قوم کے دو معمار- اقبال اور آزاد: زین شمسی

0

زین شمسی

نومبر کا مہینہ ہے، چھٹ اور دیوالی ہے۔ بہار میں چھٹ مہاپرب ہے اور بھارت کا مہاپرب دیوالی ہے۔ اس لیے اس مہینہ میں لوگ تہوار ی موڈ میں ہوتے ہیں۔ آج کل چونکہ بھارت میں دھرم کی توسیع ہوئی ہے، اس کا سرا سیاست سے جوڑ دیا گیا ہے، اس لیے یہ پتہ نہیں چل پاتا کہ بھگوان کے دوار پر پہنچنے والے سبھی لوگ دھارمک ہیں یا پھر دھرم کا استعمال کرنے والے۔ خیر بات جو بھی ہو عام آدمی کے لیے بھگوان پر آستھا رکھنے کے سوائے اور کوئی متبادل بھی نہیں ہے۔ اس سے سیاسی لیڈروں کی ذمہ داری بہت کم ہوگئی ہے۔ عوام ان کی جگہ بھگوان سے ہی مانگتے ہیں، عوام کو اس بات کایقین ہوچکا ہے کہ ہم کسی ایسے لیڈر سے نوکری، مکان اور کھانا پینا کیسے مانگ سکتے ہیں، جنہیں ہم نے ہی اپنا رہنما بنایا ہے۔وہ بھگوان تھوڑے ہی ہے جو ہماری مرادیں پوری کرے گا۔اسی لیے لیڈران بھی ملک کی ترقی کے لیے سڑک، مہنگائی، بے روزگاری، مل، فیکٹری، ٹرانسپورٹ پر بس اتنی ہی توجہ دیتے ہیں، جس میں ان کا مفاد چھپا ہوا ہے۔ باقی عوام مندر، مسجد کی سیڑھیوں کا سفر کرتے ہیں، کسی کی بھگوان سن لیتا ہے تو اسے نوکری مل جاتی ہے، کسی کا مرض ٹھیک ہو جاتا ہے۔ کسی کو مکان پر قبضہ مل جاتا ہے۔ اس کے بدلے میں پھر وہ بھگوان کا شکریہ ادا کرتے ہیں اور ایک دن بھگوان ان کو اپنے پاس بلا لیتا ہے اور قصہ ختم ہو جاتا ہے۔
ویسے نومبر میں دو ایسے شخص بھی پیدا ہوئے جو ان سب باتوں کو سمجھانے اور قوم کو نیند سے جگانے کے لیے دنیا میں آئے۔ ان دو شخصیات کا نام ہے، ابوالکلام آزاد اور علامہ سر محمد اقبال۔ اقبال9نومبر کو اور آزاد11 نومبر کو پیدا ہوئے۔ مونگیر کے جبل طارق فائونڈیشن نے ان دونوں کو ایک ساتھ یاد کرنے کے لیے ایک پروگرام کا انعقاد کیا۔جے ٹی فائونڈیشن کے فائونڈر طارق انور شہر کی ایک فعال شخصیت ہیں اور ہمیشہ مونگیریوں کے مسائل اور مصائب میں ان کے ساتھ کھڑے رہتے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ مونگیر کی معزز ہستیوں کے پاس وقت کی بے انتہا کمی ہوتی ہے، اس لیے وہ لوگ صرف اسی جگہ شرکت کرتے ہیں جہاں انہیں تقریر کا موقع دیا جائے یا کم از کم اسٹیج پر بٹھاکر شال اور گلدستہ پیش کیا جائے،اس کے بعد پھر وہ اپنی اپنی کوٹھیوں میں قید ہوجاتے ہیں اور انہیں سماجی سروکار سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ اس لیے وہ اس بات پر زیادہ فوکس کرنا چاہتے ہیں کہ کسی بھی پروگرام میں طلبا اور طالبات کی شرکت ہو تاکہ ان کے اندر کا خوف ختم ہو اور وہ کسی سے بھی ادبی زبان میں گفتگو کرنے کے اہل ہو جائیں۔مگر پھر وہ کف افسوس ملتے ہیں کہ طلبا میں بھی اب پڑھائی کا رجحان باقی نہیں رہا، خصوصاً مسلم طلبا اور طالبات پڑھائی میں اتنی ہی دلچسپی لیتے ہیں کہ انہیں کوئی کلریکل نوکری مل جائے اور آسانی کے ساتھ ان کی شادی ہو سکے۔
ان کا ہی نہیں بہار میں تعلیم کا جو سسٹم ہے، اس سسٹم سے طلبا کو بھی اکتاہٹ ہونے لگی ہے۔ کالجوں میں ٹیچروں اور انفرااسٹرکچر کے فقدان نے تعلیمی سرگرمیوں کو بالکل ٹھپ کر دیا ہے۔ طلبا کا ایک ہی سہارا ہے اور وہ گیس پیپر۔ اسی گیس پیپر سے وہ نوٹ بناتے ہیں اور اسی سے امتحانات میں چٹ بھی بناتے ہیں۔ حتیٰ کہ بیشتر ٹیچرس بھی اسی گیس پیپر سے سوالنامہ بھی بناتے ہیں۔ بچوں میں کتابیں خریدنے کا رجحان نہ کے برابر ہے۔ایسا لگتا ہے کہ سینئر اساتذہ نے بھی کبھی کوشش ہی نہیں کی کہ وہ بچوں کو کتابیں خریدنے کی ترغیب دیں۔ اس لیے طارق انور کو اس بات کا یقین تو ہے کہ اگر طلبا سماجی سرگرمیوں، سمینار اور ورک شاپ میں حصہ لیں گے تو صورت بدل سکتی ہے، مگر اتنی دور تک انہیں لے کر آنا بھی ٹیڑھی کھیر ہے۔ اسی لیے جب انہوں نے اقبال اور آزاد کے سلسلے میں پروگرام کیا تو کوششوں کے باوجود کچھ طالبات ہی شریک ہو سکیں۔تعجب کی بات یہ ہے کہ اتنی قلیل شرکت کے باوجود بھی وہ خوش تھے کہ کم از کم پانچ دس طلبا ہی سہی مگر شروعات تو ہوئی۔ مونگیر میں شاید انفرادی طور پر کیے گئے پروگرام میں یہ پہلا موقع تھا جب اسٹیج پر طلبا نے مائیک پکڑا ہو۔
پروگرام کے دوران پروفیسر ابھے کمار نے ابوالکلام آزاد کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ ان کے ساتھ بہت ناانصافی ہوئی۔ ایک ایسے شخص کو کانگریس بھلا بیٹھی ہے جو نہ صرف پارٹی کے صدر تھے، بلکہ تعلیم یافتہ اور دور رس نظریہ فکر کے حامل تھے۔آزادی کے بعد جامع مسجد پر دیا گیا ان کا آخری خطبہ اس بات کی دلیل ہے کہ وہ مستقبل شناس تھے۔ ان کے سامنے دیش پہلے تھا، وہ چاہتے تھے کہ ملک ترقی کرے اور مسلمان اس ملک کے معمار بنے رہیں۔ پروگرام میں بی آر ایم کی طالبات ملکہ نشاط، کلثوم پروین، نہاں اور دیگر طالبات نے اقبال کی کئی نظموں کو اپنے انداز میں سنایا۔
جہاں تک علامہ اقبال کی بات ہے تو میں اکثر کہتا ہوں کہ مسلمانوں کو سیرت نبیؐ، عمر فاروقؓ کا دور خلافت، سرسیدؒ کا مشن اور کلام اقبال ضرور پڑھنا چاہیے۔ اقبال نے جس طرح مسلمانوں اور اہل وطن کو اپنی شاعری کا موضوع بنایا، اس شاعری میں جو نسخے ہیں، وہی دراصل قوم کی ترقی کا باعث بن سکتے ہیں۔
افسوس کی بات ہے کہ جہاں سیاسی حلقہ بندی میں تاریخ کے صفحات زد پر آئے ہیں، وہیں ہماری قوم اپنے اسلاف کو بھی بھول جانے کی راہ پر ہے۔ قوم کی بنیاد ہی تعلیم پر منحصر ہے اور یہ سارے لوگ جس پر ہم بات کرتے ہیں، انہوں نے بھی تعلیم کو سب سے زیادہ ترجیح دی ہے۔ اس لیے ان تمام شخصیتوں پر ہمیشہ بات ہونی چاہیے اور نہ صرف بات ہونی چاہیے بلکہ آئندہ نسل کو بھی ان کی تاریخ ازبر کرنے کی کوشش کی جانی چاہیے۔ آج9نومبر کو یوم اردو منایا جائے گا، اس میں اردو کی ترقی اور فلاح کے نغمے گائے جائیں گے، مگر صورتحال کچھ یوں ہے کہ بھارت کے بیشتر اردو ادارے بغیر کسی سرپرست کے چل رہے ہیں اور بربادی کے دہانے پر کھڑے ہیں۔اردو ڈے منانے کے دوران اگر اسے اردو کی لڑائی کے طور پر دیکھا جائے اور اس میں ریزیولیوشن پاس کیا جائے کہ سرکار یا سیاسی نمائندہ منتخب کرتے وقت ہمیں ان سے کم از کم ایک سوال تو کرنا ہی ہے کہ وہ اردو کے لیے کیا کریں گے۔
(مضمون نگار سینئر صحافی ہیں)
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS