’تاریخ پر تاریخ‘ کا ذمہ دار کون؟: خواجہ عبدالمنتقم

0

خواجہ عبدالمنتقم

بھارت کے موجودہ چیف جسٹس اور ان کے پیش رو ان ہی کی طرح اس بات پر زور دیتے رہے ہیں کہ طالبان انصاف کو بلا تاخیر انصاف ملنا چاہیے لیکن یہ کام اتنا آسان نہیں بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ یہ ایک ہفت خواں ہے جسے طے کرنا کسی فرد واحد کا کام نہیں۔ انصاف میں تاخیر کے لیے ہم سب ذمہ دارہیں اور رہے ہیں یعنی عوام، وکلاء اور عاملہ۔ معاملات بار بار ملتوی ہونے کی روش صرف سپریم کورٹ میں ہی نہیں بلکہ ہائی کورٹ اور ذیلی عدالتوں میں بھی یہی صورت حال ہے۔اس مسئلہ کا حل موکلوں ووکلاء کی نیک نیتی اور حکومت وقت کی فعالیت پر منحصر ہے۔
دستیاب اعداد وشمار کے مطابق آج بھارت میں سپریم کورٹ، ہائی کورٹ اور نچلی عدالتوں میں لاکھوں معاملے ایک دہائی سے زیادہ عرصے سے زیر سماعت ہیں یا یہ کہ ان کا ابھی تک فیصلہ نہیں ہوا ہے اور اس تعداد میں برابر اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔مرکزی حکومت اس صورت حال سے نمٹنے کے لیے National Legal Services Authority کی طرز پر Public Grievance Portal ؓٓقائم کرنے اور شکایات سے متعلق کارروائی کے لیے ہر ہائی کورٹ میں ایکNodal Officer مقرر کرنے جیسی ہدایت جاری کرتی رہی ہے لیکن ان کے خاطر خواہ نتائج تاہنوز سامنے نہیں آئے ہیں۔ آئیے اب کچھ ان اہم وجوہات کا جائزہ لیتے ہیں جن کے باعث معاملات کا جلد نمٹارہ نہیں ہوپاتا۔
٭عوام یعنی موکلوں کا رویہ: انصاف رسانی کے معاملے میں مؤکل کا کردار بھی بہت اہم ہے۔ بہت سے جھوٹے معاملات صرف فریق ثانی کو پریشان کرنے کی نیت سے فائل کیے جاتے ہیں جبکہ ہر مؤکل کا یہ فرض ہے کہ وہ جب بھی کوئی معاملہ عدالت کے سامنے لے کر جائے تو اس کی نیت صاف ہونی چاہیے۔ علاوہ ازیں جب بھی کوئی مقدمہ زیر سماعت ہوتا ہے تو بہت کم ایسا ہوتا ہے کہ دونوں فریق معاملے کا جلدازجلد فیصلہ چاہیں۔ دونوں میں سے ایک فریق ہمیشہ اس بات میں دلچسپی رکھتا ہے کہ معاملہ کچھ دن ٹل جائے اور تاریخ مل جائے خواہ انہیں عدالت کے ذریعہ عائدہرجانہ ہی کیوںنہ دینا پڑے۔
٭وکلاء کا رویہ: وکلاء کا کام عدالت کے سامنے ایمانداری اور غیر جانبداری سے ایسی نظیریں پیش کرنا ہے جو فریقین کے حقوق کو متعین کرتی ہوں۔ اگر وکلا ء صحیح نظیریں پیش نہیں کریںگے تو اس سے اغراض انصاف پورے نہیں ہوںگے بلکہ عدالت کا وقت ضائع ہوگا۔اس کے علاوہ کبھی کبھی وکلاء اتنے زیادہ کیس لے لیتے ہیں کہ وہ متعلقہ عدالت میں پیش نہیں ہوپاتے۔صرف یہی نہیں بلکہ کبھی کبھی فریقین، ان کے وکلا ء یا گواہ بیماری کی بنیاد پرمقررہ تاریخ پر حاضر نہیں ہوتے اور ثبوت کے طور پر میڈیکل سرٹیفکیٹ پیش کر دیتے ہیں۔ اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ التوا کے لیے کبھی کبھی جھوٹے سرٹیفکیٹ پیش کیے جاتے ہیں اور عدالتیں اس کا نوٹس بھی لیتی رہی ہیں لیکن ہر ڈاکٹر کو جھوٹا سمجھنا اخلاقی اور قانونی دونوں اعتبار سے مناسب نہیں ہے اور دوسرے یہ پتہ لگانا بھی آسان کام نہیں ہے کہ کون سا سرٹیفکیٹ جھوٹا ہے اور کون سا سرٹیفکیٹ سچا ہے۔
٭ مرکزی حکومت اور ریاستیں بھی ذمہ دار : اکثر یہ کہا جاتا ہے کہ بھارت میں انصاف میں تاخیر کا ایک سبب ہر سطح پر ججز کی ناقص تعداد اور نا کافی انفرااسٹرکچر بھی ہے۔ یہ بات کافی حد تک صحیح ہے اور حکومت کو اس معاملے میں بہتر فعالیت کا اظہار کرنا چاہیے۔ مگر اس کی دیگر وجوہات بھی ہیں۔ سماجی ترقی سے لوگوں میں اپنے قانونی حقوق کے تئیں بیداری پیدا ہوئی ہے جس کے سبب مقدمات کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے۔ اس صورت حال سے نمٹنے کے لیے سرکارنے اضافی اداروں کی شکل میں لوک عدالتیں، فاسٹ ٹریک عدالتیں اور بہت سے ٹریبونل بھی قائم کیے ہیں۔ سپریم کورٹ اور ہائی کورٹوں میں انفارمیشن ٹیکنالوجی کا کام لگ بھگ مکمل ہوچکا ہے۔ ٹریبونلوں اورنچلی عدالتوں میں اسے عملی جامہ پہنایا جارہا ہے۔ جاری کردہ نوٹسوں، احکامات و فیصلوں کی پوری تفصیل مع تاریخ ویب سائٹوں پر دستیاب ہونے لگی ہے۔ ویڈیوکانفرنسنگ کی بھی اہمیت اب کافی بڑھ چکی ہے اور اس کے ذریعے اب تو گواہی وبحث بھی ہونے لگی ہے۔ علاوہ ازیںبنچنگ/گروپنگ کے ذریعہ بہت سے مقدموں کا فیصلہ ایک ساتھ ہو جاتا ہے۔
٭ فریقین کو سمن وغیرہ کی تعمیل میں دشواریاں: کبھی کبھی ایسی شکایات موصول ہوتی ہیں کہ جب بھی کوئی ہرکارہ سمن لے کر آتا ہے اور متعلقہ فریق اس سمن کو نہیں لینا چاہتا تو وہ اسے مبینہ طور پرکچھ رشوت وغیرہ دے کر تعمیل کو ٹال دیتا ہے اور وہ ہرکارہ اس پر اپنی یہ رپورٹ دے دیتا ہے کہ فریق مخالف گھر پر نہیں ملا یا شہر سے باہر گیا ہوا ہے یا گھر چھوڑ کر چلا گیا ہے یا پاس پڑوسیوں نے بتایا ہے کہ وہ کسی دیگر ملک میں چلا گیا ہے۔ یہ سلسلہ کبھی کبھی مستقل چلتا رہتا ہے اور سمن کی تعمیل نہیں ہوپاتی۔ البتہ تمام ہرکاروں کے بارے میں یہ نہیں کہاجاسکتا کہ ان سب کا عمل یکساں ہوتا ہے۔ متبادل تعمیل جیسے اخبار میں نوٹس کی اشاعت، گھر پر نوٹس یا سمن چسپاں کرنا یا بذریعہ نقارہ یا ڈھول منادی وغیرہ کی قانونی کارروائی میں کافی وقت ضائع ہوجاتا ہے اور معاملے کی سماعت اور نتیجتاً انصاف رسانی میں بے حد تاخیر ہوتی ہے۔
٭ فریقین کی تعداد میں غیر ضروری اضافہ: کبھی کبھی ضرورت کے تحت اور کبھی کبھی فریق ثانی کے لیے دشواریاں پیدا کرنے کیلئے فریق ثانی کی تعداد اتنی بڑھا دی جاتی ہے کہ ان کی تعمیل کرنا نہایت دشوار ہو جاتا ہے۔
٭ججوں کی کارکردگی کے بارے میں بھی شکایات: لوگوں کو ججوں کی کارکردگی کے بارے میں بھی شکایت ہے لیکن اس الزام میں بہت کم صداقت ہے۔ ہر جج کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ وہ کم وقت میں زیادہ سے زیادہ فیصلے دے لیکن اس میں بہت سی رکاوٹیں آتی ہیں جیسے اسٹاف کی کمی اور مقدموں کی بھرمار۔ ہم نے خود الٰہ آباد کے ایک عدلیاتی ادارے کے رجسٹرار کی حیثیت سے کتنے ہی احکام التوا صادر کیے۔ متعلقہ ہائی کورٹ بھی ذیلی عدالتوں کے ججز پر نظر رکھتی ہے اوران کی خفیہ رپورٹ میں بھی اس بات کو درج کیا جاتا ہے جس سے ان کی ترقی کے بارے میں فیصلہ کرنے کے عمل میں بھی مدد ملتی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ ہمارے ججز پر کام کا بوجھ بہت زیادہ ہے اوروقت کا اہم تقاضا ہے کہ تمام درجات کی عدالتوں کی تعداد میں معقول اضافہ کیا جائے۔بہت سی عدالتوں خاص کر ذیلی عدالتوں میں یہ بات اکثر دیکھنے میں آتی ہے کہ ایک جانب افسر جلیس کسی ایک معاملے کی سماعت میں مصروف ہوتے ہیں تو دوسری جانب ان کے اسٹینوگرافر کسی دوسرے معاملے میں وکلاء کے ذریعہ لکھا ئے گئے گواہوں کے بیان ٹائپ کررہے ہوتے ہیںجبکہ ملزم یا گواہ کا بیان درج کرتے وقت جج کا یہ فرض ہے کہ وہ گواہی کے دوران گواہ کے طرز عمل اور وضع قطع (Demenour)پر بھی نظررکھے۔(ملاحظہ فرمایئے مجموعہ ضابطہ فوجداری کی دفعہ 280 اور مجموعہ ضابطہ دیوانی کا حکم 18، قاعدہ 12)۔
(مضمون نگارماہر قانون، آزاد صحافی،مصنف،سابق بیورکریٹ و بین الاقوامی ادارہ برائے انسانی حقوق سوسائٹی کے تا حیات رکن ہیں)
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS