کاش فیصلہ کچھ پہلے آیا ہوتا: محمد فاروق اعظمی

0

محمد فاروق اعظمی

سپریم کورٹ نے الیکٹورل بانڈ اسکیم کو کالعدم قرار دے کر جمہوریت کے تحفظ کی سمت بڑا کام کیا ہے۔ عدالت نے اسٹیٹ بینک آف انڈیا کو یہ بھی حکم دیا ہے کہ وہ 6 مارچ 2024 تک الیکشن کمیشن کو اس اسکیم سے فائدہ اٹھانے والی تمام سیاسی جماعتوں کے نام اور موصول ہونے والی رقم سے آگاہ کرے اور کمیشن13 مارچ تک اپنی ویب سائٹ پر یہ معلومات شیئر کرے۔ عدالتی حکم کی تعمیل کے بعد جو حقائق سامنے آئیں گے، ان سے پتہ چلے گا کہ کس جماعت نے کس سرمایہ دار سے کتنی رقم وصول کی ہے۔ اس طرح معلومات کے حق کا تحفظ، اظہار رائے کی آزادی، شفافیت اور انتخابی اصلاحات کی چاروں سمتوں کے افق کو چھونے والا یہ فیصلہ پارلیمانی نظام کی تطہیر کی راہ میں سنگ میل ثابت ہوسکتا ہے۔
اس اسکیم کے جواز کو چیلنج کرنے والی عرضی کی سماعت کرتے ہوئے چیف جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ کی سربراہی میں 5 رکنی بنچ نے متفقہ طور پر اسے غیر آئینی قرار دیا اور کہا کہ یہ حق اطلاعات کے اصول کی خلاف ورزی ہے۔اس اسکیم کے بارے میں سپریم کورٹ کا ماننا ہے کہ ووٹروں کو یہ جاننے کا حق ہے کہ سیاسی جماعتوں کے پاس پیسہ کہاں سے آرہا ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ یہ اسکیم شہریوں کے معلومات کے حق کی خلاف ورزی کرتی ہے، جس سے آئین کی دفعہ 19(1)الف میں بیان کردہ اظہار رائے کی آزادی متاثر ہوتی ہے۔ سماعت کے دوران حکومت نے دلیل دی کہ اس سے سیاسی جماعتوں کی فنڈنگ میں کالے دھن کا استعمال بند ہوجائے گا اور فنڈنگ صاف ہو جائے گی۔ عدالت نے اسے مسترد کرتے ہوئے کہا کہ اس کے اور طریقے بھی ہیں۔ سپریم کورٹ نے عوام کو یہ معلومات نہ دینے پر حکومتی اٹارنی جنرل کی دلیل کو مسترد کردیا کہ ’کچھ بھی‘ اور’سب کچھ‘ جاننے کا حق معقول پابندیوں کے تابع ہوئے بغیر نہیں دیا جا سکتا۔
بھارتیہ جنتا پارٹی کی مرکزی حکومت نے اس اسکیم کو لوک سبھا سے 2017 میں فائنانس ایکٹ کی شکل میں پاس کروایا تھا، جسے 29 جون 2018 کو قانونی طور پر لاگو کیا گیا تھا۔ اس اسکیم کے تحت کوئی بھی شہری اسٹیٹ بینک آف انڈیا کی منتخب شاخوں سے 1000 روپے،10ہزا ر روپے، ایک لاکھ روپے، 10 لاکھ روپے اور ایک کروڑ روپے تک کے بانڈ خریدسکتا ہے اور اسے اپنی پسندیدہ پارٹی کو عطیہ کر سکتا ہے۔ ایک طرح سے اسے سیاسی جماعتوں کی گمنامی میں مدد کرنا بھی کہا جا سکتا ہے۔ اس اسکیم کے خلاف میں کئی وکلا، سماجی کارکنوں، سول سوسائٹیزاور انتخابی اصلاحات کے حامیوں نے الزام لگایا تھا کہ اس کے ذریعہ کارپوریٹ گھرانے، تاجر اور وہ لوگ جو حکومتوں سے اپنا کام کروانا چاہتے ہیں، ان بانڈز کو خرید کر سیاسی جماعتوں کے قریب ہوسکتے ہیں۔ بی جے پی حکومت کی سرمایہ نوازی کو مد نظر رکھتے ہوئے ظاہر کیے جانے والے یہ خدشات بعد میں سچ بھی ثابت ہوئے کیونکہ اس اسکیم کے تحت بی جے پی کو سب سے زیادہ عطیات ملے۔اس اسکیم کے خلاف دو مقدمے دائر کیے گئے تھے۔ 2017میں اسکیم کے اعلان کے بعد ایسوسی ایشن فار ڈیموکریٹک ریفارمز(اے ڈی آر)نے اور2018 میں دوسرا مقدمہ مارکسسٹ کمیونسٹ پارٹی(سی پی آئی) نے دائر کیاتھا۔ان دونوں میں ہی کہاگیاتھا کہ یہ اسکیم انتخابی بدعنوانی کو قانونی شکل دینے کیلئے لائی گئی ہے اور یہ رشوت کی ہی قانونی شکل ہوگی اوراس سے ملکی اورغیر ملکی عطیات کا سیلاب آئے گا،بعد میں کانگریس لیڈر جیا ٹھاکر بھی اس مقدمہ میں شامل ہوگئیں۔ان سبھی کا استدلال تھاکہ انتخابی بانڈس سے منسلک گمنامی سیاسی فنڈنگ میں شفافیت کو نقصان پہنچاتی ہے۔ نیز رائے دہندگان کے حق معلومات کی صریح خلاف ورزی بھی ہے۔ انہوں نے مزید دلیل دی کہ یہ اسکیم شیل کمپنیوں کے ذریعے شراکت میں سہولت فراہم کرتی ہے، جس سے انتخابی مالیات میں احتساب اور دیانتداری کے بارے میں خدشات پیدا ہوتے ہیں۔ سپریم کورٹ کے 15 فروری 2024 کے فیصلے نے ان کے موقف کی تصدیق کی۔ سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ عوامی توقعات کے مطابق بھی ہے۔
اس اسکیم کی وجہ سے بی جے پی نے جو دولت جمع کی ہے، اس کی وجہ سے اسے الیکشن لڑنے میں اپوزیشن پارٹیوں پر برتری حاصل ہے۔ بی جے پی کو ملنے والی مذکورہ رقم کے مقابلے میں حزب اختلاف کی اہم پارٹی کانگریس کو صرف 952 کروڑ روپے، ترنمول کانگریس کو صرف 768 کروڑ روپے اور این سی پی کو صرف 63.75 کروڑ روپے ملے ہیں۔حالیہ اے ڈی آر کی رپورٹ سے یہ پتہ چلتا ہے کہ کارپوریٹ دنیا نے صرف ایک سال یعنی 2022-23 میں 850 کروڑ روپے کا عطیہ دیا ہے،جس میں بی جے پی کو 80فیصد یعنی 719.8 کروڑروپے حاصل ہوئے ہیں اور کانگریس کو صرف 79.92 کروڑ روپے ملے تھے۔رواں سال 2 جنوری سے 11 جنوری 2024 تک جاری رہنے والے انتخابی بانڈس کی فروخت کے تازہ ترین مرحلے میں 570 کروڑ روپے سے زیادہ کے انتخابی بانڈس فروخت کیے گئے ہیں، جن کے بارے میں کہاجارہاہے کہ یہ کل رقم بی جے پی کے خزانہ میں گئی ہے۔
یہ درست ہے کہ الیکٹورل بانڈس اسکیم سے بہت سی سیاسی جماعتوں کو کم و بیش فائدہ ہوا ہے، لیکن اس اسکیم کے تحت تو بی جے پی نے اپنے نتخابی خزانے کا پہاڑ کھڑا کرلیاہے اوراسی کی مدد سے وزیر اعظم نریندر مودی 400سیٹوں کی جیت کا دعویٰ بھی کررہے ہیں۔
آئین کے محافظ کے طور پر سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ ہندوستان میں پارلیمانی جمہوریت کیلئے تمام سیاسی پارٹیوں کو یکساں میدان فراہم کرنے میں مددگارضرور ثابت ہوگا۔لیکن کیا ہی بہتر ہوتا کہ یہ فیصلہ کچھ پہلے آیا ہوتا یااس فیصلہ میں انتخابی خزانے کے اس پہاڑ کو ہموار کرنے کی تدبیر بھی بتائی گئی ہوتی جو بی جے پی نے اس اسکیم کے ذریعہ غیر ملکی اور ملکی سرمایہ داروں کی مالی مدد سے کھڑا کررکھا ہے۔ تاخیر سے آنے والے اس فیصلہ سے بی جے پی کی مالی طاقت توکمزور ہونے سے رہی، خدشہ یہ ہے کہ کہیں اپوزیشن اس کے منفی اثرات کی زد میں نہ آجائے۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS