فرانس:آزادیٔ نسواں اور مسلمان

0

پوری دنیا کو مسلم خواتین کی آزادی اور ان کے حقوق کی بہت فکر ہے۔ ان کو مسلم خواتین پردے اور حجاب میں اپنے فرائض انجام دیتی اچھی نہیں لگتی ہیں۔وہ ان کواسی طرح بے پردہ اورکسی حد تک بے لباس دیکھنا چاہتی ہے جس طرح دوسری خواتین یعنی ترقی یافتہ خواتین رہتی ہیں۔ ان کو لگتا ہے کہ مسلم خواتین کو جسموں پر حجاب زبردستی مردوں اور مسلمانوں نے پہنا دیا ہے۔ ان مسلم خواتین کو مردوں اوراسلام کی جبر سے نکالنے کے لئے ہر ممکن کوشش کرتے ہیں۔ مغربی ممالک میں خاص طورپر یوروپی ممالک میں یہ بدرجہ اتم موجود ہے۔ ان ممالک نے مسلمان عورتوںکے حجاب پہننے پر، برقعہ اوڑھنے یا ابایا پہنے پر پابندی لگادی ہے۔ اس میں تازہ ترین بلکہ بدترین مثال فرانس کی ہے۔ یہ ممالک اگرچہ قوانین نسواں کے حامی ہیں مگر جب خواتین بھی لباس کے معاملہ میں اپنی مرضی اپنی خواہش کے حساب سے رویہ اختیار کرتی ہیں تو خواتین کی آزادی کے نظریہ Pro Choice کے بجائے یہ ممالک تن پوشی اور پردہ نشینی کو اپنے ملک کی اقدار اور ثقافت کے خلاف قرار دینا شروع کردیتے ہیں۔ یعنی خواتین اپنی مرضی اور خواہش کے مطابق حمل گروا سکتی ہیں، منی اسکرٹ پہن سکتی ہیں، بازاروں میں گھوم سکتی ہیں ، ساحل پر معمولی کپڑوں میں گھومنے کا پیدائشی حق رکھتی ہیں مگران کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ ساحل پر بکنی کے بجائے شلوار قمیض اور پورا لباس پہن کر دیگرآزاد خیال عورتوں کی طرح بیچ پر گھوم یا تیراکی نہیں کرسکتی ہیں۔
فرانس نے پچھلے دنوںاسکولوں میں مسلم طالبات کے ذریعہ ابایا پہننے پر پابندی عائد کردی۔ اسے فرانسیسی انتظامیہ کا استدلال یہ تھا کہ یہ سیکولرزم کے اصولوں کی صریحاً خلاف ورزی ہے۔ جبکہ امریکہ اور دیگرممالک جن میں برطانیہ بھی شامل ہے۔ اسکولوںاور دیگر تعلیمی اداروں میں اپنی مرضی کا مشرقی لباس پہننے کا حق دینا سیکولر اصولوں کی بنیاد ہے۔ طالبات کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ اپنی مرضی اور مذہبی، قبائلی، ملکی اصولوں کواختیارکرسکتے ہیں۔پورے کپڑے پہن سکتے ہیں یعنی مکمل سترپوشی کرسکتے ہیں۔ مگراس معاملہ میں فرانس کے اصول اور فرانس کے تہذیبی تقاضے بالکل مختلف، منفرد اور ممتاز ہیں اوران زرین اصولوں کے مطابق حکام یہ طے کریںگے کہ مسلم طالبات کیا زیب تن کریں اور اسکولوںاو تعلیمی اداروں میں کیا وضع قطع اختیار کریں۔
دراصل فرانس میں مسلمانوں کی بڑی آبادی ہے، فرانس کے مسلمانوں کی غالب اکثریت مغربی افریقہ اور دیگر عرب ملکوں سے ہجرت کرکے آئے ہوئے مسلمانوں کی ہے۔ یہ مسلمان اپنی ثقافتی، مذہبی اور قبائلی پہچان اور وضع قطع کو برقرار رکھنا چاہتے ہیں۔ مگر اس عظیم سیکولر ملک نے اب تک تو مسلم طالبات کو یہ اجازت دے رکھی تھی کہ وہ اپنی روایات کو اسکولوںاور درس گاہوں میں اختیار رکھیں مگر اچانک ستمبرکے اوائل میں حکام کا دل بدلا اور دل بدلنے کے ساتھ سیکولرزم کے اصول بدلے۔اصولوںاور ضوابط میں تبدیلی کا دور 2004 سے زیادہ شدت سے شروع ہوا۔ سرکاری اسکولوںمیں حجاب پر پابندی عائد کردی گئی۔ 2010 میں عوامی مقامات پر پورا چہرہ ڈھانپنے پر پابندی عائد کی گئی۔ 2016 میں اس طرح کی پابندیوں کا دائرہ وسیع ہوتے ہوئے سوئمنگ پول کے اندر پورا لباس پہن کر تیراکی پر پابندی عائد کردی گئی۔ یعنی اگر برقعہ پوش یا باحجاب خواتین اپنے تیراکی کے شوق کوپورا کرنا چاہتی ہیں تو انہیں فرانسیسی قواعد کے مطابق ہی بکنی پہن کر یعنی نیم عریاں ہوکر ہی اس شوق کو پورا کرنا ہوگا۔ اسی طرح باحجاب خواتین کو اپنے شوق پورے کرنے کی اجازت نہیں ہوگی۔پچھلے سال نومبر میں قومی وزیر تعلیم پیپ این نریہ فرانس کے سرکاری اسکولوں میں مذہبی شناخت ظاہر کرنے والے لباس پر پابندی عائد کردی۔ جوطالبات ان اصولوں کی خلاف ورزی کرتی ہیں ان پر اسکول آنے یا تعلیم حاصل کرنے پر پابندی کا اعلان کردیا۔ یعنی باحجاب، برقع نشیں خواتین کو تعلیم حاصل کرنے کے بنیادی حق سے صرف اس لئے محروم کردیا جائے گا کہ وہ اپنا روایتی، مذہبی یا قبائلی لباس زیب تن کرنا چاہتی ہیں۔ وزیر موصوف نے اپنی منشا ظاہر کرنے میں کوئی تامل نہیں کیا اور فیصلہ صادر فرمادیا کہ ان کا رویہ (ابایا اوڑھنے والوں کا رویہ) جمہوری ملک کی اعلیٰ سیکولر اقدار کے منافی ہے۔فرانس کا نظریہ سیکولرزم مذہبی اثرات سے آزادی کے اصولوںپر مبنی ہے۔ مذہبی اثرات سرکاری اقدامات اور اصولوں کوطے نہیں کرتے ہیں۔ ٭٭٭

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS