اسرائیل کے بزدلانہ حملوں سے لہو لہان غزہ

0

علیزے نجف
اسرائیل اور حماس جنگ کو شروع ہوئے ایک مہینہ مکمل ہو چکا ہے، غزہ کی اس دردناک تباہی پر پتھر دل انسان کی آنکھوں سے بھی بے اختیار آنسو نکل رہے ہیں، ایک قیامت ہے جو ان پر برپا ہے کچھ بھی خبر نہیں کہ کب کس کی سانس آخری ہو، اس غیر مہذب جنگ کے خلاف عالم انسانیت مسلسل احتجاج کر رہی ہے، لیکن اسرائیل کی شقی القلبی ہے کہ بڑھتی ہی جا رہی ہے، 7 اکتوبر کو ہونے والی پسپائی نے اسرائیل کو اس قدر بوکھلا دیا ہے کہ ایک مہینے کے بعد بھی اس کے حواس قابو میں نہیں آ رہے ہیں، ردعمل کی نفسیات سے پوری طرح مغلوب ہو کر وہ دن ورات غزہ پر مسلسل حملے کئے جا رہا ہے، اسرائیل کی منافقت اور بزدلی کا عالم یہ ہے کہ وہ ایک طرف عام شہریوں کو عمارتوں کو خالی کرنے کی وارننگ دیتا ہے اور جب وہ فلسطینی عوام اپنی جان بچانے کے لئے وہاں سے دور جانے کی کوشش میں ہوتے ہیں تو ان کے قافلوں اور بے سروسامانی کے عالم میں رہ رہے ان کے کیمپوں پر حملے کرتا ہے، اسپتالوں، مساجد، اور اسکول بھی ان کے مظالم ہاتھوں سے ڈھائے جا رہے ہیں، زخمیوں کو لے جارہے ایمبولینس بھی ان کے حملوں سے محفوظ نہیں ہیں، اب تک دس ہزار سے زائد لوگ شہید ہو چکے ہیں، جس میں 4 ہزار 880 بچے شامل ہیں اس میں عورتوں کی ایک بڑی تعداد ہے، حماس کے نام پر ہونے والی یہ جنگ عام شہریوں کے لئے تباہی کا باعث بن رہی ہے، اسرائیل کی یہ ظالمانہ حرکتیں ہر شہری کو ہتھیار اٹھانے پہ مجبور کر دے گی اگر ایسا ہوا تو پھر اسرائیل بھی چین سے جی نہیں پائے گا جب بات وجود کو بچانے کی آجائے تو پھر جان کھونے کا خوف دل سے جاتا رہتا ہے۔ اس وقت اسرائیل اگر تمام انسانی و اخلاقی اصولوں کو پامال کر کے جنگ جیت بھی جائے تو بھی تاریخ انسانی اسے ہٹلر کی طرح ملعون و مطعون کرتی رہے گی، یہ ہر کوئی جانتا ہے کہ یہ جنگ نابرابری کی جنگ ہے ایک طرف جدید ہتھیاروں سے مسلح فوج اور دوسری طرف ناکافی ہتھیار لئے تھوڑے سے حماس کے لوگ یا پھر نہتے عوام، ان پہ بم برسا کر بے دست و پا کر کے کون سی طاقت دکھائی جا رہی ہے، اسرائیل کو اپنی بالا دستی کا اتنا ہی جنون ہے تو کمزوروں کو نشانہ بنا کر خوش ہونے کے بجائے برابر کی جنگ لڑنے کو ترجیح دے، یہ ایک بزدلانہ جنگ ہے جو امریکہ کی پیشوائی میں لڑی جا رہی ہے امریکہ ایک طرف غزہ کی عام عوام کے ساتھ جھوٹی ہمدردی ظاہر کرتا ہے، دوسری طرف انھیں کو تباہ کرنے والے ہتھیار بھی اسرائیل کو فراہم کرتا ہے اور جنگ بندی کی مخالفت کرتا ہے۔
برطانیہ اور امریکہ نے اسرائیل کو گود لے کر اسے پروان چڑھایا اس کی ہر جائز و ناجائز خواہشات کو پورا کر کے اسے اس قدر خودسر بنا دیا ہے کہ اقوام متحدہ جیسی تنظیم کو بھی وہ آنکھ دکھاتے ہوئے نہیں ڈرتا، اس کو برخاست کرنے کا مطالبہ کرتا ہے، امریکہ و برطانیہ میں رہنے والے یہودی بھی ان کے اس دوغلے رویے پہ احتجاج کر رہے ہیں اور اسرائیل کو ظالم قرار دے رہے ہیں اور وہ لوگ بحیثیت یہودی کے خود کو اس جنگ سے الگ ہونے کی بات کر رہے ہیں۔
غزہ کی اس لہو زار حالت کے ذمہ دار عرب ممالک بھی ہیں جو کہ محض اپنے مفاد کے لئے غزہ کی پشت پناہی کے لئے تیار نہیں ہیں، ان کی اس بے حسی نے غزہ کو بے آ سرا کر دیا ہے، یوں لگ رہا ہے جیسے جس کی لاٹھی اس کی بھینس اور یہ عرب ممالک چاہتے نہ چاہتے ہوئے اسی بھینس کے آگے بین بجاتے ہوئے آرہے ہیں جو اس کو ذرا بھی خاطر میں نہیں لا رہے ہیں، اسرائیل جنگی قوانین کو توڑ کر محض اپنی عسکری طاقت کو ثابت کرنے کے لئے وحشیانہ انداز میں حملے کئے جا رہا ہے اور ہر 24 گھنٹے میں وہ حماس کے خاتمے کی بات کرتا ہے جب کہ غیر ملکی ذرائع سے یہ بات سامنے آ رہی ہے کہ زمینی جنگ میں غزہ میں اسرائیلی فوج کو بھاری نقصان کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، درجنوں اسرائیلی فوج حماس کے ہاتھوں ہلاک ہو چکے ہیں۔ ان کے بیس ٹینک تباہ ہوگئے ہیں اس کی وجہ سے یہودیوں میں بے چینی پائی جا رہی ہے اسرائیل میں نیتن یاہو کے خلاف مظاہرے ہو رہے ہیں وہ لوگ جنگ بندی کا مطالبہ کر رہے ہیں، اقوام متحدہ سے وابستہ اٹھارہ اداروں کے سربراہ نے معصوم شہریوں، بچوں اور عورتوں کے بہنے والے خون ناحق کے خلاف غم و غصہ کا اظہار کرتے ہوئے بآواز بلند اسرائیل کو تنبیہ کرتے ہوئے کہا کہ بہت ہو چکا یہ سب اب بند ہونا چاہئے، جنرل اسمبلی میں غزہ پر اسرائیلی فضائی، بری و بحری حملوں کی مذمت اور جنگ بندی پر 120 ممالک نے اس کی حمایت کی جب کہ 14 ممالک بشمول امریکہ نے جنگ بندی قرارداد کی مخالفت کی 4 ممالک نے خود کو اس قرار داد سے الگ رکھا اور کسی بھی طرح کی شمولیت سے اجتناب کیا جس میں ہندوستان بھی شامل ہے، ہندوستان کی خاموشی وشوگرو ہونے پر سوال اٹھا رہی ہے، اس جنگ بندی کی قرارداد کو اسرائیل نے ذرہ برابر اہمیت نہیں دی، نیتن یاہو جو کہ انسانی اقدار اور اخلاقی اصولوں سے مکمل طور سے عاری ہو چکا ہے بھلا اس سے جنگ بندی کی امید کیسے کی جا سکتی ہے۔ اس کی اس حیوانیت کو دیکھتے ہوئے خود ان کے مذہبی پیشواؤں نے بھی ان کے اس اقدام کی مذمت کی ہے اور خدا کا واسطہ دے کر جنگ بندی کی اپیل کی ہے۔
غزہ میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ جنگ نہیں قتل عام اور نسل کشی ہے، تہذیب یافتہ قومیں تماشائی کی طرح کھڑی تماشہ دیکھ رہی ہیں، فی الحال ابھی اس جنگ کے رکنے کے کوئی آثار نظر نہیں آ رہے ہیں، ایسے میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اسرائیل کی اس بڑھتی بربریت پر لگام کیسے اور کون ڈالے گا؟ محض باتوں اور امدادی سامان فراہم کرنے سے فلسطینی عوام کی زندگیوں کو محفوظ نہیں کیا جا سکتا، بیشک کئی عرب ممالک نے اسرائیل کو وارننگ دینے کی جرأت کی ہے کہ اگر اسرائیل غزہ پر زمینی سطح پر حملہ کرتا ہے تو وہ پھر بدترین عاقبت کے لئے تیار رہے، اس وقت اسرائیلی افواج زمینی سطح پہ حماس اور فلسطینی عوام سے برسرپیکار ہیں ایسے میں عرب ممالک کی پیش قدمی کیا ہوتی ہے اس پر دنیا کی نگاہیں مرکوز ہیں۔
فلسطینیوں کو تباہ کرنے کے بعد مذاکرات کی میز پہ آنا کوئی معنی نہیں رکھے گا، جیسا کہ امریکہ نے بھی اس بات کو تسلیم کر لیا کہ دو ریاستی حل ہی اس جنگ کا خاتمہ کر سکتا ہے تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا امریکہ دو ریاستی حل کو ماننے کی شرط پر وہ اسرائیل کو امداد فراہم کرنے کی بات کرتا ہے نہ ماننے کی صورت میں بائیکاٹ کرنے کی جرأت رکھتا ہے، امریکہ نے اب تک اسرائیل کے خلاف پاس کی جانے والی ہر قرار داد کو ویٹو کیا ہے، اس قدر ویٹو کا استعمال اس نے اب تک اپنے لئے بھی نہیں کیا ہے، امریکہ منافق ہے وہ اپنی سپر پاور کی طاقت کو برقرار رکھنے کے لئے کسی کا بھی گلا کاٹ سکتا ہے، روس کے بالمقابل وہ یوکرین کی مدد کو انسانی حقوق کی پاسداری کا نام دے رہا تھا لیکن یہی انسانیت فلسطینیوں کے لئے مفقود ہے، روس کو بدترین نتائج سے خبردار کر رہا تھا لیکن اسرائیل کو یہ کہنے کی جرأت اس کے پاس نہیں ہے، روس اور چین کی بڑھتی ہوئی طاقت نے اسے رات تو رات بلکہ دن میں بھی چوکنا رہنے پر مجبور کر دیا ہے۔ اسرائیل کی حیوانیت و انانیت کی وجہ یہی مغربی ممالک ہیں اس جنگ نے ان کے اصل چہرے کو مزید دنیا پر آشکار کر دیا ہے۔
اس وقت غزہ کی حالت انتہائی قابل رحم ہے دوائیں، پانی، کھانا، بجلی، سر چھپانے کی جگہ سب ختم ہوتی جا رہی ہیں، حملوں سے بچ جانے والے لوگ زخم کی شدت اور بھوک کی وجہ سے سسک سسک کر مرنے پر مجبور ہیں، اقوام متحدہ کی ایجنسی کے غزہ کے ڈائریکٹر نے کہا ہے کہ غزہ میں روزآنہ اوسطاً فلسطینی آٹے سے بنی عربی روٹی کے دو ٹکڑوں پر زندہ ہیں جسے اقوام متحدہ نے اس خطے میں ذخیرہ کیا تھا گلی میں پانی پانی کی صدا بلند ہو رہی ہے کیوں کہ اسرائیل سے سپلائی ہونے والی تین پائپوں میں سے صرف ایک کام کر رہی ہے، بہت سے لوگ دستیاب ہونے پر کھارے یا نمکین زمینی پانی پر انحصار کر رہے ہیں اس وقت غزہ کے لوگوں کی حالت کو دیکھتے ہوئے دنیا کے مختلف حصوں میں صدائے احتجاج بلند کی جا رہی ہے لیکن افسوس کی بات ہے کہ عرب ممالک کسی تماشائی کی طرح کھڑے حالات کا نظارہ کر رہے ہیں، آپسی نااتفاقی اور وقتی مفاد نے ان سے ان کا ضمیر چھین لیا ہے۔ وقت ان کی اس بے حسی کا محاسبہ ضرور کرے گا۔ اس وقت پوری دنیا کے عام عوام کا ضمیر تاریخی کردار ادا کر سکتا ہے، ہم جمہوریت کے دور میں جی رہے ہیں اس کے ذریعے ہی ان ناخلف طاقتوں کو لگام ڈالی جا سکتی ہے۔

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS