مغربی بنگال میں ’گڈ گورننس اور بدعنوانی‘: محمد فاروق اعظمی

0

محمد فاروق اعظمی

جمہوریت کی کامیابی کا انحصار ’گڈ گورننس‘کو بتایا گیا ہے۔ اسی گڈ گورننس کی وجہ سے امریکہ اور یوروپ کا شمار آج پہلی دنیا میں ہو رہا ہے۔جن ممالک میں گڈ گورننس یا اچھی حکمرانی ہے ،وہ ترقی کی راہ پر بگٹٹ چلے جارہے ہیں اور جہاں حکمرانی کے نام پر لوٹ کھسوٹ، بدعنوانی، اقربا پروری ، چور بازاری اور کالابازاری کا سکہ چل رہاہے، وہاں نہ تو ترقی کی شمع ہی روشن ہوئی ہے اور نہ جمہوریت کو ہی استحکام ملا ہے۔ایسے ممالک کی فہرست میں ہندوستان جنت نشان بھی شامل ہے۔ بدعنوانی اور چور بازاری کے شعبہ میں دنیا کے 180ممالک کی فہرست میںہندوستان 40پوائنٹ کے ساتھ 80ویں مقام پر پہنچ گیا ہے۔مجموعی طور پر پورا ملک بدعنوانی اور لوٹ کھسوٹ کا بازار بنا ہوا ہے۔ بدعنوانی کی لہر نے شمال سے جنوب اور مشرق سے مغرب تک پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔
ملک کی مشرقی ریاستوں میں تو یہ بدعنوانی بے قابو ہوچکی ہے۔ کل تک ایمانداری، دیانت داری اور صاف ستھری سیاست کیلئے مشہور مغربی بنگال آج بدعنوانی کی دلدل میں ایسا غرق ہوا ہے کہ الحفیظ الاماں۔ وزارت سے اسکول تک، تعمیرات سے صنعت وحرفت اور سیاحت تک کوئی ایسا شعبہ نہیں بچا ہے جہاں ’حق‘ سمجھ کر بدعنوانی نہ کی جارہی ہو۔ ریاستی انتظامیہ کی ہر سطح پر منظم بدعنوانی اور لوٹ مار کا ایک مکمل ایکو سسٹم بن چکا ہے۔اس سسٹم میںریاستی وزرا ، ارکان قانون سازیہ اور بلدیاتی اداروں میں منتخب حکمراں جماعت کے نمائندے شامل ہیں۔ ٹیچروں کی تقرری کا گھوٹالہ ابھی تک زیر تفتیش ہے۔ صنعتوں کیلئے زمینوں کے الاٹمنٹ کا معاملہ تفتیش کی سان پر چڑھا ہوا ہے۔ ندیوں سے غیر قانونی طریقہ سے ریت اور بالو کی نکاسی کرکے پوری ریاست کو پیاسا مار ڈالنے کی منظم کارروائی کھلے عام ہورہی ہے۔ کوئلہ اسمگلنگ کے ملزمین تہاڑ نشیں ہیں۔غیر قانونی تعمیرات کے جال نے ریاست کے ہر شہر کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے، کولکاتا سے سلی گوڑی ، آسنسول تک غیرقانونی تعمیرات حکمرانوں اور حکمراں جماعت کی غیرقانونی آمدنی کا بڑا ذریعہ بنے ہوئے ہیں۔اب یہ عقدہ کھل رہا ہے کہ کل تک سائیکل پر چلنے والا ایک عام ساپارٹی کارکن وارڈکونسلر بننے کے بعد آج بڑی بڑی چمکتی دمکتی گاڑیوں پر چل رہاہے تو اس کے پیچھے کس کا ہاتھ ہے۔لیکن افسوس ناک بات تو یہ ہے کہ حکمرانوں کی ہوس کا سلسلہ یہیں نہیں تھمتا ہے۔ عام آدمی کے راشن پانی کو بھی حکمرانوں نے اپنی بدعنوانی کا شکار بنا رکھا ہے۔ کھانے پینے کی چیزوں میں لوٹ کھسوٹ نہ صرف معمول کی بات ہوگئی ہے بلکہ حکمرانی کے منصب پرفائز افراد اسے اپنا ’حق ‘بھی سمجھنے لگے ہیں۔
راشن تقسیم میں بدعنوانی کے سنگین معاملہ میں گرفتار ہونے والے ریاست کے موجودہ وزیرجنگلات اور سابق وزیرخوراک جیوتی پریہ ملک سے ہورہی تفتیش میںمرکزی ایجنسی نے اب تک جو راز دریافت کیے ہیں، اس سے یہ ِظاہر ہورہاہے کہ وہ اس منظم بدعنوانی کے پورے ایکو سسٹم کا سرگرم حصہ ہیں۔
ریاست میں راشننگ سسٹم کے ذریعہ تقریباً تمام شہریوں کو سستا اناج حاصل کرنے کا موقع ملتا ہے۔ راشننگ کا یہ نظام مرکزکے تعاون سے ریاستی حکومت چلاتی ہے۔راشن کی تقسیم کیلئے حکومت کسانوں سے مناسب قیمت یا کم از کم معاوضہ کی ادائیگی پر چاول اور گیہوں جمع کرتی ہے اوراس اناج کو مفت یا معمولی قیمت پر شہریوں کے درمیان راشننگ نظام کے ذریعہ تقسیم کیاجاتا ہے۔اس نظام کے ذریعہ حکومت غریبوںاور عام آدمیوں کے ساتھ ساتھ کسانوں کے مفاد میں بھی بھاری رقم خرچ کرتی ہے۔لیکن لگاتار 10برسوں سے ترنمول حکومت کے وزیرخوراک جیوتی پریہ ملک کی قیادت میں بدعنوانی کا عجیب و غریب حربہ استعمال کرتے ہوئے اس راشننگ نظام کو چلانے والے سرکاری فنڈز کا قابل لحاظ حصہ ہڑپ کر لیا گیا۔ مرکزی تفتیشی ایجنسی انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ(ای ڈی) نے اپنی تحقیقات کے آغاز سے اب تک 20کروڑ روپے برآمد کیے ہیں اور اس کا دعویٰ ہے کہ اس بدعنوانی کے ذریعہ ملزمین نے 350 کروڑ روپے لوٹے ہیں۔تفتیش میںیہ بات سامنے آئی ہے کہ اناج کی ہر بوری سے30فیصد اناج نکال لیاجاتاتھا یعنی100کلو کی بوری میں صرف70کلو اناج ہوتا تھا۔الیکشن کمیشن کو دیے گئے حلف نامہ میں جیوتی پریہ ملک نے اپنی بیوی کے کھاتے میں 45 ہزار روپے دکھائے تھے۔ ای ڈی کا دعویٰ ہے کہ اگلے ہی سال یہ رقم 6 کروڑ روپے تک پہنچ گئی۔ نوٹ بندی کے وقت وزیر کی بیوی منی دیپا کے بینک اکاؤنٹ میں بھی 4.3 کروڑ روپے جمع تھے۔ای ڈی کے چھاپے میں جیوتی پریہ ملک کے پاس بے حساب جائیداد ملی ہے۔ جیوتی پریہ ملک نے اپنی بیوی، بیٹی، اپنے پی اے اور اپنے خاندان کے افراد کے نام پر فرضی کمپنیاں کھول رکھی ہیں۔ ای ڈی کو فرضی کمپنیوں کے ذریعے 95 کروڑ روپے کی منی لانڈرنگ کے ثبوت ملے ہیں۔ نوٹ بندی کے بعد ان کی بیٹی کے بینک اکاؤنٹ سے 3.37 کروڑ روپے منتقل کیے گئے ہیں۔ای ڈی نے ریاستی وزیر جیوتی پریہ ملک کی بیٹی سے تفتیش کے دوران جب ان کی آمدنی اورا خراجات کے بارے میں دریافت کیا اوران کے اکائونٹ میں موجودبھاری رقم کے وسائل کو جانناچاہا تو پریہ درشنی ملک نے اس کی دلچسپ وضاحت کی اور کہا کہ انہوں نے ٹیوشن پڑھا کر3.37کروڑ روپے کمائے ہیں۔یہاں یہ ذکر بے جا نہ ہوگا کہ ریاستی وزیر جیوتی پریہ ملک کی بیٹی پریہ درشنی ملک ایک اسکول ٹیچر ہیں اور ان کی سالانہ تنخواہ 2.48 لاکھ روپے ہے۔
غریبوں کیلئے شروع کی گئی اس راشن کی چوری کا سلسلہ گزشتہ 10برسوں سے جاری ہے اور وزیراعلیٰ ممتابنرجی کا دعویٰ ہے کہ وہ اس سلسلے میں کچھ نہیں جانتی ہیں۔لیکن وہیں گرفتار وزیر جیوتی پریہ ملک کا کہنا ہے کہ دیدی(ممتابنرجی) اور ’بھائی پو‘ یعنی ممتابنرجی کے بھتیجہ ابھیشیک بنرجی جانتے ہیں کہ وہ ’بے قصور ‘ ہیں۔
کوئلہ اسمگلنگ کے معاملے میں ای ڈی اور سی بی آئی ممتابنرجی کے بھتیجے اور ایم پی ابھیشیک بنرجی، ابھیشیک بنرجی کی بیوی روزیرا بنرجی، روزیرا بنرجی کی بہن سمیت کئی لوگوں سے پوچھ گچھ کر چکی ہے۔ ممتاکابینہ کے کئی سینئر وزیر یکے بعد دیگرے چوری ، بدعنوانی ، لوٹ کھسوٹ اور اسمگلنگ کے ملزم پائے جارہے ہیں، انہیں گرفتار کیا جارہا ہے، جیل بھیجا جارہا ہے۔ وزیرتعلیم پارتھو چٹرجی، انوبرتو منڈل( بیربھوم ترنمول ضلع صدر)، مانک بھٹاچاریہ( ترنمول ایم ایل اے)، جیون کرشنا ساہا(ترنمول ایم ایل اے)، کنتل گھوش اور شانتنو بنرجی (ترنمول یوتھ لیڈر)، کالی گھاٹ کے کاکو کے نام سے معروف ابھیشیک بنرجی کے دست راست کرشن بھدراجیل میں ہیں۔ ان حالات میں وزیراعلیٰ ممتابنرجی کی ایمانداری ، دیانت داری اور گڈ گورننس کا بلند بانگ دعویٰ مضحکہ ہی محسوس ہوتا ہے۔ ایسے میں اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ مغربی بنگال میں عوام کے پیٹ پر لات مارتے ہوئے ’جمہوریت‘ کے سارے ثمرات حکمراں طبقہ سمیٹ رہاہے۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS