یہودی مخالف جرائم کی حقیقت اور پروپیگنڈہ

0

فرانس میں مسلمانوں اور یہودیوںکے درمیان زبردست رسہ کشی ہے اور دونوں ایک دوسرے پر سخت الزامات عائد کررہے ہیں۔ فرانس کے یہودیوں نے بدلے ہوئے حالات میں نئے انداز کی نفرت انگیزی کے الزامات عائد کیے ہیں اور کہاہے کہ یہودیوں کے خلاف نفرت نئے پیرائے میں نظرآرہی ہے۔ جبکہ مسلمان بھی الزام لگا رہے ہیں کہ مذہبی بنیاد پر ان کے خلاف سخت نفرت کا اظہار کیا جارہاہے۔
یہودیوںکے خلاف بڑھتی نفرت پرایک گروپ نے تشویش کا اظہارکیا ہے اوراس گروپ میںتین سو اہم افراد شامل ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ مکتوب جو مقامی زبان فرانسیسی زبان میں Le Parisianمیں شائع ہوا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ مکتوب میں کہاگیا ہے کہ یہودیوں کے خلاف نفرت پھیلانے والے افراد (مسلمان) قرآن کریم کی کچھ آیات کا استعمال کرتے ہیں اور ان شخصیات کا کہناہے کہ فرانس میں یہودیوں کے خلاف جرائم کے ارتکاب کے امکانات مسلمانوں کے خلاف ہونے والے جرائم سے زیادہ ہیں۔
ایک اوردلچسپ بات یہ ہے کہ یہ مکتوب ڈرافٹ کرنے والے چارلی ہیبڈو کے ایک سابق ایڈیٹر فلپ وال Philippe Valہیں۔چارلی ہیبڈو فرانس میں مسلمانوں کے جذبات برانگیختہ کرنے میں بہت بدنام ہے اور چارلی ہیبڈو میں شائع ہونے والے کارٹونوں نے فرانس میں بہت بھیانک پرتشدد وارداتوں کوجنم دیا اور کئی شہروں میں ان کارٹونوں کی اشاعت کے بعد انتہائی شدید ردعمل سامنے آیا تھا۔ فرانس اور اس کے کئی اہم شہروں میں پرتشدد وارداتوں کی وجہ سے اسلام کے تئیں منفی جذبات کوشہ ملتی ہے۔
دراصل غزہ پر اسرائیل کی جارحیت کے بعد دنیا بھر میں مسلمانوں اور یہودیوں کے درمیان کشیدگی بڑھی ہے۔ مسلم اورعرب ممالک کی رائے بھی یہی ہے کہ اسرائیل کے ساتھ قدیم مذہبی اقدار کی بنیاد پر رشتوں کو استوار کرکے مسئلہ فلسطین حل کیاجاسکتا ہے اور اس طرح مغربی ایشیا میں امن وامان قائم ہوسکتا ہے جبکہ اسرائیل کا وطیرہ بالکل جداگانہ ہے۔ وہ مسلمانوں کے ساتھ سمجھوتہ تو مذہبی اقدار کی بنیاد پر کرنا چاہتا ہے مگر مسئلہ فلسطین حل کرنے کے لیے فلسطینیوں کو ان کی زمین واپس کرنے اور آزاد اور خودمختار مملکت کے قیام کے لیے بالکل تیار نہیں ہے۔ کئی عرب اور مسلم ملکوں کے ساتھ اس کے تعلقات تواستوار ہوگئے ہیں مگر وہ فلسطینیوں کی غصب کی گئی زمین کوخالی کرنے کو تیار نہیں اوراس کے بجائے رہے سہے علاقوں کوبھی قبضہ کرنے اور ان پر اپنا مکمل اقتدار اعلیٰ قائم کرنے کی درپے ہے۔
یہودیوں اوران سے ہمدردی رکھنے والے افراد کے اس مکتوب میں 2006سے لے کر اب تک فرانس میں مرنے والے 11یہودیوں کی اموات کا ذکر کیاگیا ہے اور ان تمام واقعات کاذکر کیاگیاہے جس میں ظلم کاشکار مذہبی یہودی اور ظلم کرنے والا مسلمان ہے۔
اس مکتوب کے جواب میں مسلمانوں کے اہم لیڈروں اور اکابرین نے کہاہے کہ چھانٹ چھانٹ کر ایسی مثالیں دی گئی ہیں جومذکورہ بالا زمروں میں آتے ہیں۔ پیرس کی جامع مسجد کے نگراں دالل ابوبکر نے کہاہے کہ اس مکتوب میں مسلم عقیدے کے لوگوں کو یہودی مخالف وارداتوں کے لیے استعمال کیاجارہاہے۔ دالل ابوبکر نے واضح کیا ہے کہ اس دام میں گرفتارنہیں ہوناچاہیے کیونکہ یہ درجہ بندی دونوں فرقوں کے درمیان منافرت کوہوا دے گی۔
ایک اورمسلم لیڈر اور اسلامو فوبیا کے خلاف سرگرم تنظیم نیشنل آبزرویٹری اگینسٹ اسلاموفوبیا کے سربراہ عبداللہ ذکری نے اس مکتوب کے متن اور منشا پرسوال اٹھائے ہیں اور کہاہے کہ یہ ملک میں ایسی تباہ کن بحث شروع کردے گی۔جبکہ فرانس کے مسلمانوں کاایک طبقہ اور باشعور طبقہ یہودیوں کے خلاف جرائم اورنفرت انگیزی کے خلاف ہے اور بغیرکسی موازنہ کے اس کی رائے ہے کہ فرقہ واریت اور نفرت انگیزی کے خلاف ہے اور اس رویہ کی تردید اورمذمت کرتاہے۔
فرانس کے 30ائمہ کرام نے اس زوردار مگر مصنوعی بحث کے دوران کہا ہے کہ یہودیوں اور یہودی مخالف جذبات اورنظریہ ایسے عناصر سے متاثرہوکر لکھاگیا ہے جو سخت گیر ہوسکتے ہیں مگر ان کے نظریات قرآن پرمبنی نہیں ہیں۔ ائمہ کرام نے کہاہے کہ اسلام ایسے لوگوں کے ہاتھوں میں پڑگیا جو مغرور، تخریبی اورکاہل ہیں اور آج کا نوجوان اسی طرح کے نظریات کاشکارہوسکتاہے۔
مسلمانوں کی طرف سے آنے والے ایسے جواب میں فرانس کے اندر مسلمانوں کے کچھ طبقات میں فروغ پانے والے کچھ منفی رجحانات کا دفاع نہیں کیا ہے اور اس طرزفکر کواسلامی تعلیمات سے خلط ملط نہیں ہونے دیاہے اور پورا زور اسلام، قرآن اور احادیث پرمبنی رکھ کر مٹھی بھرتنگ ذہن افراد کے طرزعمل سے جدا رکھا ہے۔ ان دانشور اور دوراندیش علماء اورائمہ نے مسلمانوں کے اندرونی احتساب اورطرزفکر پرنظرثانی سے اجتناب نہیں کیا اور اس مکتوب کے ذریعہ مسلمانوں کوخودبھی دعوت فکر کی طرف راغب کرتاہے۔
اس بحث سے قطع نظر فرانس کی وزارت داخلہ نے جواعداوشمار دیے ہیں، ان میں یہودیوں کی حمایت میں آنے والے مکتوب اور بیان کے بالکل برخلاف حقائق نکل کر آئے ہیں وزارت داخلہ کے مطابق 2017کے بعد سے یہودیوں کے خلاف جرائم میں لگاتار تیسرے سال کمی کا رجحان سامنے آیا ہے اور اس سال بھی پچھلے سال کے مقابلے میں Anti Semiticجرائم میں سات (7)فیصد کمی آئی ہے۔
یوروپ میں فرانس میں یہودیوں کی سب سے بڑی آبادی رہتی ہے۔ تازہ ترین مردم شماری میںیہودیوں کی تعداد تقریباً 400,000جبکہ 2000میں فرانس میں 500,000یہودی رہتے تھے۔
ایک طرف یہودی اپنے خلاف مظالم اور جرائم کی بات کررہے ہیں اور فرانس میں یہودی مخالف جذبات کا ڈھول پیٹ رہے ہیں جبکہ امریکی کونسل برائے اسلامک ریلیشن (سی اے آئی آر) نے امریکی مسلمانوں سے اپیل کی ہے کہ وہ وہاں مسلمانوں کے بھڑکتے جذبات کے پیش نظر فرانس کا دورہ نہ کریں۔ امریکی مسلمانوں نے فرانس کی صورت حال کے بارے میں تبصرہ کرتے ہوئے کہاہے کہ وہ اس وقت تک فرانس نہ جائیں جب تک حکومت خود ان منفی جذبات کو ہوا دینے سے نہ رک جائے۔ سی اے آئی آر کے ڈپٹی ڈائریکٹر ایڈورڈ احمرمشعل نے کہا کہ مسلمانوں کے خلاف جذبات کو ہوادی جاری ہے اور مذہبی پوشاک زیب تن کرنے پر مسلم خواتین کو ہراساں کیاجارہاہے اور کچھ افراد کے جرائم کی وجہ سے پورے فرقہ کوسزا دینے کارویہ اختیار کیاجارہاہے۔n

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS