لوک سبھا انتخابات

0

کچھ دنوں قبل الیکشن کمیشن نے لوک سبھا اورکچھ ریاستوں کے اسمبلی انتخابات کیلئے مرکزی وزارت داخلہ کو مکتوب بھیج کر بتایا تھا کہ اسے کتنی سیکورٹی چاہئے اوراب چیف الیکشن کمشنر راجیو کمار نے کہا ہے کہ الیکشن کمیشن 2024 کے پارلیمانی انتخابات اور ریاستی اسمبلی کے انتخابات کرانے کیلئے پوری طرح سے تیار ہے اور تمام تیاریاں تقریباً مکمل ہیں۔پارلیمنٹ کاآخری اجلاس بھی ہوچکا۔ اب صرف انتخابات کرانا باقی ہے، ایسے میں چیف الیکشن کمشنر کے بیان سے لگتاہے کہ جلد ہی انتخابات کی تاریخوں کا اعلان ہوسکتاہے۔ مانا جا رہا ہے کہ لوک سبھا کے انتخابات اپریل اور مئی میںہوسکتے ہیں۔ 17ویں لوک سبھا کی میعاد 16 جون 2024کو ختم ہوگی، اس سے پہلے نئی لوک سبھا تشکیل دینی ضروری ہے۔اس سے قبل پارلیمانی انتخابات 11 اپریل سے 19مئی 2019 تک 7مراحل میں ہوئے تھے ، جبکہ ووٹوں کی گنتی 23مئی کوہوئی تھی۔ اس بار بھی ان ہی تاریخوں میں انتخابات ہوسکتے ہیں۔ الیکشن کمیشن انتخابات کرانے کیلئے تیار ہے، سیاسی پارٹیوں کی تیاری چل رہی ہے ۔سماجوادی پارٹی نے تو یوپی میں امیدواروں کا اعلان کرنا شروع کردیا ہے۔ دیگر پارٹیاں بھی5-20 1 دنوں میں امیدواروں کو حتمی شکل دینا شروع کردیں گی۔ کچھ امیدوار راجیہ سبھا انتخابات ہی میں طے ہوگئے، جن کو ایوان بالاکا ٹکٹ دوبارہ نہیں ملا، ان کو لوک سبھاانتخابات میں کھڑاکیا جاسکتاہے ، کم ازکم بی جے پی میں یہی صورت حال نظر آرہی ہے ، جس نے ریٹائر ہونے والے 28 ممبران میں سے صرف 4کو دوبارہ ٹکٹ دیا ہے ۔
کچھ دنوں قبل تک کہا جارہاتھا کہ اپوزیشن نے جو اتحاد بنایا ہے ، اس سے بی جے پی کی مشکلات بڑھ سکتی ہیں اوراگلامقابلہ این ڈی اے بنام’ انڈیا‘ ہوگا ، لیکن انتخابات سے قبل ’انڈیا‘ میں جتنی تیزی سے انتشار ہوا ، کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔مغربی بنگال میں جہاں ترنمول کانگریس نے تنہا الیکشن لڑنے کا اعلان کیا ہے، وہیں پنجاب میں عام آدمی پارٹی تنہاالیکشن لڑے گی، جبکہ دہلی میں اس نے ایک سیٹ کانگریس کیلئے چھوڑنے کی بات کہی ہے۔ یوپی میں بھی آرایل ڈی این ڈی اے میں جاتاہوانظر آرہا ہے۔ مہاراشٹر اورکیرالہ میں ’انڈیا‘ کی پارٹیوں کے درمیان سیٹوں کی تقسیم آسان نہیں ہوگی ۔ایسے میں اپوزیشن پارٹیاں بی جے پی سے کیسے مقابلہ کریں گی، وہ بھی ایسے وقت میں جب 17ریاستوں میں این ڈی اے کی سرکاراور12 ریاستوں میں بی جے پی اپنے بل بوتے پر برسر اقتدار ہے۔کرناٹک اورہماچل پردیش میں حالانکہ بی جے پی کو شکست ہوئی ،لیکن اس کے بعد 3ریاستوں مدھیہ پردیش، راجستھان اورچھتیس گڑھ اسمبلی انتخابات میں جیت سے اس کے حوصلے بڑھے ہوئے ہیں۔ مغربی بنگال اور تلنگانہ جہاں ابھی تک بی جے پی اقتدارمیں نہیں آئی ہے ، وہاں مسلسل اس کے ووٹوں اورسیٹوں میں اضافہ ہورہاہے ۔گجرات میں1997سے وہ مسلسل جیت رہی ہے اور ہریانہ وآسام میں 2میعاد سے حکومت میں ہے۔مغربی بنگال، تمل ناڈو اور آندھرا پردیش کو چھوڑکر وہ ملک کی تمام بڑی ریاستوں میں اقتدارمیں ہے۔ مہاراشٹر اور بہار میں اقتدارسے باہر ہوئی تھی ، لیکن پھر آگئی۔ دوسری طرف سے کانگریس کاحال یہ ہے کہ اس نے ہماچل پردیش اورکرناٹک میں جیت ضرور درج کی، جس سے اندازہ لگایا جارہاتھا کہ اب ملک کے سیاسی حالات اورانتخابی منظر نامہ تبدیل ہورہا ہے ،لیکن مدھیہ پردیش ، راجستھان اور چھتیس گڑھ میں شکست اورراجستھا ن وچھتیس گڑھ میں اقتدار سے باہر ہونے کے بعدوہ نفسیاتی طورپر دبائو میں ہے۔
بی جے پی کے مقابلہ میں سب سے بڑی پارٹی کانگریس کاحال یہ ہے کہ وہ ابھی صرف 3 ریاستوں کرناٹک ، ہماچل پردیش اور تلنگانہ میں اپنے بل بوتے پر اقتدار میں ہے اور جھارکھنڈ وتمل ناڈو میں مخلوط حکومت میں شامل ہے۔پنجاب اوردہلی میںعام آدمی پارٹی کی سرکارہے ، جبکہ بایاں محاذ کیرالہ میں اقتدارمیں ہے۔ ترنمول کانگریس کی حکومت مغربی بنگال میں ضرور ہے ، لیکن وہ ’انڈیا‘ میں رہے گی یا نہیں ، اس کی کوئی گارنٹی نہیں ہے ، جس نتیش کمار نے اپوزیشن اتحادکی تحریک چلائی تھی ، جسے بعد میں کانگریس نے اچک لیا ، وہی جب این ڈی اے میں چلے گئے تو دیگر پارٹیوں کاکیا بھروسہ ؟ اپوزیشن اتحاد اورکانگریس کے سامنے چیلنجز بہت ہیں اوراین ڈی اے سے مقابلے کیلئے وسائل بھی بہت کم ہیں ۔ دیکھاجائے تو الیکشن کمیشن انتخابات کرانے اوربی جے پی لڑنے کیلئے تیار ہے اور اپوزیشن پارٹیاں ذاتی مفادات کو دیکھتے ہوئے دائیں بائیں ہی جھانک رہی ہیں، جس کی وجہ سے ان میں انتشار پیداہورہا ہے ، ایسے میں وہ بی جے پی یا این ڈی اے کا مقابلہ کیسے کریں گی ؟
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS