ممتابنرجی کی تلخ نوائی یا حقیقت؟

0

مغربی بنگال کی وزیراعلیٰ ممتابنرجی اور بی جے پی کسی زمانے میں ایک دوسرے کے دست و بازو رہ چکے ہیں۔ایک دوسرے کی سہولتوں کا خیال رکھتے ہوئے دونوں ہی نے ایک دوسرے کی حمایت کی اور ساتھ ساتھ حکومت بھی کی۔ لیکن آج سیاسی بساط پر دونوں ایک دوسرے کے خلاف صف آرا ہیں۔ بی جے پی کو جب ممتابنرجی سے نقصان کا احتمال ہوتا ہے تو مرکزی ایجنسیاں ترنمول لیڈروں کی مشکیں کسنے لگتی ہیں، چھاپے ڈالے جاتے ہیں، گرفتاریاں ہوتی ہیں، تہاڑ کے دشت بے اماں کی جانب ترنمول لیڈروںکاہانکنا شروع ہوجاتا ہے۔ جواب آں غزل کے طور پر ممتابنرجی بھی تیغ بے نیام ہوجاتی ہیں۔ کف دردہن کی عملی مثال پیش کرتے ہوئے شعلہ بیانی کے معجزے دکھانے لگتی ہیں، تلخ، ترش، تند لہجے میں ہر ناگفتنی کہہ گزرتی ہیں۔حفظ مراتب کے اصولوں کو طاق پر رکھتے ہوئے نریندر مودی کی کمر کے گرد رسہ باندھ کر کھینچنے جیسے اول جلول بیانات دیتی ہیں تو کبھی وزیراعظم کوہٹلر، مسولینی تو کبھی محمد بن تغلق کا خطاب دیتی ہیں۔
اسپین اور دبئی کے سفر سے واپسی کے تقریباً ایک ماہ کے بعد آج ممتا بنرجی نے اپنی خاموشی توڑی اورکچھ اس طرح توڑی کہ ہندوستانی سیاست کو زیروزبر کرنے کا تجربہ رکھنے والی بی جے پی کو گنگ کر ڈالا۔ بی جے پی کی مکروہ سیاست کا طومار کھولتی گئیںاور ایک ایک کرکے ہر وہ کچھ بیان کرڈالا جو آج تک بی جے پی کے کسی سیاسی مخالف نے کہنے کی ہمت نہیں جٹائی تھی۔وزیراعلیٰ ممتابنرجی نے بی جے پی اور مرکزی ایجنسیوں کو کھلے لفظوں میں متنبہ کیا کہ اگر ان کی کارروائی سے ان کے کسی لیڈر کو کوئی جسمانی یا ذہنی نقصان پہنچتا ہے یا پھر برا ہوتا ہے تو وہ بی جے پی اور ایجنسیوں کے خلاف ایف آئی آر درج کروائیں گی اور قتل کا پرچہ کٹوائیں گی۔گزشتہ دس برسوں کے دوران غالباً یہ پہلا موقع ہے جب کسی مخالف جماعت نے پوری بی جے پی اور حکومتی مشنری کے خلاف قانونی کارروائی کی کھلے عام دھمکی دی ہو۔ممتابنرجی کاسابقہ ریکارڈ دیکھتے ہوئے ان کی دھمکی کو حقیقت پر محمول کرنے میں کسی کو شبہ نہیں ہوناچاہیے۔اس سے قبل وہ ای ڈی اور سی بی آئی کے خلا ف دھرنا پر بھی بیٹھ چکی ہیں، جب کہ ایجنسی گزیدہ دوسرے اپوزیشن لیڈران زبانی الزامات لگانے سے آگے کی ہمت نہیں کرپائے ہیں۔
راشن کی تقسیم میں مبینہ بدعنوانی کی تحقیقات میں ریاست کے وزیرخوراک اور موجودہ وزیرجنگلات جیوتی پریہ ملک کے گھر پر چھاپے کے فوراً بعدوزیراعلیٰ ممتابنرجی نے آج اپنی رہائش گاہ پر اخبار نویسوں سے خطاب کے دوران مرکزی تفتیشی ایجنسی کے خلاف ہراساں کرنے کا الزام لگاتے ہوئے کہا کہ جیوتی پریہ کے گھر کی تلاشی لی جارہی ہے، یہ ایک گنداسیاسی کھیل ہے۔ انہوں نے کہا کہ جاری تہوار کے موسم کے دوران ترنمول کانگریس کے رہنماؤں اور ریاستی کابینہ کے ارکان کے گھروں پر مرکزی ایجنسیوں کے چھاپے انتہائی خراب سیاسی ثقافت کی عکاسی کرتے ہیں۔جیوتی پریہ ملک ذیابیطس کا مریض ہے اور خدشہ ہے کہ مرکزی ایجنسی کی اس ’ سیاسی‘ کارروائی سے کچھ ناگہانی نہ ہوجائے، اگرا یسا کچھ ہوتا ہے تو وہ بی جے پی اور ای ڈی کے خلاف پرچہ کٹوائیں گی۔ وزیراعلیٰ نے سابق رکن پارلیمنٹ مرحوم سلطان احمد کی موت کو بھی مرکزی ایجنسیوں کی ہراسانی کا نتیجہ قرار دیتے ہوئے یاددلایا کہ ناردااسکینڈل میں سلطان احمد کو ملوث کیا گیا تھا۔ سی بی آئی کا نوٹس سلطان کے بھائی اقبال احمد کے نام آیا،انہیں جانچ کیلئے سی بی آئی دفتر حاضر ہونے کو کہاگیا تھا، اس کے فوراً بعد سلطان احمد بیمار پڑگئے اور تقریباً فوراً ہی ان کا انتقال ہوگیا۔اسی طرح رکن پارلیمنٹ پرسون بنرجی کی اہلیہ کے انتقال کو بھی مرکزی ایجنسی کی کارروائی سے ہونے والے صدمہ کا نتیجہ قرار دیا۔ وزیر اعلیٰ نے استفہامیہ لہجہ میں یہ بھی کہا کہ مرکزی ایجنسیاں بی جے پی کے بدعنوان لیڈروں اور وزرا کے خلاف سرگرم کیوں نہیں ہیں۔ مغربی بنگال کی مختلف بلدیات میں ہونے والی تقرریوں کی بے قاعدگیوں کے سلسلے میں کولکاتا کے میئر اور ریاستی وزیر فرہاد حکیم کی رہائش گاہ پر حالیہ چھاپے کا حوالہ دیتے ہوئے وزیراعلیٰ نے کہا کہ ایجنسیاںکچن کے برتنوں کی بھی تلاشی لیتی ہیں۔ ہندوستانی عوام ایسے انتقامی ایجنڈے پر مبنی نظام کو برداشت نہیں کریں گے۔اس کے ساتھ ہی ممتابنرجی نے بی جے پی پر عدالت کو کنٹرول کرنے کا بھی الزام لگایا۔ انہوں نے کہا کہ بی جے پی ہیڈ کوارٹر سے ماتحت عدالتوں کو فیصلہ کا مسودہ پہنچایا جاتا ہے۔ ممتا بنرجی نے یہ بھی دعویٰ کیاکہ اگر ماتحت عدالتوں کے جج نہیں مانتے ہیں تو انہیں ہٹا دینے کی دھمکی بھی دی جاتی ہے۔ اور بی جے پی کہتی ہے ہم نے کچھ نہیں کیا۔
مبالغہ اور سیاسی عنادکو منہاکرنے کے بعد بھی بی جے پی کے خلاف ممتابنرجی کے الزامات اتنے سنگین ہیں کہ ان سے صرف نظر نہیں کیاجاسکتا ہے۔ خاص طور سے عدالتوں کو کنٹرول کرنے اور ایجنسیوں کی کارروائی کے بعد ہونے والی ترنمول لیڈروں کی ہلاکتوں کے الزامات مکمل تفتیش اور تحقیق کے متقاضی ہیں۔ عدالت اور حزب اختلاف یہ دونوں ایسے ادارے ہیں جن کے بغیر جمہوریت کا تصور ممکن نہیں رہ جاتا ہے۔ اگر حکومت عدالت کو کنٹرول کرنے لگے اور فیصلے بی جے پی کے ہیڈکوارٹر سے آنے لگیں،حزب اختلاف کوختم کرنے کیلئے ریاستی جبر کو قانون کا سہارا ملنے لگے تو پھرسمجھ لیناچاہیے کہ جمہوریت کی بساط بھی بہت جلد سمٹنے والی ہے۔
خوش گمانی تو یہ کہتی ہے کہ ہندوستان جنت نشان پر ایسا وقت کبھی نہیںآئے گا، لیکن بی جے پی کی حکمرانی عوام کی خوش گمانیوں کیلئے باد صرصر بنی ہوئی ہے۔جن سے ملک عزیزکو بچانا ہر ہندوستانی پر فرض ہے۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS