یوروپ کے دیگرملکوں کی طرح فرانس میں مسلمانوں کے خلاف ایک منفی جذبے کو فروغ حاصل ہوا ہے۔ یہ رجحان اگرچہ نیا نہیں ہے مگر ماہ اکتوبر میں حماس کے حملے کے بعد فرانس میں مسلمانوں اور یہودیوں کے درمیان تعلقات مزید خراب ہوگئے ہیں،کی تعداد سب سے زیادہ ہے اوریہودی بھی سب سے زیادہ فرانس میں پائے جاتے ہیں۔ مسلمانوں کی بڑی تعداد افریقہ بطورخاص مغربی افریقہ سے تعلق رکھتی ہیں۔ لہٰذا یہ رقابت رنگ، نسل اور مذہبی پیرائے میں رکھی جاتی ہے اور تینوں جذبوں کے ساتھ رشتوں کو متاثر کررہی ہے۔ یہودی کیونکر دیگر ممالک کی طرح یہاں بھی اقتصادی کاروباری انتظامی اور دیگر داروں پرگہری گرفت رکھتے ہیں توان کی رقابت اس طرح سامنے نہیں آپاتی جس طرح مسلمانوں کے اسرائیلیوں یایہودیوں کے تئیں نظریات ایک دم منظرعام پر آجاتے ہیں۔ فرانس کے کلچر میں بھی کچھ ایسی خصوصیات ہیں جو یہودیوں کو حالات کافائدہ اٹھانے اورسماج کو نفاق اور کشیدگی میں ڈالنے میں استعمال کرتے ہیں۔ فرانس کی اصل آبادی اور شہریوں کو اپنی زبان اور کلچر پربڑافخر ہے اور پورے یوروپ میں برطانیہ اور دیگر ممالک کی تہذیب اور زبان اور روایات کو بھی اہل فرانس کوچیلنج کرتے ہیں۔تہذیبی اقداراور لسانی مسابقت کاسبب بنتا ہے۔ اہل فرانس اپنے کلچر سے مختلف وضع قطع اختیار کرنے میں تامل اور تردد سے کام لیتے ہیں اور یہی تعصب اورخودپسندی اہل یہود اور صہیونی طاقتیں اپنے ایجنڈے کو آگے بڑھانے کے لیے استعمال کرتی ہیں۔جبکہ مسلمان ہرملک کی طرح فرانس میں بھی اپنے روایتی وضع قطع پرمصررہتے ہیں۔ فرانس حق اظہار خیال اس قدر اہمیت کاحامل ہے کہ وہ قانون شکنی اور امن وامان میں خلل کاسبب بن جاتا ہے۔ چارلی ہیبڈو کی توہین آمیزکارٹونوں کی اشاعت اور باربار اشاعت نے فرانس کے امن امان کوبرباد کردیا ہے۔ توہین آمیز کارٹونوں کا بار بار چڑانے کے لیے چھاپنا شرپسندانہ ذہنیت اور معاشرے کو تصادم کی طرف دھکیلناہے۔اس جریدے سے وابستہ یہودی قلم کار اور کارٹون نویسوں نے اس شوشے کو شعلہ بنادیا۔ فرانس کی مقامی آبادی اور مسلمانوں کو متصادم کرنے میں اس تنازع نے بہت پریشان کن صورت حال پیدا کردی ہے۔ اس کا فائدہ قرب وجوار دوردرازکے کئی یوروپی ملکوں میں سرگرم اسلام اور مسلمان مخالفوں نے خوب فائدہ اٹھایا اس طرح کئی ممالک میں یہ تاثر گیا کہ مسلمان ان یوروپی ممالک کی تہذیب، ثقافت اوربنیادی اساس کے مخالف قرار دینے کی کوشش کی گئی۔ دنیابھر میں مسلمان نماز جمعہ کا جس طرح اہتمام کرتے ہیں وہ اہل یہود کو گراں گزرتا ہے اور فرانس میں جتنی مسلم آبادی ہے وہ بھی تعداد کی وجہ سے مساجد کے باہر نماز کی ادائیگی پرمجبورہے اوردیگراقوام اس پر ناک بھوں چڑھاتی ہیں۔ اہل فرانس کو بھی لگتاہے کہ یہ مصروف معمولات زندگی میں مانع ہے۔ خاص طور پر فرانس کی راجدھانی پیرس جیسے ترقی یافتہ عالمی شہرت یافتہ شہر میں جمعہ کی نماز کے اجتماعات کو ثقافتی رویوں سے متصادم بناکر پیش کرنے کی کوشش ہوتی ہے۔ ایک قابل ذکربات یہ ہے کہ فرانس افریقی ملکوں میں حکومت کرنے کاعادی رہاہے اور وہ اپنی سرزمین پران سماجی رویوں کی وجہ سے اپنے آپ کو بے دست وپا پاتاہے۔ حجاب کے خلاف مہم، اذان کے خلاف ناراضگی، اسلامی شعائر کے انہی منفی رویوں کی وجہ سے پروان چڑھ رہے ہیں۔ غزہ پر حالیہ جارحیت نے فرانس میں ارباب اقتدار مسلمانوں اور یہودیوں کے درمیان توازن پیدا کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔n
فرانس:مسلمانوں کی دور اندیشی اور یہودی چیلنج
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS