عرب و اسلام کی تاریخ نے یہودیوں کو عزت عطا کی تھی: ڈاکٹر محمد ضیاء اللّٰہ

0

ڈاکٹر محمد ضیاء اللّٰہ

ہولوکوسٹ کی شکل میں مغربی تہذیب نے یہودیوں کے حق میں جن جرائم کا ارتکاب کیا ہے ان کا بوجھ اور ان کے تئیں احساس شرمندگی مغربی ملکوں کے قائدین میں آج تک اس قدر زیادہ ہے کہ وہ صہیونی نظام کو ہر اعتبار سے تحفظ فراہم کرنا اپنی اولین ذمہ داری سمجھتے ہیں، لیکن ان کا جرم اس اعتبار سے مزید دوبالا ہوجاتا ہے کہ انہوں نے اپنے جرائم کی تلافی کا جو راستہ تلاش کیا ہے اس سے ان کے گناہوں کا بوجھ کم ہونے کے بجائے اور بڑھ جاتا ہے۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ جس مغربی ملک اور جس انسانیت کش تہذیب نے یہودیوں کے ساتھ نا انصافی سے کام لیا تھا وہ خود اپنی سر زمین پر ان کی باز آبادکاری کا انتظام کرتی اور اپنے گناہوں کی تلافی کے طور پر انہیں خصوصی امتیازات سے نوازتی، لیکن ایسا نہیں کیا گیا۔ اگر ایسا ہوتا تو تاریخی طور پر عیسائیت اور یہودیت کے درمیان کی طویل کشمکش کو بھی دور کرنے کا انہیں موقع ملتا اور پوری دنیا میں یہ پیغام بھی جاتا کہ مغرب کی موجودہ تہدیب جو اپنے قدیم رومی و یونانی تہذیب کی درندگی کے اصولوں پر قائم ہوئی تھی اس میں کسی قدر انسانیت کے عناصر بھی شامل ہوگئے ہیں۔ اس کا عملی اظہار یہودیوں کو اپنے معاشرہ میں یکساں حقوق و فرائض کی بنیاد پر ضم کرنے کی صورت میں سامنے آتا توآج کی دنیا بہت پر امن، انسانی قدروں کی محافظ اور عالمی قوانین کی پاسداری جیسے اعلی معیاروں والی دنیا ہوتی، لیکن ایسا بھی نہیں ہوا۔ اس کے برعکس مغربی تہذیب کے علمبرداروں نے اپنے جرائم کا بوجھ ایسی قوم اور ایسی امت کے کاندھوں پر ڈال دیا جس نے یہودیوں کے ساتھ ہمیشہ انسان پروری، عدل و انصاف اور عفو و درگزر کا معاملہ کیا تھا۔ خود یہودی اور مغربی مورخین اس کی گواہی دیتے ہیں کہ عیسائی عقیدہ کے مطابق حضرت عیسیٰؑ کے ’مصلوب‘ ہونے کے بعد کئی صدیوں کی ذلت کے بعد یہودیوں کو پہلی بار دنیا میں عزت کی زندگی تب نصیب ہوئی جب عالمی منظرنامہ پر اسلام کے پاسبانوں کو قوت و غلبہ نصیب ہوا۔ یہودیوں کو اسلامی دنیا میں بڑے اعزازوں اور عہدوں سے نوازا گیا۔ انہیں علم و معرفت، دولت و ثروت، سماجی عزت و وقار اور سب سے بڑھ کر انہیں ان کی اپنی تہذیب و ثقافت کے مطابق آزادی کے ساتھ زندگی بسر کرنے کے مواقع فراہم کئے گئے اور دولت عثمانیہ کے خاتمہ تک یوں ہی برقرار رہا۔ اس کا آغاز خود حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور میں ہو چکا تھا۔ تاریخ شاہد ہے کہ جب حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ کی قیادت میں فلسطین پہلی بار اسلام کے سایہ میںنومبر 636 عیسوی (7صدی) کے اندر آیا اور عیسائی مذہبی رہنما صفرو نیوس نے بیت المقدس کو خلیفہ راشد ثانی کے حوالہ کیا تو اس وقت بھی یہودی بڑی بے چارگی کی زندگی گزار رہے تھے اور شہر کے مضافات میں گندی گلیوں اور محلوں میں رہتے تھے جیسا کہ رومی زمینوں میں ہر جگہ یہودیوں کا یہی حال تھا کہ وہ اسی طرح ذلت آمیز طرز معاشرت کے عادی ہوچکے تھے۔ ایسے یہودی محلوں کو ’گھیٹوز‘کہا جاتا تھا۔ خلیفہ ثانی کی آمد کے منتظر یہودی بھی تھے اور وہ دیکھنا چاہتے تھے کہ ان کے ساتھ کیا برتاؤ کیا جاتا ہے۔
یہودیوں نے اپنے برسوں نہیں بلکہ صدیوں کے تجربہ کی روشنی میں یہ خیال کر رکھا تھا کہ مسلمان بھی ان کے ساتھ ویسا ہی سلوک کریں گے، جیسا کہ عیسائی و رومی ان کے ساتھ آج تک روا رکھتے آئے ہیں۔ لیکن اسلام کا عدل بھلا اس بات کو کب گوارہ کر سکتا تھا کہ خدا کے بندوں کے ساتھ اس ذلت کا مظاہرہ کیا جائے۔ لہٰذا نہ صرف عیسائی مذہبی رہنماؤں کی پیشکش کے باوجود حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عیسائی کلیسا میں اس خدشہ سے نماز ادا نہیں کی کہ کہیں مستقبل میں مسلمان یہ دعویٰ نہ کر دیں کہ یہ کلیسا اب ہمارا ہوگیا، کیونکہ خلیفہ ثانی نے یہاں نماز ادا کی تھی بلکہ اس کے ساتھ ہی یہودیوں کو بھی پوری مذہبی آزادی کے ساتھ زندگی گزارنے کا حکم صادر فرما دیا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی یہ سنت اسلامی تاریخ میں ایک اصول بن گئی۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ جب اموی شہزادہ اور اندلس کے سرخیل اول عبدالرحمن الداخل نے مغربی سر زمین کے عین قلب میں عدل و انصاف پر مبنی اسلامی نظام کی داغ بیل ڈالی تو اس زمین کو جنت نشان ارضی میں تبدیل کر دیا اور آج تک اندلس میں اسلامی تہذیب کی بلندی کے ترانے گائے جاتے ہیں۔ البتہ جس پہلو پر بہت زیادہ روشنی نہیں ڈالی جاتی ہے وہ یہ ہے کہ اس جنت نشان ارضی اندلس میں صرف مسلمانوں کو ہی عزت و انصاف کی زندگی نصیب نہیں ہوئی بلکہ اس کا بہت بڑا فائدہ یہودیوں کو بھی ہوا۔ رومی سر زمینوں میں ذلت و بے چارگی کی زندگی گزارنے والے یہودیوں کو جب اندلسِ اسلامی کے عدل و انسانیت نوازی اور علم پروری کی خبر ملی تو جوق در جوق ہجرت کرکے وہ وہاں آنے لگے اور صدیوں بعد مغربی زمین پر پر وقار زندگی گزارنے کا پہلا تجربہ ان کو وہیں نصیب ہوا۔ بیت المقدس کے بعد یہ دوسرا موقع تھا جب اسلام نے یہودیوں کو بطور انسان زندہ رہنے اور تمام انسانی حقوق سے لطف اندوز ہونے کا موقع فراہم کیا۔ تاریخ بتاتی ہے کہ اندلس میں یہودیوں کو ایسا مرتبہ و مقام حاصل ہوا کہ تقریباً آٹھ صدیوں کی طویل حکمرانی کے بعد جب وہاں اسلامی عظمت کو زوال نصیب ہوا تو عیسائیوں نے صرف مسلمانوں کو ہی اپنا دشمن تصور نہیں کیا بلکہ یہودی بھی ان کے دشمن قرار پائے اور ان کے تئیں عیسائیوں کی ابدی نفرت و حقارت کا دور ایک بار پھر لوٹ آیا۔ سقوط اندلس کے موقع پر عیسائیوں نے جس بربریت کا مظاہرہ مسلمانوں اور یہودیوں کے ساتھ کیا تھا، اس سے کئی گنا زیادہ سنگین برتاؤ آج صہیونی اسرائیل مسلمان وعرب فلسطینیوں کے ساتھ روا رکھے ہوئے ہے۔ یہودیوں نے اپنی تاریخ سے کچھ مثبت چیز کا درس بالکل نہیں لیا۔ ان پر جو مظالم ڈھائے گئے تھے ان کا تقاضہ تھا کہ وہ مظلوم قوموں کا درد سمجھتے اور رحم دل ہوجاتے۔ لیکن ان کی کج فطری کی وجہ سے نتیجہ اْلٹا نکلا اور وہ بالکل ظالم ہو گئے۔ وہ خدا کے منتخب بندوں میں خود کو شمار کرتے ہیں، لیکن ان میں الٰہی پیغام کی کوئی جھلک نہیں دکھائی دیتی۔ وہ رحم، عفو درگزر اور عدل گستری جیسے تمام پاکیزہ آداب سے مکمل طور پر عاری ہو چکے ہیں۔ انہیں دیکھ کر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے حضرت موسی کی تورات سے کچھ نہیں سیکھا البتہ جن رومی درندوں کے زیر نگیں صدیوں رہے ان کے اخلاقیات ان میں سرایت کر گئے۔ یہ رومی فوج کا ہی طریقہ تھا کہ جب وہ کسی زمین پر حملہ آور ہوتے تو وہاں کی ہر شئی کو تباہ کر دیتے اور بچے، خواتین اور بوڑھوں تک پر رحم نہیں کرتے تھے۔ یہودیوں نے ان سے یہ تو سیکھ لیا، لیکن مسلمانوں کے درمیان صدیوں رہنے اور عزت کی زندگی گزارنے کے جو مواقع انہیں ہاتھ آئے تھے ان سے کوئی فائدہ نہیں اٹھایا۔ مسلمانوں سے انہوں نے عدل و انسانیت کا سبق نہیں لیا۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ چونکہ ان کی طبیعت مسخ ہوچکی تھی اور اسی وجہ سے ان سے الٰہی پیغام کے علمبردار ہونے کی ذمہ داری بھی چھین لی گئی تھی۔ کیونکہ وہ اس لائق باقی نہیں رہ گئے تھے کہ وہ انسانی آبادی کی قیادت کا فریضہ انجام دے سکیں۔ اپنی اسی بگڑی طبیعت کا مظاہرہ وہ آج تک فلسطین میں کر رہے ہیں جہاں معصوموں کو قتل کرنے اور انہیں قابل رحم زندگی گزارنے پر مجبور کرنے میں انہیں برتری کا احساس ہوتا ہے۔ دنیا بھر کی قومیں جنگ بندی کا مطالبہ کر رہی ہیں، لیکن مغرب کے صہیونیوں اور یہودی اسرائیل پر اس کا کوئی اثر نہیں پڑ رہا ہے۔اتنی بے مروتی ان میں پیوست ہوگئی ہے کہ وہ ظالم و مظلوم کا فرق تک بھول گئے ہیں۔ اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل بھی سمجھ نہیں پا رہے ہیں کہ اس کو کیسے حل کیا جائے۔ توجہ اس پر صرف ہونی چاہئے تھی کہ فلسطینی زندگیوں کو بچایا جائے اور آزاد فلسطینی ریاست کا قیام عمل میں آئے۔ لیکن اس کے برعکس امریکہ یہ دھمکی دے رہا ہے کہ منگل کے روز الجزائر سیکورٹی کاؤنسل میں جنگ بندی کے لئے جو قرار دار پیش کرنے والا ہے اس کے خلاف وہ ویٹو کا استعمال کرے گا۔ وہیں امریکی وزیر خارجہ جرمنی کے سالانہ سیکورٹی کانفرنس میں یورپی اور عرب ممالک کے لیڈران سے ملاقات کرکے اسرائیل اور سعودی عرب کے درمیان مصالحت پر زور دے رہا ہے۔ اس کا صاف مطلب ہے کہ مغرب و امریکہ کی نظر میں فلسطینی زندگیوں کی کوئی اہمیت نہیں ہے اور وہ ہر صورت میں اسرائیلی مفادات کے تحفظ کو یقینی بنانا چاہتے ہیں۔ وہ خوب جانتے ہیں کہ مسلم اور عرب دنیا سطح آب پر جھلملاتے بے حیثیت حْباب سے زیادہ کوئی اہمیت نہیں رکھتے، اس لئے وہ اپنی پالیسیوں کو اپنی مرضی کے مطابق پوری رعونت سے نافذ کرنے میں کوئی ہچک محسوس نہیں کر رہے ہیں، لیکن کیا کوئی پیشین گوئی کر سکتا ہے کہ تاریخ کی کوکھ میں دست قدرت نے کیا پلنے کے لئے چھوڑ رکھا ہے؟ ہر گز نہیں۔ اس کا بہت امکان ہے کہ تاریخ کا پہیہ جب اپنی گردش مکمل کر لے گا اور حالات میں بڑی تبدیلی پیدا ہوگی تو شاید اب عرب مسلمان ماضی کی غلطیاں نہیں دہرائیں گے۔ کیا یہی وہ خوف تو نہیں جس کی وجہ سے صہیونی و مغربی جنون کا شکار آج وہ جماعت ہو رہی ہے جو اپنے لوگوں کو انصاف دلانے کے لئے ان کے خلاف محاذ آرا ہوگئی ہے؟
مضمون نگار سینٹر فار انڈیا ویسٹ ایشیا ڈائیلاگ کے وزیٹنگ فیلو ہیں

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS