عبدالماجد نظامی
مدارس اسلامیہ کو عجیب و غریب قسم کے اور بے معنی الزامات کے ذریعہ بدنام پہلے بھی کیا جاتا تھا، لیکن اب اس کی نوعیت میں اضافہ یہ کیا گیا ہے کہ ان کے ذمہ داروں کو یہ دھمکیاں دی جانے لگی ہیں کہ سرکاری افسران کے مطابق جن مدارس کے کاغذات مکمل نہیں ہیں، اگرانہیں بند نہیں کیا گیا تو یومیہ دس ہزار کے حساب سے ان پر جرمانہ عائد کیا جائے گا۔ یہ دھمکی اس بات کی غماز ہے کہ جن افسران نے اس کا اعلان کیا ہے، ان کے پیش نظر یہ قطعی نہیں ہے کہ ان اقلیتی تعلیم گاہوں کو قانون کے دائرہ میں داخل کیا جائے اور جہاں کوتاہیاں پائی جاتی ہیں، ان کی درستگی کا مشورہ دے کر بہتر انداز میں قانون کے دائرہ میں شامل کیا جائے تاکہ ملک اور سماج کے جو بچے مہنگے اسکولوں میں جانے کی سکت نہیں رکھتے ہیں، ان کا مسئلہ حل ہوسکے۔ پہلے تو اس بات کا پتہ لگانے کے لیے کہ جن مدارس کے پاس رجسٹریشن کے کاغذات نہیں ہیں یا ان کو بیرون ملک سے فنڈ تو نہیں ملتے ہیں، یوپی سرکار کی طرف سے ایک ایس آئی ٹی یعنی اسپیشل انویسٹی گیشن ٹیم تشکیل دی گئی اور اس کے چند دنوں کے بعد ہی یہ فیصلہ صادر کر دیا گیا کہ صرف مظفرنگر میں ہی سو سے زیادہ مدارس مطلوبہ کاغذات کے بغیر ہی چلائے جا رہے ہیں۔ ’’ٹائمس آف انڈیا‘‘ کی رپورٹ کے مطابق ان میں سے12مدارس کے ذمہ داروں کو یہ نوٹس بھیجا گیا ہے کہ اگر انہوں نے اپنے مدرسوں کو فوراً ہی بند نہیں کیا تو یومیہ دس ہزار کے حساب سے ان پر جرمانہ عائد کیا جائے گا۔ مظفر نگر کے بنیادی تعلیم کے افسر شوبھم شکلا نے ’’ٹائمس آف انڈیا‘‘ سے گفتگو کرتے ہوئے جو معلومات فراہم کی ہیں، ان کے مطابق یہ نوٹس بلاک ایجوکیشن افسر کے ذریعہ بھیجے گئے ہیں۔ شوبھم شکلا نے یہ بھی بتایا کہ مظفر نگر کے اقلیتی ڈپارٹمنٹ نے ہمیں یہ خبر دی تھی کہ سو سے زائد مدارس درست کاغذات کے بغیر چل رہے ہیں۔ ہم ان سے کہہ رہے ہیں کہ ان کا رجسٹریشن کروائیں، کیونکہ مدرسہ یا اسکول کو رجسٹرڈ کروانے کا معاملہ نہ تو اتنا پیچیدہ ہے اور نہ ہی مشکل۔ شوبھم شکلا سے کی گئی اس پوری گفتگو سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان مدارس کے پاس کاغذات تو ہیں لیکن درست نہیں ہیں۔ یہ مسئلہ تو رجسٹریشن کے ذریعہ حل کیا جا سکتا ہے۔ لیکن جرمانہ کی دھمکی کا کیا مطلب ہے؟ ہندوستان میں تو سرکاری افسران کو خود معلوم ہے کہ اگر مدارس کے رجسٹریشن کا مسئلہ اتنا ہی آسان ہوتا تو یہ ذمہ داران پیچھے کیوں رہتے؟ لیکن اس کے باوجود جو بات معقول ہے، اس کو رد کرنے کا مشورہ کوئی ذی فہم نہیں دے گا۔ البتہ مدارس کے ساتھ بیرون فنڈ کا شوشہ چھوڑ کر برتاؤ کرنا یہ بتاتا ہے کہ سرکاری بابو جتنی سادگی سے وضاحت دے رہے ہیں، معاملہ اتنا آسان بھی نہیں ہے۔ ہندوتو کی سیاست کرنے والوں کا یہ پرانا راگ ہے جس کو وہ وقتاً فوقتاً الاپتے رہتے ہیں۔ کبھی مدارس کو دہشت گردی کے مراکز کے طور پر پیش کرتے ہیں تو کبھی انہیں بیرون ملک سے ملنے والے موہوم فنڈ کے نام پر ہراساں کیا جا تا ہے۔ بنیادی مقصد یہ ہوتا ہے کہ پورے طبقہ کو ہر وقت احساس جرم میں رکھا جائے اور ان کے خلاف کارروائی کا کوئی نہ کوئی بہانہ نکالا جائے۔ ورنہ جہاں تک قانون کے دائرہ میں کام کرنے کی بات ہے تو بھلا کون اس سے انکار کرے گا؟ اگر قانون کے مطابق ان افسران کو کام کرنا ہوتا تو پہلے انہیں اپنے کام کی نوعیت اور دائرۂ کار کو سمجھانا چاہیے تھا۔ کیونکہ یوپی مدرسہ بورڈ کے چیئرمین افتخار احمد جاوید تو یہ کہتے ہیں کہ کسی کو بھی، خواہ وہ ایجوکیشن ڈپارٹمنٹ ہی کیوں نہ ہو، یہ حق نہیں ہے کہ وہ مدارس کے معاملات میں مداخلت کرے۔ ان امور میں مداخلت کا حق صرف اقلیتی ڈپارٹمنٹ کو ہی ہے کیونکہ مدارس کی حیثیت عام اسکولوں جیسی نہیں ہے۔ لہٰذا جو قاعدہ قانون اور جرمانے اسکولوں پر نافذ ہوتے ہیں، وہ مدارس پر لاگو ہی نہیں ہو سکتے کیونکہ1995میں ہی مدارس کو اسکولوں کے نظم و ضبط کے قوانین سے الگ کر دیا گیا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ یوپی سطح پر جمعیۃ علماء ہند کے سکریٹری قاری ذاکر حسین نے کہا ہے کہ ’’غیر قانونی‘‘ نوٹسوں کے ذریعہ ایجوکیشن ڈپارٹمنٹ مدارس کو ہراساں کر رہا ہے۔ انہوں نے مزید یہ کہا کہ مظفر نگر میں مدارس کو بھیجے گئے نوٹسوں کا مقصد ایک خاص کمیونٹی کو نشانہ بنانا ہے۔ انہوں نے یہ بھی بتایا ہے کہ ان کے قوانین مدارس یا مذہبی اداروں پر نافذ ہی نہیں ہوتے ہیں۔ ان کے بقول جن مدارس کو نوٹس بھیجے گئے ہیں، ان سے کہا گیا ہے کہ تین سے پانچ دن کے اندر اندر اپنے دستاویزات پیش کریں ورنہ تفصیلات پیش نہ کرنے کی صورت میں یومیہ ان پر دس ہزار کا جرمانہ عائد کیا جائے گا۔ قاری ذاکر حسین نے اس بات کو غیرمعقول قرار دیا ہے۔ دارالعلوم دیوبند کی نگرانی میں کام کرنے والی تنظیم ’’رابطہ مدارس اسلامیہ‘‘ نے بھی اس مسئلہ پر ایک میٹنگ کی ہے اور اس میں اس بات کا ذکر کیا ہے کہ ’’سرکار کے ذریعہ ریاست کے چار ہزار مدارس کی تفتیش کا معاملہ غیر مناسب ہے۔‘‘ ظاہر ہے کہ اگر سرکار کو اس سلسلہ میں کوئی کارروائی ہی کرنی تھی تو بہتر ہوتا کہ وہ ’’مناسب‘‘ طور پر اپنا کام کرتی اور قوانین کے نفاذ کے لیے جو دائرے طے کیے گئے ہیں، ان پر عمل پیرا ہونے کو یقینی بناتی۔ اگر ایسا نہیں کیا گیا تو کیا اس سے یہ نتیجہ اخذ کیا جانا چاہیے کہ بھارتیہ جنتا پارٹی اپنے خاص سیاسی ایجنڈہ کے تحت خوف و دہشت کا ماحول قائم کرنا چاہتی ہے اور مسلم علماء کو کٹہرے میں کھڑا کرکے مدارس اسلامیہ کی بدنامی کا راستہ ہموار کرنا چاہتی ہے تاکہ علماء جب بے اثر اور بے قدر ہوجائیں گے تو مسلم بچوں کو ان کی مذہبی تعلیم سے محروم کرنا آسان ہوجائے گا اور انہیں اسلامی فکر و عقیدہ سے دور کرکے ہندوتو کے فلسفہ سے قریب کیا جاسکے گا؟ اگر معاملہ ایسا ہے تو پھر یہ دستور ہند میں ملی، مذہبی و ثقافتی آزادی پر ایک حملہ تصور کیا جانا چاہیے اور آئندہ اس کے سدباب کی راہ تلاش کرنی چاہیے۔
(مضمون نگار روزنامہ راشٹریہ سہارا کے گروپ ایڈیٹر ہیں)
[email protected]