یہ بات مان لینی چاہیے کہ راشٹریہ لوک دل کے این ڈی اے میں شامل ہونے سے حالات بدل گئے ہیں؟
نتیش کمار کے بی جے پی سربراہی والے اتحاد این ڈی اے کے ساتھ چلے جانے سے ’انڈیا‘ کے لیے حالات تو بہار میں بھی بدلے ہیں۔ راہل گاندھی اور تیجسوی یادو میں فی الوقت اچھے تعلقات نظر آرہے ہیں مگر ان دونوں کی پارٹیوں کے درمیان آسانی سے سیٹوں کی تقسیم ہوجائے گی؟ یہ ایک جواب طلب سوال ہے۔ مہاراشٹر میں ادھوٹھاکرے اور شردپوار کی پارٹیوں کے ساتھ کانگریس کیا سیٹوں کی تقسیم آسانی سے کرلے گی؟ یہ بھی ایک سوال ہے۔ جھارکھنڈ میں ہیمنت سورین کیا اسی طرح اپنے موقف پر ڈٹے رہیں گے جیسے ابھی ڈٹے ہوئے ہیں؟ یہ بھی ایک سوال ہے۔ ان تمام سوالوں کے جواب اس وقت تک نہیں مل پائیں گے، اپوزیشن پارٹیوں کے اتحاد کی حتمی شکل اس وقت تک سامنے نہیں آئے گی جب تک سیٹوں کی تقسیم نہیں ہوجاتی۔ سیٹوں کی تقسیم ان کے لیے ایک بڑا امتحان ہے اور اس میں پاس یا فیل ہونے پر ہی یہ سمجھنا آسان ہوگا کہ اگلے لوک سبھا انتخابات میں اپوزیشن پارٹیاں کس طرح کی کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والی ہیں۔
[email protected]
کیا اپوزیشن اتحاد نظر آئے گا؟
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS