نئی دہلی (ایس این بی): قومی اقلیتی کمیشن کے چیئرمین نے جمعرات کو کہا کہ حال ہی میں ہریانہ میں نوح اور کچھ دیگر مقامات پر ہوئے تشدد کوئی ’منظم جرائم جیسی واردات نہیں تھیں اور اسے ا نتظامیہ کی ناکامی بھی نہیں کہا جا سکتالیکن اس کی سطح پر کچھ کوتاہیاں ضرور رہیں۔
کمیشن کے چیئرمین اقبال سنگھ لال پورہ نے کہا کہ مقامی لوگ تشدد میں ملوث نہیں تھے اور سوشل میڈیا کے ذریعہ پھیلائے گئے پروپیگنڈے کی وجہ سے کچھ نوجوان اشتعال انگیزی کا شکار ہوئے، جس پر معاشرے کی توجہ کی ضرورت ہے۔ ان کے مطابق حال ہی میں کمیشن کی ایک ٹیم نے تشدد سے متاثرہ علاقوں کا دورہ کیا اور مختلف برادریوں کے لوگوں اور انتظامی اہلکاروں سے بات کی۔
واضح رہے کہ 31 جولائی کو ایک فرقہ وارانہ تصادم میں دو ہوم گارڈ اہلکاروں سمیت 6افراد مارے گئے تھے جو گروگرام تک پھیلے وشو ہندوپریشد کے جلوس کو روکنے کی کوشش کرنے کے بعد ہجوم نے شروع کر دیا تھا۔ لال پورہ نے صحافیوں کو بتایا، ’کمیشن کی ٹیم نوح اور سوہنا گئی تھی۔ ہم نے دونوں برادریوں کے لوگوں اور انتظامیہ کے اہلکاروں سے بات کی۔ لوگوں کا کہنا ہے کہ تشدد کرنے والے لوگ باہر کے تھے۔ مقامی مسلمانوں نے مندروں کی حفاظت کی اور ہندوؤں نے مساجد کی حفاظت کی۔ یہ ہم آہنگی وہاں دیکھی گئی۔ انہوں نے کہا کہ یہ تشدد ’منظم جرائم‘ کی واردات نہیں تھی، مگرسوشل میڈیا کے ذریعے پھیلائی گئی غلط معلوما ت نے حالات کو مزید خراب کر دیا۔
مزید پڑھیں: سپریم کورٹ نے بلقیس بانو کے معاملے کی سماعت پوری کی، فیصلہ محفوظ رکھا
لال پورہ نے ایک سوال کے جواب میں کہا، ’میں اسے انتظامیہ کی ناکامی نہیں کہوں گا، لیکن اس میں کوتاہیاں ضرور تھیں۔‘رکن اسمبلی رمیش بدھوری کے متنازعہ بیان کے بارے میں پوچھے جانے پر انہوں نے کہا کہ وہ پارلیمنٹ کے اندر کہی گئی باتوں پر کوئی تبصرہ نہیں کریں گے۔ لیکن سبھی کو حدود میں رہنا چاہیے۔