خونِ دل سے اردو کی خدمت کرنے والا مجاہد

0

عارف عزیز
اُردو صحافت کا آغاز’’ اخبارجامِ جہانُما‘‘ سے ہوتا ہے ، لیکن اِس کی نئی صورت گری کرنے والے مولوی محمد باقر تھے، انہوں نے ’’ دہلی اخبار‘‘ جاری کیا ، جو بعد میں ’’ دہلی اُردو اخبار‘‘ کے نام سے مشہور ہوا، اِسے اُردو کی خبری صحافت کا نقطۂ آغاز قرار دیا جاسکتا ہے ، اِس لحاظ سے مولوی محمد باقر شمالی ہند میں اُردو صحافت کے بانی ہی نہیں وہ پہلے صحافی تھے، جنہوں نے صحافت کے پیشہ کو مجاہدہ و مشن میں تبدیلی کرنے کا کارنامہ انجام دیا اور اِسی صحافتی جہاد میں اُنہیں شہادت کی معراج بھی حاصل ہوئی، وہ دہلی کے ایک خوش حال خاندان سے تعلق رکھتے تھے، جس خاندان کے عقیدت مند ہندوستان بھر میں پھیلے ہوئے تھے کیونکہ اُن کے والد مولانا محمد اکبر پائے کے مجتہد تھے اور ایک دینی مدرسہ بھی چلاتے تھے، جس سے طلباء کی بڑی تعداد فیض یاب ہوتی تھی، یہ خاندان انگریزوں کا شدید مخالف تھا، لہٰذا انگریزوں کی چھوٹی موٹی ملازمت کے بجائے مولوی محمد باقر نے اخبار نکالنے کا فیصلہ کیا، اُس وقت اُردو کو سرکاری زبان کا درجہ مل گیا تھا، اخبار نکالنے پر عائد پابندیاں بھی ختم ہوگئی تھیں یعنی اظہار خیال کی آزادی کی راہ ہموار ہوگئی تھی تو 1837 میں انہوں نے اپنے ہفت روزہ کا آغاز کیا، جو اُردو کے نثری ادب میں ایک انقلاب کا بانی بنا اور 1857تک تقریباً 20 برس حق و انصاف کی تاریخ رقم کرتا رہا۔
یہ ہندوستانی صحافت کا ابتدائی دور تھا، عام اطلاعات یا اخباری مواد کے لئے اخبار و جرائد انگریزی پرچوں اور راجہ و نوابوں کے قلمی اخبارات پر انحصار کرتے تھے۔ لیکن مولوی باقر نے محدود ذرائع کے باوجود خبروں کی تلاش و جمع کرنے کا ایک نظام بنانے کی کامیاب سعی کی، اُن کے اخبار کے مطالعہ سے واضح ہوتا ہے کہ انہو ں نے واقع نگار بالخصوص ذمہ داران حکومت تک رسائی رکھنے والے خبر نویسوں کا ایک نیٹ ورک بنا لیا تھا، جو آج کی طرح موقع واردات پر پہنچ کر خبریں جمع کرنے یعنی اسپاٹ رپورٹنگ کے کام میں مصروف رہتا تھا دہلی اُردو اخبار میں 1857 کی جنگِ آزادی کی آنکھوں دیکھی خبریں اِس کی زندہ مثال ہیں اِس اخبار کی ترتیب و تدوین میں نُدرت کا اندازہ اِس سے ہوتا ہے کہ اُس کے صفحات و کالم کے عنوان مقرر تھے، دربار کی خبروں کے لئے ’’ حضور والا‘‘ اور کمپنی کی خبروں کے لئے ’’ صاحب کلاں بہادر‘‘ کی سرخی لگائی جاتی تھی، مقامی خبروں کو بھی اُ ن کی اہمیت کے پیش نظر جگہ دی جاتی تھی، دہلی اُردو اخبار کے دستیاب شماروں پر نظر ڈالنے سے اُس عہد کی سیاسی ، سماجی ، معاشی اور مجلسی زندگی کی خصوصیات کی ایک تصویر سامنے آجاتی ہے ،مولوی باقر ایک بیدار مغز صحافی تھے، جنہیں اخبار کی طاقت کا ہی نہیں اُس کی ذمہ داریوں کا بھی احساس تھا،اُردو صحافت کے عہد طفولیت میں ہی وہ صحافت کی اقدار ، اخلاقیات اور فرائض پر بحث کرتے اور اُنہیں عملی طور پر برت کر دکھاتے نظر آتے ہیں۔
بحیثیت مجموعی ایک صحافی کی حیثیت سے مولوی محمدباقر کی خدمات بے پناہ ہیں ، انہوں نے اُردو صحافت کے خطوط طے کئے ،اُسے حب الوطنی کا درس دیا، قومی سروکار اور عصری تقاضوں سے اُسے وابستہ کیا، اُسے علم وفن کی روشنائی ہی نہیں دی اپنے خونِ جگر کا نذرانہ بھی پیش کیا، وہ صحافت کے لئے پیدا ہوئے تھے اور وقت آیا تو اُسی پر قربان ہوگئے، اُن کی صحافت اور اخبار انگریز حکمرانوں کی نظرمیں شروع سے دشمن کا درجہ رکھتے تھے۔1857 کی جنگ آزادی کو بھڑکانے میں اُس نے جو کردار ادا کیا انگریز اِس سے نالاں تھے ،لیکن وہ خود بڑے حقیقت پسند تھے ، ایک طرف وہ مجاہد آزادی اور حریت پسند صحافی کے فرائض انجام دے رہے تھے، دوسری طرف انگریز یا عیسائیوں سے نفرت اُن کے مزاج میں شامل نہیں تھی بلکہ اُنہیں سیکولر فکر و ذہن کا مالک کہا جائے تو غلط نہ ہوگا، اِسی رواداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے مولوی باقر نے دہلی میں میرٹھ کے غدر کی چنگاری پہنچی اور عوام بے قابو ہو گئے۔ تواُن کے غیض و غضب سے اپنے ایک انگریز دوست دہلی کالج کے پرنسپل اور عیسائی مبلغ ٹیلرکی جان بچانے کے لئے اپنے گھر میںاُسے پناہ دی تین دن کے بعد حالات پر سکون ہوگئے تو ٹیلرمولوی باقر کے گھر سے باہر نکل کر کمپنی کے دفتر جانے لگا راستے میں کچھ لوگو ں نے اِسے پہچان کر مارڈالا۔ مولوی باقر اِس قتل کی پاداش میں گرفتار ہوئے ایک روایت یہ ہے کہ ٹیلر نے گھر سے رخصت ہوتے وقت اہم کا غذات کا ایک بنڈل مولوی صاحب کے سپرد کیا تھا کہ وہ اُسے انگریزحاکموں تک پہنچادیں چنانچہ شہر پرانگریز قابض ہوگئے تو شہری اندھا دھند گرفتار کئے جانے لگے ، مولوی صاحب انگریز دشمنوں کی پہلی صف میں تھے، اُن پر ٹیلر کی موت کا الزام بھی تھا لہٰذا وہ گرفتار کر لئے گئے ، ہر چند کہ مولوی صاحب نے اپنی برأت میں ٹیلرکے کاغذات کا بنڈل انگریز حاکم ہڈ سن کے سپرد کیا لیکن اِن کاغذات میں ٹیلر نے اطالوی زبان میں یہ تحریر چھپا کر رکھ دی تھی کہ مولوی باقر نے اُسے پناہ تو دی لیکن اُس کی جان بچانے کی کوشش نہیں کی ، تحریر پڑھ کر ظالم ہڈسن نے اُنہیں گولی مارنے یا توپ سے اُڑا دینے کا حکم دے دیا، مولوی باقر کی تاریخ شہادت کے بارے میں اختلاف ہے کہ اُنہیں 16یا 17 ستمبر 1857 کو شہید کیا گیا ، لیکن اِس حقیقت پر سب کا اتفاق ہے ، وہ اُردو بلکہ ہندوستانی صحافت کے پہلے شہید ہیں، جنہوں نے وطن کی آزادی کے لئے اپنی جان قربان کردی۔

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS