بھوپال: پانچ ریاستوں میں ڈیڑھ دو مہینے کے درمیان انتخابات ہونے والے ہیںاور اس کے فوراً بعد پارلیمانی انتخابات ہوں گے۔جب سے انتخابات کی خبر آئی ہے تب سے ہی تمام سیاسی اور سیکولر پارٹیاں متحرک ہوگئیں ہےں، ہر ایک اپنے اپنے حساب سے عوام کو اپنی جانب راغب کرنا چاہتا ہے۔اسی درمیان تمام ہی پارٹیوں کی نظر پسماندہ مسلم سماج پر بھی پڑی ہے اور وہ اپنے مفاد کی خاطر ان کا استعمال کرنا چاہتی ہے لیکن انھیں اب مزید دھوکہ نہیں دیا جاسکتا۔ ان خیالات کا اظہار سابق آئی پی ایس افسر ایم ڈبلیو انصاری نے یہاں جاری ایک پریس ریلیز میں کیا۔
انھوں نے کہاکہ تقریباً ایک سال قبل وزیر اعظم نریندر مودی نے حیدرآباد میں دوران تقریر پسماندہ مسلم کو لے کر اپنی فکر ظاہر کی تھی ،تبھی سے دیگر سیکولر پارٹیوں کو بھی احساس ہوا ہے کہ مسلمانوں کی اکثریت پسماندہ ہے۔ اس لئے تمام ہی پارٹیوں نے اب اپنے سیاسی مفاد کے لئے پسماندہ مسلم (اوبی سی، دلت مسلم) کا نعرہ لگانا شروع کر دیا ہے۔ یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ پسماندہ سماج کے جولوگ بی جے پی میں ہے یا بی جے پی کی طرف مائل ہو رہے ہیں ،انہیں یہ بات اچھی طرح یاد رکھنی چاہئے کہ گذشتہ چند برسوں میں جتنے بھی مظالم ہوئے ہےں، چاہے وہ مآب لنچنگ ہو،بے گناہوں کے گھر پر بلڈوزر چلانا ہو، بلقیس بانو کیس ہو، گجرات دنگے ہو، کھڑگون دنگے ہوں، نوح کا معاملہ ہو یا اتراکھنڈ غریب بزنس مین کا معاملہ ہو، جہاں جہاں بھی مسلمانوں کو ستایا گیا،گھروں سے بے گھر کیا گیا، وہ سب بی جے پی کے دورِ حکومت میں ہی ہوا ہے اور اس کے شکار مسلمانوں کا غریب طبقہ جو محنت کش اور رات دن روزی روٹی کے لئے مشقت کرتا ہے وہی ہوا ہے۔
انھوں نے کہا کہ اس وقت پورے ملک کی عوام اور خاص کر ایس سی ایس ٹی، او بی سی طبقہ یہ سوال کر رہا ہے کہ اگر وزیر اعظم نریندر مودی کو اتنی ہی پسماندہ مسلم سماج سے محبت ہے تو انہیں فوراً ہی 1950کا پریسڈینشیل آرڈر (صدارتی حکم)آرڈیننس کو ختم کرنا چاہئے۔آئین کا آرٹیکل (1)341 ،آئینی تفریق کو فوری طور پر ختم کرنا چاہئے۔لےکن حقیقت یہ ہے کہ ابھی تک جو بھی قانون بنا ہے اس سے 80فی صد پسماندہ مسلم کو ہی نقصان ہوا ہے۔اس کا مطلب یہ ہے کہ مسٹر مودی اور ان کے وزراءپسماندہ مسلم سماج کے حامی نہیں ہے بلکہ محض چناوی مفاد کے لئے ان کا استعمال کرتے ہیں اسلئے ضرورت اس بات کی ہے پسماندہ مسلم سماج کو ہی اپنی تعلیمی پسماندگی کو دور کرنا ہوگا تاکہ موجودہ اور آنے والی نسل اپنے حقوق کے لئے خود آواز اُٹھا سکے اور صحیح کو صحیح اور غلط کو غلط ثابت کر سکے ورنہ اسی طرح ان کا استعمال یہ سیاسی پارٹیاں کر تیں رہےں گی.
سابق ڈی جی پی نے کہا کہ جو مسلم کسی بھی خیر کی توقع رکھتے ہوئے بی جے پی شامل ہوئے ہیں یا پہلے سے ہی بی جے پی میں ہےں یا اس کے سپوٹر (مداح ) ہےں انہیں اُن سبھی ایس سی / ایس ٹی ایم پیز سے جو پارلیمنٹ میں ہونے کے باوجود ایس سی / ایس ٹی پر ظلم ہوتا ہوا دیکھ کر بھی نہیں بولتے، سبق لینا چاہئے۔کیونکہ وہ پارٹی میں تو ہیں لیکن اپنی زبان نہیں کھول سکتے۔ اسلئے کہ بی جے پی کے نزدیک ایس سی /ایس ٹی ، او بی سیز کی کوئی وقعت و حیثیت نہیں ہے۔اسلئے کہ ایک طرف تو ہمارے وزیر اعظم نریندر مودی غریبوں کی فلاح و بہبود کی بات کرتے ہیں دوسری طرف اپنی ضد اور انا کی خاطر آئین کو بالائے طاق رکھ دیتے ہیں۔
انھوں نے الزام لگایا کہ ایک ایسے وقت میں جس وقت عام آدمی بھوکا مر رہا تھا ۔کورونا جیسی وبا پھیلی ہوئی تھی، لوگوں کے کھانے کے لالے پڑے ہوئے تھے ،چاروں طرف افرا تفری مچی ہوئی تھی ، پورا ہندوستان پریشان تھا،کروڑوں روپئے خرچ کرکے نئے پارلیمنٹ ہا¶س سنٹرل وسٹا کی تعمیر کرائی گئی اور ستم تو یہ کیا کہ جب اس کے سنگ بنیاد کا موقع آیا تو اُس وقت کے موجودہ صدر جمہوریہ رام ناتھ کووند جن کا آئینی حق تھااور جو کہ ایس سی سے تعلق رکھتے تھے ان سے بھی نہیں پوچھا گیا اور جب افتتاح کا موقع آیا تو اِس وقت کی موجودہ صدر جمہوریہ محترمہ دروپتی مرمو جو کہ ایس ٹی سے تعلق رکھتی ہےں انہیں برطرف کر جناب والا نے خود ہی افتتاح کر ڈالا ،جو کہ آئین کی توہین تو ہے ہی ایس سی ایس ٹی کے جذبات کو سخت مجروح کرنا بھی ہے۔ اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ بی جے پی پارٹی ایس سی/ ایس ٹی/ او بی سی کو کتنی عزت وقار بخشتی ہے ،کل ملاکر آج بھی ایس سی/ ایس ٹی/ او بی سی کو استعمال کرو اور استعمال کے بعد دودھ کی مکھی کی طرح نکال کر پھینک دو، یہ بات صاف اور عیاں ہو چکی ہے کہ بی جے پی ایس سی/ ایس ٹی/ او بی سی کو محض انتخابی فائدہ کے لئے استعمال کرتی ہے اور اب پسماندہ مسلم کو بھی بڑے پیمانے پر اپنا ووٹ بینک بنانا چاہتی ہے۔آج بھی ذات پات کا بھید بھاﺅ جاری ہے۔
مزید پڑھیے:
محبوبہ مفتی کی سعودی عرب میں فوت ہونے والے کشمیری نوجوان کی میت واپس لانے کے لئے وزارت امور داخلہ کی مدد طلب
کھڑگے، راہل، پرینکا نے میلاد النبی کے موقع پر ہم وطنوں کو مبارکباد دی
انھوں نے کہا کہ ان پسماندہ مسلمانوں کے لئے جو بی جے پی سے کسی بھی خیر کی توقع رکھتے ہیں۔ اگر واقعی یہ پارٹی پسماندہ سماج کی خیر خواہ ہے تو تمام صوبائی سرکاروں کو اسٹیٹ مسلم پسماندہ کمیشن بنانے کی ہدایت دے جس سے پسماندہ سماج کومعیاری تعلیم ملے، اقتصادی مسائل حل ہو اور حفاظت بھی ہونیز بی جے پی بھی مسلمانوں کو آبادی کے تناسب سے ٹکٹ دے کر تاریخ رقم کرے، تمام ہی پارٹیاں مسلسل ان کے ساتھ نا انصافی کر رہی ہیں، کسی نے بھی ٹکٹ آبادی کے تناسب سے نہیں دیا ہے۔
یہ تمام مطالبات پسماندہ مسلم سماج کو کرنا چاہئے اس کے علاوہ اشرفیہ طبقے کو برا بھلا کہنے کی بجائے اپنے آپ کو تعلیم یافتہ کرکے خود کو مضبوط کرنا ہوگا اور اپنے حقوق کے لئے خود آواز بلند کرنا ہوگی اور جمہوریت کا بھرپور فائدہ اُٹھانا چاہئے۔