اسرائیل سے اندھی محبت کا نتیجہ

0

امریکہ اور مغربی ممالک کی اسرائیل سے اندھی محبت اور مسلمانوں سے رقابت کے دوران سعودی عرب اور روس کے درمیان رازونیاز بڑھتا جارہاہے۔ روس کے صدر ویلادیمیرپوتن کاسعودی عرب کے ولی عہد محمدبن سلمان نے والہانہ انداز میں استقبال کیا اور دونوں ممالک نے تیل پیدا کرنے والے ممالک کی تنظیم ’اوپیک‘ سے اپیل کی ہے کہ وہ تیل اور دیگر پیٹرولیم مصنوعات کی پیدوار میں تخفیف کریں تاکہ عالمی معیشت کو بہتر کیاجاسکے۔ یہ اپیل ایسے وقت میں آئی ہے جب اوپیک،روس اور دیگرحلیفوں نے رضاکارانہ طور پر پیدوار میں 2,2ملین بیرل یومیہ کی تخفیف کرنے پر اتفاق کیاہے۔ جبکہ روس اور سعودی عرب نے اپنی اپنی پیدوار میں 1.3ملین بیرل یومیہ کم کرنے پر اتفاق کیا ہے۔ سعودی عرب اور روس تیل ایکسپورٹ کرنے والے دنیا کے دو سب سے بڑے ممالک ہیں۔ پتن اور محمدبن سلمان کے درمیان پیدوار کی تخفیف پراتفاق عالمی سیاست اور معیشت میں دونوں طاقتوں کے درمیان کئی امور میںاتفاق رائے اور بہتر ہوتے تال میل کی طرف اشارہ ہے۔امریکہ سعودی عرب پردباؤ ڈالتا رہاہے کہ وہ اپنی پیٹرولیم کی پیداوار میں اضافہ کرے تاکہ روس کی برآمدات پرپابندی کی وجہ سے مارکیٹ میں تیل کی کمی پیدا نہ ہو۔ نتن کایوکرین جنگ کے بعد حالیہ دورہ سعودی عرب ان معنی میں اہمیت کاحامل ہے کہ دونوں ملک عالمی عدالتی یاانٹرنیشنل کرمنل کورٹ (آئی سی سی) کے رکن نہیں ہیں۔ پتن کے خلاف آئی سی نے گرفتاری وارنٹ جاری کیا ہوا ہے اور ان کا کسی دوسرے ملک جانا ممکن نہیں ہے۔ اس وجہ سے وہ مغربی افریقہ اور ہندوستان میں بین الاقوامی چوٹی اجلاسوں میں شریک نہیں ہوئے تھے۔
سعودی عرب کے ولی عہد محمد بن سلمان اور روس کے صدر ویلادیمیرپتن کے درمیان صرف پیٹرولیم کی مصنوعات اوراس کی پیدوار پرہی گفتگو نہیں ہوئی بلکہ دونوں ممالک نے انتہائی حساس ایشوز ——غزہ میں اسرائیل کی بربریت اور یوکرین جنگ پربھی تبادلہ خیال کیا۔محمدبن سلمان کے حوالے سے جوبیان ذرائع ابلاغ میں آیا ہے کہ وہ بھی دلچسپی سے خالی نہیں ہے۔ انھوںنے کہا ہے کہ ہم دونوں (ممالک) مشترکہ مفادات اورباہمی دلچسپی کے امورمیں ایک ساتھ کام کررہے ہیں اور روس، سعودی عرب، مغربی ایشیا اور عالمی مفادات میں مصروف عمل ہیں۔
اس ملاقات کے دوران ایک اور حیرت انگیزبات سامنے آئی ہے اور وہ یہ ہے کہ ابتدا میں سعودی عرب کے ولی عہد کو روس جاناتھا مگربعدمیں پروگرام میں تبدیلی آئی اور محمدبن سلمان نے صدر موصوف کو اپنے ملک آنے کی دعوت دی۔ روسی صدرنے اس بات کا بھی انکشاف کیا کہ دونوں لیڈروں کے درمیان اگلی ملاقات ماسکو میں ہوگی اور کوئی بھی رکاوٹ دوستانہ تعلقات کے فروغ میں مانع نہیں آئے گی۔ دونوں ملکوں کے درمیان گرمجوشی کا اندازہ اس بات سے لگایاجاسکتا کہ روسی وفد میں پیٹرولیم، معیشت امورخارجہ، اسپیس نیوکلیئر، توانائی سے وابستہ اعلی ترین افسران اورقائدین موجود تھے۔ اس سے قبل خلیج کے ایک اور اہم ملک یواے ای بھی صدرپتن گئے تھے جہاں ان کا اسی گرمجوشی کے ساتھ استقبال کیاگیا اور تمام حساس اور اہم سیاسی اقتصادی اورباہمی مفادات کے امورپر گفتگو ہوئی۔ پتن ایران کے صدر سے بھی بات چیت کررہے ہیں۔ ایران بھی ان تمام حساس امور میں جداگانہ رائے رکھتاہے۔ایران اور روس پرانے حلیف ہیں اور دونوں کی گرمجوشی قدیمی ہے۔ n

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS