برطانیہ نے اگر موجودہ حالات کو نظرانداز نہیں کیا ہے تو مستقبل کے اپنے مفادات کو بھی فراموش نہیں کیا ہے۔ امریکہ کا اتحادی اور اسرائیل کا حامی ہونے کے ناطے اس کے لیے امریکہ کے موقف سے پوری طرح الگ موقف اختیار کرنا مشکل ہے تو اسرائیل کا ساتھ چھوڑنا بھی مشکل ہے۔ غالباً اسی وجہ سے حماس کے حملوں کے بعد رشی سنک نے اسرائیل کا دورہ کیا، مگر غزہ جنگ کے معاملے پر برطانیہ ایکدم سے امریکہ والی پوزیشن اختیار کرنا نہیں چاہتا۔ برطانیہ کی سنک حکومت سے یہ پوشیدہ نہیں ہے کہ حماس کے حملوں کے بعد عالمی سطح پر اسرائیل کو جو ہمدردی حاصل ہوئی تھی، غزہ میں اسپتالوں، ایمبولینسوں، اسکولوں، مہاجر کیمپوں پر بمباری کرکے اور بڑی تعداد میں خواتین و اطفال کو مارکر اس نے وہ ہمدردری کھو دی ہے۔ اب عالمی برادری میں فلسطینیوں کے لیے ہمدردی بڑھتی جا رہی ہے، غزہ جنگ نے مسئلۂ فلسطین کو پھر سے زندہ کر دیا ہے اور اسرائیل کی بیجا حمایت نے امریکہ کو کافی نقصان پہنچایا ہے۔ ایسا لگتا ہے جیسے اس کا دائرۂ اثر سمٹ گیا ہے۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں شمالی یروشلم اور مقبوضہ شامی گولان سمیت مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں اسرائیلی بستیوں کی تعمیر کے خلاف قرارداد پر ووٹنگ ہوئی تو ہندوستان سمیت 145 ممالک نے اس قرارداد کی حمایت میں ووٹ ڈالا جبکہ امریکہ سمیت صرف 7 ممالک نے مخالفت میں ووٹنگ کی۔ 18 ممالک غیر حاضر رہے۔ ایسی صورت میں وزیر داخلہ اور وزیر خارجہ کے طور پر برطانیہ میں نئے لیڈروں کا انتخاب حیران کن نہیں ہے۔ برطانوی وزیراعظم رشی سنک نے وزیر داخلہ کے عہدے سے سوئیلا بریورمین کو ہٹاکر کیا اشارہ دیا ہے اور وزیر خارجہ کے لیے ڈیوڈ کیمرون کا انتخاب کیوں کیا ہے، یہ بات ناقابل فہم نہیں ہے۔
سوئیلا بریورمین اپنے بیانات کے لیے مشہور رہی ہیں۔ ان کا یہ بیان سرخیوں میں آیا تھا کہ ’ہم اپنی سڑکوں پر تمبوؤں کی قطاروں سے لوگوں کو قبضہ نہیں کرنے دیں گے، جن میں سے کئی لوگ غیر ممالک سے آئے ہیں۔ یہ لوگ اپنی لائف اسٹائل چوائس کے طور پر سڑکوں پر رہتے ہیں۔‘ اور ’ حکومت برطانیہ کے شہروں کو سان فرانسسکو اور لاس اینجلس جیسا نہیں بننے دے سکتی ہے۔۔۔۔ ان دونوں شہروں میں لوگ سڑک کے فٹ پاتھ پر رہتے ہیںاور وہاں جرائم کی شرح سب سے زیادہ ہے۔‘ جبکہ ’دی ٹائمز‘کے لیے تحریر کردہ اپنے ایک حالیہ مضمون میں سوئیلا بریورمین نے لندن پولیس پر فلسطین حامی ہونے کا الزام عائد کیا تھا۔ ان کا ماننا تھا کہ غزہ جنگ شروع ہونے کے بعد مظاہرین سے پولیس نے سختی سے نہیں نمٹا۔ سوئیلا بریورمین نے بھلے ہی ایک مضمون نگار کی حیثیت سے یہ بات کہی ہو لیکن عہدے پر رہتے ہوئے یہ بات کہی تھی، اس لیے اسے برطانیہ کی وزیرداخلہ کے موقف کا اظہار سمجھا جانا غیرفطری نہیں تھا اور برطانیہ جیسے جمہوری اقدار کو اہمیت دینے والے ملک میں یہ بات کیسے قابل قبول ہو سکتی تھی کہ مظاہرین کو روکنے کے لیے پولیس سختی کا مظاہرہ کرے۔ جذبات کا اظہار کرنے سے لوگوں کو اگر پولیس روک دیتی، مظاہرہ نہیں کرنے دیتی تو پھر برطانیہ اور ان ملکوں میں کیا فرق رہ جاتا جہاں جمہوریت نہیں ہے یا نام نہاد جمہوریت ہے، چنانچہ سوئیلا بریورمین کے موقف سے برطانوی حکومت کا دباؤ میں آنا ناقابل فہم نہیںتھا، برطانیہ کے وزیراعظم کی حیثیت سے رشی سنک کو فیصلہ لینا تھااور آج ان کی حکومت نے فیصلہ لے لیا۔ سوئیلا بریورمین کی جگہ جیمز کلیورلی کو برطانیہ کا وزیرداخلہ بنا دیا گیا۔ اب سوال یہ ہے کہ برطانوی حکومت کو وزیر خارجہ بھی بدلنے کی ضرورت کیوں پیش آئی اور جیمز کلیورلی کو وزیر داخلہ کی ذمہ داری دے کر ان کی جگہ ایک سابق وزیراعظم کو وزیرخارجہ کے طور پر کیوں منتخب کیا گیا؟
دراصل دنیا کے حالات بڑی تیزی سے بدل رہے ہیں۔ غزہ کی جنگ نے یہ اشارہ دے دیا ہے کہ یہ وقت خارجہ پالیسی میں ذرا سی بھی چوک کرنے کا وقت نہیں ہے۔ ڈیوڈ کیمرون برطانیہ کے وزیراعظم رہ چکے ہیں۔ وہ دنیا کے بدلتے ہوئے حالات کو اپنے سابقہ تجربوں کی روشنی میں دیکھ سکتے ہیں۔ ان کے لیے برطانیہ کی خارجہ پالیسی کو صحیح سمت میں رکھنا زیادہ مشکل نہیں ہوگا اور وہ بڑے فیصلے لینے میں رشی سنک کے لیے آسانی پیدا کر سکتے ہیں۔ یہ ذکر ضروری ہے کہ ڈیوڈ کیمرون بریگزٹ کے ایشو پر وزیراعظم کے عہدے سے مستعفی ہو گئے تھے۔ برطانیہ کے وزیر خارجہ کے عہدے کے لیے کیمرون کا انتخاب برطانوی وزیراعظم رشی سنک کا ایک دانشمندانہ قدم ہے۔ مسئلۂ فلسطین سمیت دیگر ایشوز پر کیمرون کے موقف کے اظہار کے بعد ہی یہ سمجھنا آسان ہوگا کہ آخر انہیں وزیر خارجہ بنایا کیوں گیا ہے؟
[email protected]
برطانیہ: وزرا تبدیل کیوں ہوئے؟
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS